کیا پنجاب حکومت نے یونیورسٹیوں کو عاق کر دیا ہے؟


ہم ایک سیاسی قوم ہیں۔ صبح دفتر جا کر اخبارات پر نظر ڈالتے ہیں یا دفتر جانے سے بھی قبل کسی چینل کا مارننگ شو لگا کر دیکھتے ہیں کہ آج کس سیاستدان نے اپنے مد مقابل کو غدار قرار دیا۔ آج کس سیاستدان پر مقدمہ بنایا گیا اور کس کے گھر پر دھاوا بول کر پولیس نے اس سیاستدان کو گرفتار کیا۔ کون سا ممبر اسمبلی قوم کے وسیع تر مفادات میں اپنی سیاسی جماعت سے لڑھکتا ہوا کسی اور سیاسی جماعت میں جا پہنچا۔ ہم دفتر جا کر بڑے شوق سے اپنے دوستوں سے گپیں لگاتے ہیں کہ صوبوں میں اور مرکز میں اگلی حکومت کس کی بنے گی؟ رات کو گھر واپس آتے ہیں تو کوئی ٹی وی شو لگا لیتے ہیں جس میں ایک اینکر صاحب مختلف سیاسی جماعتوں کے ممبران کو اصیل مرغوں کی طرح لڑا رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ بحث ہو رہی ہوتی ہے کہ آج اسمبلی میں کن صاحب کے بال کھینچے گئے اور کس نے کس پر ہاتھ اٹھایا؟

اگر عوام کا یہ حال ہے تو ظاہر ہے کہ سیاستدان بھی دن رات حکومت کی چھینا جھپٹی میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ حکومت صرف بننے اور ٹوٹنے کے لئے نہیں ہوتی کسی نے حکومت چلانی بھی ہوتی ہے۔ حکومت کے تحت بہت سے ادارے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ حکومت کے اولین فرائض میں سے ایک ہے کہ ان اداروں کے سربراہ اور دیگر اہم عہدیداروں کا تقرر کرے اور اہل افراد کا تقرر کرے۔ اگر کوئی حکومت یہ کام بھی نہیں کر رہی تو وہ صوبے کا نظم و نسق کیسے چلائے گی؟

موجودہ حالات میں معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت نے صوبے کی یونیورسٹیوں کو عاق کر دیا ہے۔ حکومت سیاسی جوڑ توڑ میں اتنی مصروف ہے کہ اسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ہر یونیورسٹی کا کم از کم ایک عدد وائس چانسلر ہونا چاہیے جو اس یونیورسٹی کا انتظام چلائے۔ اور یہ لاپرواہی اس حد تک بڑھ چکی ہے 12 اگست 2022 کو یونیورسٹی آف سرگودھا کے امتحانات کے کنٹرولر صاحب نے ایک سرکلر جاری کیا ہے کہ اس یونیورسٹی میں تا حال کوئی وائس چانسلر مقرر نہیں ہوا اور اس کی وجہ سے مسائل اتنے بڑھ گئے ہیں کہ جن امتحانات کے شیڈول کا پہلے اعلان کیا گیا تھا وہ منسوخ کیے جاتے ہیں۔

ذرا ملاحظہ فرمائیں اگر طلبا اور طالبات وقت پر امتحان نہیں دیں گے تو مزید تعلیم کے لئے داخلے کس طرح لیں گے؟ اور اگر تعلیم مکمل کر رہے ہیں تو کس طرح ڈگری حاصل کر کے روزگار کی تلاش کریں گے؟ پہلے اس یونیورسٹی کے لئے کسی اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو مقرر کر دیا جاتا تھا کہ وہ اس یتیم یونیورسٹی کا انتظام وقتی طور پر چلاتا رہے۔ لیکن کسی اور یونیورسٹی کا وائس چانسلر دوسری یونیورسٹی کو پورا وقت نہیں دے سکتا۔ لیکن اب یہ تکلف بھی نہیں کیا جا رہا۔

اور خود یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کی بے بسی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ حکومت کو یہ یاد کرانے کی بجائے کہ قبلہ بیدار ہوں اور اس یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر فرمائیں، اپنے ما تحت کالجوں کو یہ سرکلر جاری کر رہے ہیں کہ اس یونیورسٹی کو کوئی مائی باپ میسر نہیں ہو سکا، اس لئے اس یتیمی کی حالت میں امتحانات منعقد کرنا ممکن نہیں۔

یہ حالت زار صرف یونیورسٹی آف سرگودھا تک محدود نہیں ہے۔ 7 جون 2022 کا روزنامہ ڈان ملاحظہ فرمائیں۔ اس میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ صوبہ پنجاب میں پانچ سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرری تاخیر کا شکار ہے۔ اور یہ پانچ یونیورسٹیاں گزشتہ ڈیڑھ سال سے باقاعدہ وائس چانسلر کے بغیر چل رہی ہیں یا دوسرے الفاظ میں برباد ہو رہی ہیں۔ اس خبر میں لکھا تھا کہ چار ماہ پہلے ان اسامیوں کے لئے 150 امیدواروں کا انٹرویو ہوا تھا لیکن کسی وجہ سے وزیر اعلیٰ کو اس کی سمری نہیں بھجوائی گئی۔

اسی طرح جون میں شائع ہونے والی اس خبر میں اس بات کا بھی رونا رویا گیا تھا کہ اس وقت ہائر ایجوکیشن کا وزیر اور پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کا چیئر پرسن بھی مقرر نہیں کیا گیا۔ اس وجہ سے بھی تعلیمی اداروں کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر ایک حکومت نے کسی عہدے کے لئے انٹرویو مکمل کر لیے ہیں اور پھر یہ حکومت جواں مرگی کا شکار ہوجاتی ہے تو نئی حکومت یہ کوشش کرتی ہے کہ دوبارہ اس عمل کو شروع کرے اور اپنے ”بندے“ ان عہدوں پر مقرر کرے۔

ان حالات میں جب کہ پنجاب میں بار بار حکومت تبدیل ہوئی ہے اور ہر وقت بے یقینی کی کیفیت رہتی ہے یونیورسٹیوں کا انتظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ یہ تو ضروری ہے کہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر فوری طور پر مقرر کیے جائیں لیکن اس کے ساتھ یہ انتظام بھی کیا جا سکتا ہے کہ ہر یونیورسٹی میں ایک سینیئر پروفیسر صاحب مقرر ہوں۔ اگر یونیورسٹی کا وائس چانسلر تبدیل یا مستعفی ہو جائے تو وہ خود بخود پورے اختیارات کے ساتھ اس عہدے پر کام شروع کر دیں۔ اور جب تک نئی تقرری نہ ہو جائے وہ یہ فرائض ادا کرتے رہیں تاکہ اہم کام تعطل کا شکار نہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments