سلمان رشدی کی شہرت کا باعث ہماری نفرت تھی


بعض اوقات ہماری نفرت کسی دوسرے کے مقاصد کو کامیاب کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہوتی ہے اور ہم نا چاہتے ہوئے بھی استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی مثال سلمان رشدی ہے۔ جس نے قریب 3 عشرے قبل ایک ناول لکھا وہ ناول ایک گھٹیا اور تھرڈ کلاس قسم کا ناول تھا جس کی پہلی بار چھپی ہوئی کاپیاں بھی سیل ہونا ممکن نہیں تھیں۔

یہ وہ دور تھا جب عرب میں ایران عراق جنگ اپنے اختتامی ادوار سے گزر رہی تھی۔ عرب دنیا سیاسی طور پہ شدت سے منقسم ہو چکی تھی۔ مذہب اس تقسیم کو گہرا کرنے کے لیے استعمال ہونے والا سب سے بڑا عنصر تھا۔ ایک طرف شیعہ قیادت تھی جسے ایران میں امام خمینی لیڈ کر رہے تھے دوسری طرف سعودی عرب متبادل قیادت کے لیے سنی ممالک کو لیڈ کر رہا تھا۔ عرب ممالک میں قیادت کے سخت مقابلے کی فضا تھی۔ ایران کے کامیاب انقلاب کے بعد امام خمینی صاحب شہرت کے آسمان پہ سب سے زیادہ چمکدار ستارے کے طور پہ موجود تھے۔

سلمان رشدی کی کتاب پہ امام خمینی صاحب کی نظر پڑی انہوں نے اس پہ فتویٰ جاری کر دیا اور قتل کرنے والے کو خطیر انعام کا اعلان بھی کیا۔ انہوں نے 14 فروری 1989 ء کو یہ فتویٰ دیا کہ رشدی نے اپنے اس ناول میں مذہب اسلام کی توہین کی تھی۔ اپنے فتوے میں آیت اللہ خمینی نے دنیا بھر کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اس کتاب کے مصنف اور ناشرین کو جلد از جلد قتل کر دیں تاکہ ”پھر کوئی بھی اسلام کی مقدس اقدار کو ٹھیس پہنچانے کی جرات نہ کرے۔“ اپنے فتوے میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی شخص سلمان رشدی کی موت کی سزا پر عملدرآمد کرتے ہوئے خود بھی مارا جاتا ہے تو وہ ’شہید‘ ہو گا اور جنت میں جائے گا۔ سلمان رشدی کی جان لینے والے کے لیے 2.8 ملین ڈالر کی رقم انعام کا بھی اعلان کیا گیا۔

دنیا کی ایک مشہور شخصیت کی طرف سے اس قدر توجہ دینا تھا کہ ناول کی تو جیسے قسمت جاگ گئی۔ یہ دنیا میں بیٹ سیلر کتب میں شمار ہونے لگا کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا جانے لگا۔

سلمان رشدی برطانیہ میں جوزف انٹون کے فرضی نام کے ساتھ روپوشی کی زندگی گزار رہا تھا اس کی سوشل لائف ختم ہو چکی تھی۔ پھر 2016 میں وہ آہستہ آہستہ منظر عام پہ آنے لگا۔ اب اچانک سے ایک تقریب میں اس پہ حملہ کیا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہوا ہے۔ اس حملے کی مذمت میں پورے یورپ اور امریکہ نے سلمان رشدی کو آزادی رائے کے ایک علمبردار قرار دیا ہے۔

امریکہ میں آزادی اظہار رائے کی وکالت کرنے والے ایک معروف گروپ پین (پی ای این) کا کہنا ہے کہ وہ حملے کے بعد ”صدمے اور خوف سے دوچار ہے۔“

تنظیم کی چیف ایگزیکٹیو سوزان نوسل نے اپنے ایک بیان میں کہا، ”سلمان رشدی کو کئی دہائیوں سے محض ان کے الفاظ کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، تاہم وہ کبھی نہیں جھکے اور نہ ہی کمزور پڑے۔“

فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ رشدی ”نفرت اور بربریت کا شکار ہوئے ہیں۔ عالمگیر سطح پر ان کی لڑائی ہماری ہے، آج ہم پہلے سے زیادہ ان کے ساتھ ہیں۔“

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے ٹویٹ کیا: ’انتہائی افسوس ہے کہ سر سلمان رشدی کو اس حق کا استعمال کرنے کے لیے چھرا گھونپ دیا گیا ہے جس کے دفاع سے ہمیں کبھی باز نہیں آنا چاہیے۔ ”

ٹویٹر پہ بھی اس حملے کے بعد یہ شخص ٹرینڈ کر رہا ہے۔

وہ کتاب جو اب تک شاید کسی کی توجہ میں نہیں تھی لوگ اسے بھول چکے تھے اب ایک مرتبہ پھر دنیا میں شہ سرخیوں میں ہے۔ لوگ پھر اس کتاب کو پڑھنا چاہیں گے۔ اللہ نہ کرے یہ حملہ اس کتاب کو یا خود مصنف کو پھر وہ شہرت دے جو اسے پہلے ملی تھی۔ اگر یہ شخص اپنی قدرتی موت مر جاتا تو اپنا گند اپنے ساتھ ہی قبر میں لے جاتا۔ لیکن اگر اس حملے میں یہ مارا گیا تو مغرب میں اس کی یاد میں تقاریب ہوں گی، اس کے نام سے ایوارڈز کا اجراء کیا جائے گا جنہیں حاصل کرنے کے لیے کئی لوگ اسی راہ پہ چل نکلیں گے جس پہ یہ چل رہا تھا۔ اس کے نام سے مختلف ادارے قائم کیے جائیں گے جس سے وہ ملعون شخص ایک ادارے کی صورت میں ہمیشہ کی صورت میں مسلط رہے گا۔

محبت جیسے مرضی کریں پر نفرت نہایت سوچ سمجھ کر کریں۔ کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ نفرت میں آپ کہیں استعمال تو نہیں ہو رہے۔ یا نفرت ایک ایسے آلہ طور پہ تو استعمال نہیں ہو رہی جس سے فائدہ وہ اٹھا رہا جس سے آپ نفرت کرتے۔ یا وہ مقصد متاثر ہو رہا جس کے تحت آپ کسی سے نفرت کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments