ظفر علی خان اور ان کا عہد!


بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان اسلامیان برصغیر کے جلیل القدر راہنماؤں میں سے تھے ان کی زندگی کا مقصد اسلام کی آزادی اور فرنگی حکمرانوں کے تسلط سے آزادی حاصل کرنا تھا۔ آج کی نوجوان نسل ان کی زندگی کے گوشوں سے پوری طرح آشنا نہیں ہے مگر جن لوگوں نے 1911 ء سے 1947 ء کے حالات اور دور کو دیکھا یا پڑھا ہے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو مولانا ظفر علی خان کی مقصد حیات اور خدمات سے واقف نہ ہو۔ 1906 ء میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کا ڈھاکہ میں قیام عمل میں لایا گیا تو اس وقت مولانا ظفر علی خان ایک متحرک ’پرجوش نوجوان کی حیثیت سے پنجاب کی نمائندگی کر رہا تھا 23 مارچ 1940 ء اقبال پارک (مینار پاکستان) پر جب تاریخ ساز اجلاس ہوا اس تاریخی اجلاس میں مولانا ظفر علی خان نے نہ صرف قرار داد پاکستان کا ترجمہ پیش کیا بلکہ صوبہ پنجاب کی طرف سے تائیدی تقریر بھی کی۔

اس کے بعد انیسویں صدی کے شروع سے قیام پاکستان تک آزادی وطن اور اسلام کے لئے ہر تحریک کا نمایاں حصہ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا کو غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہوا تھا وہ بیک وقت بے بدل ادیب‘ قادر الکلام شاعر ’نڈر صحافی‘ بلند پایہ مترجم ’عاشق رسول‘ شعلہ بیان خطیب اور شعوری طور پر سچے اور کھرے مسلمان تھے انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو وطن عزیز کی آزادی اور اسلام کی سربلندی کے لئے وقف کر رکھی تھیں۔

مولانا صلاح الدین احمد نے ان کے بارے کیا خوب لکھا ہے کہ ان کے نام اور کام کے ذکر کے بغیر ہماری تاریخ آزادی کا تذکرہ مکمل نہیں ہو سکتا اور علامہ اقبال نے ان کی قلم کی کاٹ کو مصطفی کمال کی تلوار سے تشبیہ دی ہے۔ ’مولانا ظفر علی اور ان کا عہد‘ کے عنوان سے مولانا ظفر علی خان کے ہمسایہ اور قریبی رفیق حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی نے مولانا کی حیات اور خدمات پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی ان کے قریبی رفقاء میں سے تھے اور انہوں نے مولانا ظفر علی خان کے زندگی کے جاندار گوشوں کو جس انداز میں قلمبند کیا ہے وہ قابل ستائش اقدام ہے۔

اور اس ضخیم کتاب کے مصنف نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ عنوانات دے کر ایک ترتیب کے ساتھ مولانا کے زندگی کے گوشوں کے در وا کیے ہیں۔ کتاب کے ابتدائی ابواب میں مولانا کا خاندانی پس منظر ابتدائی تعلیم ’کالج کا زمانہ اور والد کی رحلت کا تذکرہ شامل ہے۔ مولانا کے والد مولوی سراج الدین کی رحلت کے بعد ظفر علی خان کا اپنے والد کی وصیت کے مطابق‘ زمیندار ’کی اشاعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جس نے انہیں برصغیر کی صحافت میں ایک نڈر عظیم مرد مجاہد کے طور پر متعارف کروایا زیر نظر کتاب میں مولانا کی صحافتی خدمات اور آزادی وطن کی جہد مسلسل کا تذکرہ احسن انداز میں تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے اس کتاب میں مولانا کی زندگی اور خدمات کو سمجھنے کے لئے مختلف زاویوں سے تجزیہ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔

یقیناً اس کتاب کے مطالعہ سے مولانا کی ادبی‘ سیاسی زندگی ’شاعری‘ مختلف تحاریک میں ان کا کردار ’قائد اعظم‘ علامہ اقبال اور دیگر اکابرین کے ساتھ ان کے تعلقات کو سمجھنے میں بھی قاری راہنمائی کرتی ہے۔ مسئلہ ٔ حجاز ’مایہ ناز فرزند علی گڑھ‘ قادیانیت ’بدیہہ گوئی‘ دیہاتی زندگی ’تحریک پاکستان میں خدمات‘ مسجد شہد گنج ’اسلامی بازار‘ مسجد فتح پوری کا قصہ ’غازی علم دین شہید‘ سائمن کمیشن مسجد شہید گنج یہ تاریخی حیثیت کی ایسی مستند معلومات ہیں جو کتاب کے مرکزی ابواب میں شامل ہیں اور یہ معلومات ایسی ہیں جو کسی اور کتاب میں نہیں ملتی۔

بعض ایسی نظمیں ہیں جو صرف ’زمیندار‘ میں شائع ہوئی ہیں مولانا ظفر علی خان کے علمی و ادبی اور سیاسی جدوجہد کو مصنف نے خوبصورت پیرائے میں کتاب کا حصہ بنایا ہے کتاب پڑھنے والا خود کو اس عہد سے گزرتا محسوس کرتا ہے۔ یہ کتاب جہاں مولانا کی جامع سوانح عمری کا تذکرہ ملتا ہے وہیں بیسویں صدی کے نصف اول کی سیاسی ’دینی اور ملی تاریخ بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ مولانا ایک ہنگامہ خیز شخصیت کے مالک تھے مصنف مولانا کے قریبی رفیق اور ماہر ظفریات کے طور پر بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں اس لئے یہ دلیل اور بات اس کتاب پر صادق آتی ہے کہ اس سے قبل ایسی بیش بہا معلومات کسی اور کتاب کا حصہ نہیں ہیں۔

یہ کتاب نہ صرف ہماری جدوجہد آزادی کا درخشاں منور باب ہے بلکہ اس مرد مجاہد کی داستان حیات کا ایک مستند حوالہ بھی ہے حافظ صلاح الدین یوسف کے بقول یہ کتاب مولانا کی حیات و خدمات کے ساتھ اس عہد کا جیتا جاگتا مرقع ہے جس میں عہد رفتہ کی لٹک کھٹک بھی ہے اور معاصرانہ چشمکوں اور سیاسی آویزشوں کی کہانی بھی ہے۔ یہ کتاب بڑی تقطیع کے ساتھ 516 صفحات پر مشتمل ہے پہلی بار 1985 ء میں شائع ہوئی تھی اور ایک عرصہ سے نایاب تھی اب اسے مولانا ظفر علی خان میموریل ٹرسٹ نے اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے تاکہ مولانا کے افکار اور جدوجہد کو نئی نسل تک پہنچایا جائے جو ٹرسٹ کے مقاصد بھی ہیں۔

کتاب کا پیش لفظ نواب زادہ نصرااللہ خان نے لکھا ہے ان کا کہنا ہے کہ حکیم عنایت اللہ نسیم نے یہ کتاب لکھ کر نہ صرف حق رفاقت ادا کیا بلکہ ہمیں اپنے تابناک ماضی سے بھی روشناس کروایا اور خطہ پنجاب کے بسنے والوں کو احسان فراموشی اور تحسین ناشناسی کے الزام سے بچا لیا ہے جب کہ عرض ناشر کے عنوان سے چیئرمین ٹرسٹ خالد محمود نے مولانا اور حکیم صاحب کے تعلق کو خوب بیان کیا ہے۔ سینئر صحافی‘ تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے لکھا ہے کہ یہ کتاب پاکستانی تاریخ سیاست اور صحافت کے طلبہ کے لئے ایک تحفہ خاص ہے مولانا ظفر علی خان اور ان کے عہد کی جو تصویر حکیم نسیم صاحب نے کھینچی ہے وہ کوئی دوسرا نہیں کھینچ سکتا کیونکہ ان کا علم کتابی نہیں تھا ان کے ذریعے ہم مولانا ظفر علی خان اور ان کے عہد میں سانس لے سکتے اور ان کے لفظوں میں خود کو جیتا جاگتا دیکھ سکتے ہیں۔

خالد محمود نے مولانا کے بارے اس کتاب کو قیمتی خزینہ قرار دیا ہے یہ کتاب ہماری قومی تاریخ بارے اہم اور مستند کتاب ہے اس کتاب کو ہماری لائبریریوں ’اور جامعات کے صحافت اور سیاست کے شعبوں کا حصہ ہونا چاہیے تاکہ نسل نو اپنے اکابر کے افکار اور جدوجہد سے آگاہی پا سکے زیر نظر کتاب صحافت اور تاریخ سے رغبت رکھنے والوں کے لئے کسی خزینے سے کم نہیں ہے اس کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے اور یہ کتاب ظفر علی ٹرسٹ 21 نون ایونیو مسلم ٹاؤن لاہور میں دستیاب ہے جہاں کا رابطہ نمبر 04235846676 ہے

رابطہ نمبر: 03066470055


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments