طالبان کی ممکنہ واپسی: اس بار مختلف کیا ہے؟


گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان کے شمال مغربی صوبے میں خصوصاً خوب صورت وادی سوات میں طالبان کی موجودگی اور سرگرمیاں پاکستان کی مرکزی میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیر بحث رہیں۔ جب طالبان نے سوات کے تحصل مٹہ کی چپریال وادی میں دور پہاڑوں پر ڈیرے جما لئے اور پولیس رپورٹ کے مطابق تین فوجیوں اور ایک پولیس ڈی ایس پی کو چند ساتھیوں سمیت یرغمال بنایا تو ابتدا میں سوات کے بعض مقامی صحافی ایسی کسی موجودگی سے انکاری تھے۔

تاہم چپریال وادی میں ذرائع کے مطابق پولیس رپورٹ درست تھی جس کی تصدیق بعد میں سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہوئے ایک فوجی اہلکار اور مذکورہ ڈی ایس پی کے ویڈیوز نے کی جن کو مبینہ طور پر وہاں کے طالبان نے جاری کر دیے تھے۔ اس موجودگی کی تصدیق متعلقہ طالبان کی طرف سے سوات کے ایک مقامی صحافی کے ساتھ فون پر گفتگو سے بھی ہوئی۔

جوں ہی یہ خبریں عام ہوئیں تو پورے سوات وادی میں خوف و ہراس پھیل گیا بلکہ سوات سے زیادہ ملک کے دیگر حصوں میں خوف زیادہ پھیل گیا اور نتیجتاً کئی سیاحوں نے سوات آنے کا ارادہ ترک کر دیا بلکہ یہاں بالائی سوات میں موجود کئی سیاح راتوں کو ہی واپس چلے گئے۔

سوات جہاں اپنی خوب صورتی اور کلتوری تنوع اور تاریخ کے لئے مشہور ہے وہی پہ بدقسمتی سے سوات کے ساتھ طالبان کا ٹھپا بھی لگا رہتا ہے۔ 2018 ء کو لاہور شہر میں کئی پڑھے لکھے دانشور دوستوں کو جب سوات آنے کی دعوت دی تو ان کا جواب تھا مروانا چاہتے ہو۔ ان کے ہاں سوات میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ خوف اس تباہ کن دہشت گردی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو 2004 ء تا 2009 ء کے اواخر تک سوات میں جاری رہی حتی کہ مئی 2009 ء کو ان کے خلاف آپریشن شروع ہوا جس کو کامیاب بنانے کے لئے نہ صرف سوات سے ڈیڑھ ملین سے زیادہ لوگوں نے نقل مکانی کی بلکہ یہاں کا انفراسٹرکچر بھی بری طرح تباہ ہو گیا۔

اس وقت کی اس دہشت گردی میں شدت اس وقت آئی جب یہاں طالبان نے دو ستمبر 2008 ء کو اعلان کیا کہ آئندہ سال جنوری 15 تک سارے گرلز سکولز بند کر دیے جائیں گے۔ 2008 ء کے اخری مہینے اور 2009 ء کے شروع کے مہینے سوات میں قیامت لے کر آئے۔ آئے روز مینگورہ شہر کے مرکزی چوک گرین چوک میں کھمبوں اور درختوں پر انسانوں کی لاشیں الٹی لٹکائی جاتی تھیں اور مقامی لوگوں سے پوچھ کر میں نے اس چوک کو اس طرح کا قتل گاہ ہونے کی وجہ سے ”خونی چوک“ کہا جو پوری دنیا میں مشہور ہوا۔

دس سال سے زیادہ کی اس مدت میں راقم نے سوات پر انگریزی و اردو اخباروں کے لکھا اور ایک لحاظ سے اس وقت کے حالات کو اپنی رائے کے ساتھ قلمبند کرتا رہا۔ جب فروری 2009 ء کو سوات میں امن معاہدہ ہوا تو اس کے بدلے امن تو کہاں تھا البتہ وہ طالبان سوات کے باقی ماندہ علاقوں جیسے بحرین اور کالام کی وادیوں پر بھی قبضہ کر گئے۔ اس امن معاہدے کی اس وقت جس نے مخالفت کی اس کو غدار کہا گیا۔ مگر مخالفت کرنے والے سچ ثابت ہوئے کہ اس امن معاہدے نے طالبان کو دوسرے علاقوں پر قبضہ کرنے کی شہ دی اور وہ بادشاہ بن کر اپنی ریاست قائم کرنے لگے۔ اپنے عدالتیں قائم کیں اور وہاں سزائیں بھی دینے لگے۔ آخر کار ریاست کو عوامی اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے سوات میں آپریشن کرنا پڑا جو کامیاب رہا۔ کامیاب اس طرح کہ یہاں سے طالبان قیادت بھاگ گئی اور عام طالبان کو یا تو مار دیا گیا یا پھر گرفتار کر کے جیلوں میں منتقل کر دیا گیا۔

سوات کی یہ کہانی طویل اور گمبھیر ہے۔ آئیے حالیہ حالات کی بات کرتے ہیں۔

جب 2000 ء کے بعد طالبان آہستہ آہستہ ابھرنے لگے اور پھر ایک دہائی میں انہوں نے سوات پر قبضہ کیا تو ان حالات اور موجودہ حالات میں سماجی، سیاسی، ابلاغی اور خارجی لحاظ سے بڑا فرق ہے۔

اس وقت سوات کے اپنے باشندے ابہام کے شکار تھے۔ یہاں بلکہ ملک میں کئی لوگ طالبان کے بارے میں ایک رومانوی خیال رکھتے تھے۔ کئی لوگ پس پردہ ان کے نظریے کے حامی تھے۔ مرکزی میڈیا پر ان کے حامی بیٹھے درس دیا کرتے تھے۔ سوات میں سوشل میڈیا اس قدر نہیں پھیلا تھا۔ مین سٹریم میڈیا میں طالبان کے حامی دن رات رائے ہموار کر رہے تھے۔ اسی طرح کئی لوگ طالبان شورش کو مقامی جاگیرداری نظام کے خلاف مزاحمت سمجھ رہے تھے اور اس کشمکش کو طبقاتی رنگ بھی دے رہے تھے۔

سوات کے اپنے عوام کی طرف سے اجتماعی مزاحمت نہیں تھی۔ سول سوسائٹی کے ایک ادھ گروہ کے علاوہ یہاں سے طالبان کی مخالفت نہیں کی جاتی تھی۔ عام لوگوں کو معلومات تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ اس شورش کو صرف ایک زاویے یعنی کہ یہ مقامی ہے اور ازخود ہے، سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کے تزویراتی پہلو سے ناواقفیت تھی۔ سیاسی طور پر سوات میں پہلے سالوں میں دینی جماعتوں کے اتحاد کی حکومت تھی جو کہ طالبان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی تھی۔

اس کے بعد یہاں جب عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت آئی تو طالبان کی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی اور انہوں نے اس پارٹی کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں کو ٹارگٹ کیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اے این پی کی اس وقت کی حکومت سوات امن معاہدہ پر راضی ہو گئی۔ افغانستان میں اور پاک افغان بارڈر پر امریکی حکومت طالبان کے خلاف لڑ رہی تھی۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ لوگ امریکا کو افغانستان میں غاصب کے طور پر دیکھتے تھے او ر نتیجتاً ہمدردیاں طالبان سے پیدا ہوتی تھیں۔

ایک دوسرا پہلو پاکستان کا امریکا کے ساتھ طالبان شورش میں اتحادی ہونا تھا۔ اس کی اہمیت معاشی بھی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی جانب سے فنڈز مل رہے تھے۔ کئی ماہرین کے نزدیک دونوں اتحادی ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے تھے اور یوں ایک دوسرے کو چکمہ بھی دے رہے تھے۔ جبکہ اس بار ایسا کوئی اتحاد نہیں اور اگر کہیں طالبان ابھرتے ہیں تو پاکستان نے جنگ خود لڑنی ہوگی۔ کابل پر بھی پاکستان حمایت یافتہ حکومت ہے اس لئے ایسی کسی مہم جوئی کا اثر وہاں بھی پڑ سکتا ہے۔

اس بار حالات مختلف ہیں۔ سوات میں ہر خاص و عام طالبان کی آمد یا ابھرنے کو کوئی تزویراتی (strategic ) چال سمجھ رہے ہیں۔ یہاں عوام و خواص کا اس بات پر اب اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ لوگ کسی گیم کا حصہ ہے۔ اس لئے اب عام لوگ ان کا ساتھ دینے سے کتراتے ہیں۔ کئی لوگ برملا اداروں کو بھی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اب طالبان کو نظریہ نہیں بلکہ تزویراتی اثاثہ سمجھا جا رہا ہے۔ عام ریڑھی والے سے لے کر بڑے بڑے سیاستدان تک اس پر متفق نظر آتے ہیں۔ اس لئے مقامی سطح پر طالبان کی حمایت نہیں بڑھ سکتی۔

دوسری طرف سوشل میڈیا اس قدر موثر اور وسیع ہو چکا ہے کہ بمشکل ہی کوئی چیز مخفی رہ سکتی ہے۔ اسی کو استعمال کر کے ریاست کے اداروں اور حکومت پر دباؤ بڑھایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوات کے ایک دورافتادہ وادی میں چند طالبان کے نمودار ہونے کی خبر اس قدر تیزی سے پھیل گئی اور پورے ملک میں گونجی۔ ریاست کے اداروں کو جلد ایکشن کا کہا گیا اور ابھی ابھی خبر کے مطابق سوات میں ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ واپس لیا گیا کیوں کہ ذرائع کے مطابق وہ لوگ سوات چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

طالبان کی اس حالیہ رونمائی کے بعد دیر اور سوات میں عوام کی جانب سے سوشل میڈیا کے علاوہ جلسوں کی صورت میں احتجاج اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ مقامی لوگ اب کسی طرح ایسی کارروائیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ اور اگر کہیں ایسی کارروائیاں ہوتی ہیں تو مقامی لوگوں کی بڑی تعداد اس کو تزویراتی گیم سمجھ کر حکومت اور اداروں کو موردالزام ٹھہرائیں گے۔

یہی وجوہات ہیں کہ اس بار ایسی کسی شورش کے امکانات کم ہیں۔ خوش آئند خبر یہ ہے کہ بعض ذرائع کے مطابق طالبان واپس غائب ہو رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ حالیہ نموداری ٹسٹ تھا کہ مقامی لوگ اس کو کیسے لے رہے ہیں۔ آیا طالبان پاکستان سے مستقل طور پر غائب ہوں گے ایسا صرف مستقبل ہی بتا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments