میرا گھر میری جنت۔ ڈائمنڈ جوبلی


آج بھی اس ملک کو روشنی (بجلی) اور روشن خیالی درکار ہیں۔ لہاذا اپنے حصے کی شمع جلانی ہو گی!

پاکستان کی پچھترویں سالگرہ (ڈائمنڈ جوبلی) ہر پاکستانی کے لیے دلی خوشی اور آرزووں کے محور کا دن ہے۔ ایسا کہنے میں کوئی قباحت نہ ہو گی کہ 22 کروڑ دل اس خواہش میں دھڑک رہے ہیں کہ آزادی، خوشحالی، ترقی اور امن ان کی زندگیوں کی ضمانت ہو۔ تمناؤں کا یہ سمندر اپنے گھر کو سنوارنے کی دعا میں مشغول ضرور ہے مگر کیا اپنے حصے کی شمع جلانے کو تیار بھی ہے؟

اس سے پہلے کہ وقت کی ریت ہاتھ سے سرک جائے، پانی سر سے گزر جائے اور کہیں دیر نہ ہو جائے آؤ کہ نظر ثانی کر لیں۔

بلا شبہ دارالحکومت اسلام آباد کی سج دھج، جشن کا سما اور اہتمام خوش آئند ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض سرکاری عمارتوں کی سجاوٹ اور تقریبات ہمیں وہ مقاصد دلا سکتی ہیں جس کی یہ امین ہیں؟

قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں، کشمیر اسمبلی اور گلگت بلتستان اسمبلی پارلیمانی نظام کی علامت ہیں جو ہمیں براستہ جمہوریت گلدستے کی مانند جوڑے ہوئے ہے۔ صوبائی خودمختاری اس گلدستے میں رنگوں اور خوشبو کی طرح ناگزیر ہے۔

پارلیمانی نظام وفاق کو چلانے کا موزوں طریقہ کار ہونے کے ساتھ قومی تشخص قائم رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔

ایوان بالا اور ایوان زیریں سیاسی، سماجی، قومی اور معاشی امنگوں کے علمبردار بھی ہیں اور ترجمان بھی۔ جس کے تحت جمہوری حکومت عوامی توقعات کو پورا کرنے کی مجاز ہے اور ریاست ملکی و قومی سلامتی کی رکھوالی کی ذمہ دار۔ یہ تو ہے جمہوری تصور کی مثالی تصویر۔

جس کے برعکس حقیقت میں اراکین پارلیمنٹ و اسمبلی، ایوان بالا کا تقدس، مینڈیٹ کی حفاظت، ووٹ کی عزت، آئین کی پاسداری، قانون کی ترویج، عوام کی حاکمیت ابھی منوانا باقی ہے۔

اس پاداش میں پچھتر سالہ ملکی تاریخ میں عوامی نمائندگان کی انتخابی عمل سے آنے والی حکومتوں کا دورانیہ 1970 میں ہونے والے پہلے الیکشن ”بالغ حق رائے دہی“ سے شروع ہوا۔

اس سے قبل کی داستاں جاننے کے لیے ایک جھلک کچھ یوں دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان بننے سے تین دن پہلے 11 اگست کو قائد اعظم محمد علی جناح نے پہلا تاریخی خطاب آئین ساز اسمبلی میں کیا۔ لہاذا صدارتی نظام کے متوالوں کو باور کروانا ہو گا کہ یہ ملک اپنی وراثتی بنیادوں میں پارلیمانی نظام لے کر آیا گو کہ اس وقت 1946 میں بننے والی اسمبلی ”بالغ حق رائے دہی“ سے عاری تھی۔

ہونا تو چاہیے تھا کہ جمہوریت مضبوط کی جاتی اور جمہوری عمل کی راہ میں خامیوں کی بروقت نشاندہی کے ساتھ درستگی بھی یقینی بنائی جاتی مگر یہ ملک آمریت کی تجربہ گاہ بنا رہا۔

1958 سے شروع ہونے والے دور مارشل لا میں آمر ایوب خان نے صدارتی نظام کی طرز پہ بی ڈی (لوکل گورنمنٹ) کے نمائندگان کا الیکٹورل کالج بنا کر بھی چناؤ کروا دیکھا جو کارگر نہ ہوا۔ آمر اپنے ذاتی مفادات، حاکمیت اور بیچ بچاؤ کے لیے اسے نظریہ ضرورت کا نام دے کر پارلیمانی نظام کی بھینٹ چڑھاتے رہے۔

نظریہ ضرورت ایک تاریخی داستان ہے جو 1958 کے مارشل لا سے ہی جنم لے چکی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ اپنی جڑیں پھیلاتی رہی۔ جس کو اب وقت آ گیا ہے کہ رسم قل ادا کر دی جائے اور نظریہ جمہوریت، خوشحالی اور ترقی کو پروان چڑھنے دیا جائے۔

آج تک عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی جمہوری حکومتوں کا دورانیہ لگ بھگ 28 سال بنتا ہے۔ 1947۔ 58 بننے والے وزیراعظم آئین ساز اسمبلی میں رائے شماری سے منتخب ہوتے تھے۔

کل ملا کر اس وقت پاکستان میں 20 وزیراعظم بن چکے ہیں مگر اس ایوان/پارلیمان میں منتخب ہونے والا اور منتخب ہو کر پارلیمان میں آنے والا ایک بھی وزیراعظم تا وقت ڈائمنڈ جوبلی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا۔ مارشل لا اور غیر جمہوری قوتوں نے اس منصب کا گھیراؤ کیے رکھا۔

سیاسی طرز عمل ایسے شکنجے میں جکڑا رہا کہ سیاست بطور ادارہ پنپ سکا نہ لیڈر بطور منتخب وزیراعظم۔

سقم سیاستدانوں میں نہیں سیاسی نظام کی راہ میں حائل متبادل طاقت کے بل بوتے پہ پیدا کی جانے والی رکاوٹوں میں ہے۔

سقم قانون میں نہیں اس کی پاسداری نہ کرنے والوں میں ہے
سقم پارلیمان میں نہیں اسے پامال کرنے والوں میں
سقم آئین میں نہیں اس کی پاسداری نہ کرنے والوں میں ہے
سقم جمہوریت میں نہیں اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں میں ہے۔

یاد رہے پاکستان فیڈریشن ہے۔ فیڈریشن کو محض گلدستے سے تشبیہ دینے سے کام نہیں چلے گا۔ پارلیمانی جمہوریت ہی اس کا حل ہے۔

اس گلدستے کی خوشبو اور رنگ تبھی نکھریں گے جب ہمارے بلوچ بہن بھائیوں کی آہ و زاری پر مرہم کی ضمانت پارلیمان دے گی۔ جب خیبر اور فاٹا کے نوجوان کی آواز پارلیمان بنے گی۔ جب جنوبی پنجاب کی پکار پارلیمان میں گونجے گی۔ جب لاڑکانہ، عمر کوٹ اور تھرپارکر کی دستک کی سنوائی پارلیمان میں ہو گی۔ جب گلگت بلتستان کی ضمانت پارلیمان بنے گئی۔ جب کشمیر کی بقا اور سلامتی پارلیمان دے گی۔ یہ ہے وہ وطن جس کے لیے کہا گیا تھا۔

یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں پاسبان اس کے
یہ چمن ہمارا ہے، ہم ہیں نغمہ خواں اس کے

سلمیٰ بٹ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلمیٰ بٹ

سلمیٰ بٹ کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے اور وہ پنجاب اسمبلی کی رکن ہیں۔ ان کی خاص دلچسپی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے میں ہے۔

salma-butt has 6 posts and counting.See all posts by salma-butt

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments