افغانستان میں اہم شخصیات کی ہلاکتیں


کابل کے ایک مدرسے میں خود کش حملے کے نتیجے میں شیخ رحیم اللہ حقانی ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ رواں ماہ میں دوسری اہم شخصیت ہے جس کی ہلاکت ہوئی ہے۔ اس سے پہلے طالبان رہنما ایمن ظواہری جن کا شمار القاعدہ کے ممتاز نمائندگان میں ہوتا تھا امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ دونوں ہلاکتوں میں چند باتیں اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک طرف شدت پسند جماعت کے قائد کو جدید حملوں میں ہلاک کرنا اور کچھ ہی دن بعد ایک ایسی سماجی، سیاسی اور مذہبی شخصیت کو نشانہ بنانا جو عورتوں کے حقوق اور تعلیم نسواں کے حامی تھے۔

اس سے قبل وہ پاکستان میں دو بار قاتلانہ حملے میں بچ گئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق خود کش حملہ آور نے بارودی مواد اپنی مصنوعی ٹانگ میں نصب کر رکھا تھا۔ اب تک اس حملے کی ذمہ داری کسی دہشت گرد تنظیم نے قبول نہیں کی ہے جب کہ اس سے قبل پاکستان میں ہوئے حملوں کی ذمہ داری آئی ایس آئی ایس نے قبول کی تھی۔ شیخ رحیم اللہ طالبان کے ان لیڈران میں سے تھے جو طالبان حکومت کے حامی اور طالبان حکومت اور جہادی گروپس کے مخالفین کے نقاد تھے۔

افغانستان میں حالات کے پیش نظر عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے سیاسی صورت حال کشیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے اپنی ہلاکت سے قبل گزشتہ ماہ اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ شرعی طور پر عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اسلام میں عورتوں کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ تمام افغان لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ عورتوں کو بہترین سہولیات مہیا کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے اس حوالے سے افغانستان میں ایک فتویٰ جاری کیا تھا جو افغانستان میں ایک متنازع مسئلہ بنا ہوا ہے۔ واضح رہے کے طالبان کی جانب سے خواتین کے سکولوں کو بند کرنے کا حکم جاری کیا جا چکا ہے۔

اس سے قبل القاعدہ کے ممتاز لیڈر اسامہ بن لادن کے اہم ترین معاونین میں سے ایک ایمن الظواہری جو ماہر امراض چشم اور مبینہ طور پر جہادی کارروائیوں کے سرپرست تھے۔ انہوں نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ایک دہائی تک القاعدہ کی قیادت سنبھالے رکھی۔ وہ بین الاقوامی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب تھے۔ القاعدہ طویل عرصے اسلامی شرعی نظام کے نفاذ کے لیے سر گرم عمل ہے۔ جن کے مطابق اسلامی اقدار اقوام عالم کی فلاح کا واحد حل ہیں۔

اسلامی اقدار میں خواتین کے لیے پردہ، اور انھیں بطور سیاسی اور سفارتی علامت کے طور پر استعمال کرنے کو ثانوی ترجیح دیے جانے کے حامی ہیں۔ ان کے معاشرتی نظریہ کا مطابق جدید دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے عورتوں کو غیر سنجیدہ مقاصد جیسے کے انٹرٹینمنٹ کے ذریعے سماجی اثر و رسوخ حاصل ہو جانے سے اسلامی اقدار کی نفی ہوتی ہے۔ کیوں کہ زیادہ تر با اثر شخصیات ریاست کے غیر مذہبی مقاصد کے لیے عوام کو متحرک کرنے جیسے مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

اس معاشرتی نظریہ کی بنیاد پر انھیں عورتوں کے حقوق اور خصوصاً اسلامی سیاسی نظام کے نفاذ کے متعلق سنگین تحفظات ہیں۔ اسلامی اقدار کے مطابق موسیقی حرام ہے جب کے غیر مذہبی اور غیر سیاسی نظریات کے مطابق موسیقی وہ زبان ہے جو مخلوق کائنات کو ایک دھاگے سے جوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح انگریزی اقوام عالم میں بولی جانے والی مقبول ترین زبانوں میں سے ایک اور امریکی ڈالر اقوام عالم کی مقبول ترین اور بین الاقوامی تجارتی منڈیوں میں بلحاظ تجارتی مصرف مقبول ترین کرنسی ہے۔

اقوام مغرب القاعدہ کے نظریہ زندگی کو شدت پسند قرار دیتی ہیں اور اس حوالہ سے اپنا موقف کچھ یوں بیان کرتی ہیں کہ القاعدہ کے اسلامی نظریات قدیم روایتوں پر مبنی ہیں اور دیگر اسلامی ریاستوں ایران یا ترکی کی طرح ارتقاء کرنے میں ناکام ہیں۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں افغانستان کو بین الاقوامی جغرافیائی لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان مسلم ممالک کی پہلی ایٹمی طاقت ہے اور مذہب کے نام پر قائم کی جانے والی ریاست ہے۔

پاکستان کے دو صوبے جزوی طور پر پختون اور افغان اقوام کے زیر اثر ہیں اور تقریباً انہی اقدار کی نمائندگی کی حمایت کرتے ہیں جو اسلامی ہیں۔ اسلامی نظام کے نفاذ کو شدت پسند رویے سے پاک رکھنے میں مذہبی رہنماؤں کا کلیدی کردار ہے۔ جس طرح اسلامی قوانین اور اصولوں کی تشریح کی جائے گی اسی کے مطابق تشکیل معاشرہ ممکن ہو گا۔ منظرعام پر زیر تبصرہ زیادہ تر مسائل پرانے فسادات اور اختلافات پر مبنی ہیں جب کے تشکیل نو کے لیے جدید مسائل اور رواداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کو بین الاقوامی معاملات میں شمولیت کے ساتھ سیاسی و سماجی ارتقاء میں معاونت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

بین الاقوامی قوانین کے علم بردار اداروں کی جانب سے اپنے موقف پر ڈٹے ان رہنماؤں کی ہلاکتوں کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ مغربی نظریہ کو ترقی یافتہ معاشروں کی حمایت حاصل ہے۔ جب کہ مسلم تاریخ بھی جنگجوؤں سے بھرپور ہے شدت پسندوں کو ترقی یافتہ معاشرے کی سہولیات اور آسائشیں بھی قائل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابھی تک کوئی ایسا نظریہ حاصل نہیں ہو سکا جو ان اسلامی جہادی گروہوں کو اقوام عالم میں دیگر معاشروں کے ساتھ ترقی کرنے اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے میں عالمی اتحاد کا حصہ بنا سکے۔ ماضی میں بہت سی قیادتوں نے ایسی کوششیں کی ہیں مگر جو شرعی نظام یہ جہادی گروہ چاہتے ہیں وہ عدم وضاحت کے سبب مبہم ہو چکا ہے اور اب یہ تاثر قائم ہوتا جا رہا ہے کہ شاید یہ جہادی گروپ سنگین موضوعات کا مرکز بننے کے علاوہ کسی سنجیدہ ترقی کے خواہش مند نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments