غم خوار


یہ اسی کی دہائی کا قصبہ تھا، جو کہ شہر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ آبادی بھی زیادہ نہیں تھی۔ سادہ لوح اور محنت کش لوگ اس قصبہ میں آباد تھے۔ ان میں سے اکثریت ملحقہ کھیتوں میں مزارعوں کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ گندم اور کپاس کے علاوہ دوسری مختصر دورانیہ کی فصلیں کاشت کی جاتی تھیں۔ زمیندار اپنی منشا سے محنت کشوں کو مزدوری دیتے۔ شاید چند ایک زمین دار اپنے کھیتوں پر کام کرنے والے مزدوروں کو انسان سمجھتے ہوں، ورنہ اس قصبہ کا دولت مند طبقہ وہی عالمی مالی و اقتصادی نظام کا ہی شاخسانہ لگتا تھا۔ جس نظام کے تحت تیسری دنیا کے غریب ملکوں کو مقروض کر کے اپنی من پسند پالیسیوں کو اپنے من پسند حکمرانوں کے ذریعے نافذ کروایا جاتا تھا۔

امداد اور اس کے بھائی اختر اور عظمت اس قصبے میں سب سے ابتدائی اور پرانے دکاندار تھے۔ ان کی دکان کو جنرل اسٹور کہنا تو مناسب نہیں تھا لیکن اس ہٹی پر روزمرہ زندگی کی ضرورت کی تقریباً تمام چیزیں مل جاتی تھیں۔ آبادی کے مرد، عورت اور بچوں کا یہاں کی دوسری دکانوں سے زیادہ امداد کی ہٹی طرف رجحان تھا۔ قصبہ کے لوگوں کی اسے سادگی، مجبوری یا ایک ترقی پسند طرز عمل کہیں کہ اگر گھر میں بچے یا مرد نہ ہوتے تو عورتیں اپنے گھر کی ضرورت کی چیزیں اور سودا سلف لینے خود دکانوں کو رخ کرتی تھیں۔

امداد قریب قریب 54 برس کی پکی عمر کا ایک گھاگ شخص تھا۔ دکانداری کے علاوہ اس کا رجحان ناپسندیدہ سماجی سرگرمیوں کی طرف تھا۔ اگرچہ اس کے بھائی ایمانداری، محنت اور دیانت داری سے اس دکان کو چلاتے تھے۔ اور یہ دونوں عمر میں امداد سے چھوٹے تھے لیکن شادی شدہ تھے اور صاحب اولاد تھے۔ امداد ، اس کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتا لیکن غیر معاشرتی اور ناجائز کام اس کی شخصیت سے جڑے ہوئے تھے، رات سر پر آتے ہی وہ جواء، شراب نوشی، رنڈی بازی جیسی سیہ کاریوں کی طرف راغب ہوجاتا۔ کبھی کبھی تین تین چار چار دن اس کی کچھ خبر نہ ملتی کہ بھائی صاحب کدھر ہیں؟ اسے اپنے خاندان کی مذلت و رسوائی کا کچھ احساس نہ تھا۔ اس کے بھائیوں کا اس کے لئے پریشان ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ لیکن صبر کا دامن تھامے وہ اپنے بھائی کی سلامتی اور زندہ سلامت لوٹ آنے کی دعا کرتے ہوئے اس کے منتظر رہتے۔

امداد جب کبھی دکان داری کرتا تو اس کی ہوس ناک اور ندیدی نظروں سے کوئی عورت محفوظ نہ رہتی۔ وہ اس طور پر بھی ہوشیار تھا کہ وہ بھانپ لیتا کہ دست درازی کے لئے کس طرح کی عورتیں اس کا تر نوالہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ وہ قصبہ کی دبنگ اور محتاط عورتوں سے کسی قسم کی غیر اخلاقی حرکت کرنے سے باز رہتا۔ اپنی انہی حرکات کی باعث وہ انسان کے لبادے میں وہ بھیڑیا تھا جو عورتوں کو پھاڑ کھانے اور ان کی عصمتوں کو پامال کرنے کی حد تک جا سکتا تھا۔ دیکھا جائے تو بازاری عورتوں تک رسائی اس کے لئے کون سی ناممکن بات تھی، لیکن امداد کے منہ کو خون لگ چکا تھا۔ اور شاید۔ اس کی یہ عادتیں تا مرگ بلکہ تا ابد اس کے ساتھ رہنے والی تھیں۔ قصبہ کے تمام دانا اور سیانے مرد عورت اس کی ان حرکات سے واقف تھے۔

صنم ایک 25، 26 برس کی دوشیزہ، امداد کی بے جا نوازشوں اور میٹھی میٹھی باتوں سے موم ہو چکی تھی۔ یہ شاطر اس سے اپنے مراسم مضبوط اور ہموار کرتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ غالب خیال تو اسے اپنی ہوس کی بھوک مٹانا ہی ہو سکتا تھا اور اس رنگین مزاج شخص سے کیا توقع کی جا سکتی تھی۔ اسے مزرع آخرت سے کوئی غرض نہ تھی۔ کبھی یہ تصور بھی ذہن میں آتا کہ ہو سکتا ہے وہ صنم سے شادی کر کے گھر بسا لے۔ کیونکہ چند برس قبل امداد کی بیوی اس کی عدم توجہ اور لاپرواہی کے باعث طویل علالت کے بعد اس جہان فانی سے رخصت ہو چکی تھی۔

صنم کا خاندان بوڑھے باپ اور ایک بھائی پر مشتمل تھا۔ دونوں باپ بیٹا دن بھر کھیتوں میں مزدوری کرتے اور کبھی کبھار صنم بھی ان کے ساتھ ہو لیتی اور ان کی مدد کرتی۔ اس کی والدہ کچھ سال پہلے وفات پا چکی تھی۔ اور اس وقت سے گھر کی ذمہ داریاں صنم کے کندھوں پر آ چکی تھیں۔ تین افراد کے اس چھوٹے سے کنبہ کے لئے زندگی پھولوں کی کوئی سیج نہ تھی۔ پھر بھی اپنے زور بازو اور محنت و لگن سے وہ اپنی زندگی کو کسی حد تک بہتر بنانے کی تگ و دو میں تھے۔ اور اس کے لئے اپنے خالق و معبود کی شکر گزاری کرتے تھے۔

صنم کا باپ بزرگ تھا اور اپنی عمر کے 7 عشرے دیکھ چکا تھا۔ کبھی وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کام پر نہ جاسکتا تھا۔ وہی عمر رسیدگی میں صحت کے معاملات اور طبی پیچیدگیوں کے باعث اسے آرام درکا ر ہوتا۔ لہٰذا وہ گھر پر ہی رہتا تھا۔ صنم اپنے باپ کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتی۔ ”تو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا۔“ اسی لئے اس کا باپ اس سے بہت خوش تھا اور اسے سلامتی اور اچھے مستقبل کی دعائیں بھی دیتا۔ کبھی کبھار کسی بات پر اگر اس کا باپ اس پہ غصہ کرتا تو وہ اپنی ماں کی کمی محسوس کرتی۔

اگرچہ وہ اپنے چھوٹے سے کنبہ کے لئے دعا گو بھی رہتی۔ وہ من ہی من میں اپنے باپ اور ماں کے خدا کا تقابلی جائزہ لیتی تو نا جانے کیسے میکسم گورکی کے اس قول تک رسائی پا جاتی کہ ”مجھے ماں کا خدا پسند ہے۔ بابا کہتے تھے کہ خدا مارتا ہے، جلاتا ہے اور دوزخ میں ڈالتا ہے۔ مگر ماں کہتی تھی خدا مہربان ہے، بخشتا ہے اور بچاتا ہے۔“ یہی وجہ تھی کہ وہ ماں کو یاد بھی کرتی اور ماں کے خدا کو بھی کیونکہ دونوں پیار کرنے والی ہستیاں تھیں۔

صنم کے گھر کا صحن کافی بڑا تھا اور اس کے بھائی کے ہاتھوں کے لگے ہوئے مقامی پھلوں کے کمسن پودے چند برسوں میں بڑھ کر اب پھلدار درختوں میں تبدیل ہوچکے تھے۔ انار، شہتوت، آڑو، آم، بیر اور اس طرح کے پھلوں کے ایک ایک یا دو دو درختوں نے صنم کے گھر کو ایک ثمردار باغ بنا دیا تھا۔ اور یہ ان کے لئے ایک اضافی آمدن کا ذریعہ بھی تھا۔ آس پاس کے لوگ ان سے تازہ پھل منڈی سے کم داموں خرید کر لے جاتے تھے۔ صنم کا بوڑھا باپ اپنے بیٹے کی نسبت اپنی بیٹی کے بیاہ شادی کے بارے زیادہ فکر مند تھا لیکن وہی بات کہ کوئی مناسب اور معقول رشتہ ہو جو کہ اس کی بیٹی کے بہتر مستقبل کی ضمانت بھی ہو۔

امداد بہانے بہانے صنم کے گھر پھل خریدنے آتا اور اس وقت جب صنم کے علاوہ گھر میں کوئی نہ ہو تاکہ اسے اپنی ہوس کی تسکین کا موقع مل سکے۔ خیر ابھی تک امداد اپنے مضموم اور بدنیت ارادوں میں کامیاب نہ ہو پایا تھا۔ عورت ذات جو توجہ اور پیار چاہتی ہے اور بعض اوقات مرد پر ضرورت سے زیادہ بھروسا کر لیتی ہے اور پھر امداد جیسے خود غرض اور ہوس پرستوں کے ہاتھ اپنے عصمت سے محروم ہوجاتی ہے۔

امداد اور صنم کے ربط کو ایک معاشقہ کی تناظر میں ہی دیکھا جاتا تھا اور شاید۔ یہ بات حقیقت بھی تھی۔ لیکن سبھی تماش بینوں کی طرح شاید اس سارے معاملے کا ڈراپ سین دیکھنے کے منتظر تھے۔ عمر کے اس حصہ میں امداد کا تو کردار اور اس کا معاش اس بات کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ وہ وقت گزاری اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے صنم پر اپنی مہربانیاں نچھاور کر رہا تھا۔ لیکن صنم جو غربت اور کسمپرسی کے معاشرتی مقام پر اس ادھیڑ عمر چالاک مرد کے مصنوعی رجحان اور محبت کو سبھی کچھ سمجھے بیٹھی تھی۔

جب امداد اپنی لاکھ کوششوں کے باوجود صنم کی قربت سے محروم رہا تو بالآخر اس نے روایتی معاشرتی طریقہ کا سہارا لینے کا سوچا اور صنم کا ہاتھ مانگنے کے لئے اپنے بھائیوں اور علا قے کے چند معتبر بزرگوں کو اس مقصد کے لئے بیچ میں ڈالا۔ امداد کے کردار سے کون واقف نہیں تھا اور پھر دونوں کی عمروں میں بھی اچھا خاصا فرق تھا، اسی لئے اس کے باپ اور بھائی نے اس رشتہ سے انکار کر دیا۔ اور اگر دیکھا جاتا تو ان کا یہ فیصلہ درست تھا۔ کون اپنی بیٹی کو جانتے بوجھتے۔ اندھے کنویں میں دھکیلتا۔ یہ کوئی غدر کا زمانہ تھوڑی تھا کہ جب مقامی لوگوں نے اپنی بہو بیٹیوں کی عزتوں کے تحفظ کے لئے زہر کھانے اور یا پھر کنوؤں میں چھلانگیں لگا نے کا کہا تاکہ وہ ذلت و رسوائی سے بہتر عزت کی موت تو مر سکیں۔

امداد نے رشتہ سے انکار کو اپنی ندامت، بے عزتی اور انا کا معاملہ بنالیا تھا۔ اس نے اب بھی اپنے جائز و ناجائز ارادوں سے صنم کے حصول کو دل سے معدوم نہ ہونے دیا تھا۔

صنم کا تعلیمی معیار کوئی خاص تو نہ تھا لیکن پرائمری یا مڈل تک تعلیم کے باعث وہ اردو تحریر پڑھنا اور چھوٹا موٹا حساب کتاب کر نا جانتی تھی۔ امداد نے ایک دو دفعہ چند سطور پر مشتمل خط اسے بھیجے اور اسے کہیں ملنے کے لئے استداء کی۔ اس کے لئے اس طرح کا دلیر اور بے باکانہ قدم اٹھا نا کوئی آسان کام نہ تھا۔ وہ جب بھی اس معاملے کو عملی جامہ پہنانے کا سوچتی اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتیں۔ اور کوئی نادیدہ قوت اسے اپنے خاندان کی عزت و حرمت کو محفوظ رکھنے کے لئے ایسا کرنے سے باز رکھتی۔

لیکن آزمائش کا ناگ اس کے ذہن کو اپنی لپیٹ میں لینے کے کئی تاویلیں پیش کرتا تھا ”۔ اسے دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوش نما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اس پھل میں سے لیا اور کھایا۔“ اور ایک دن صنم کے من میں یہ قدم اٹھانے کی آزمائش نے اسے مغلوب کر لیا۔ وہ اس ملاقات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو چکی تھی۔ یہ ایک آزمائش بھی تھی لیکن ساتھ ساتھ بے لگام خواہشات کی آسودگی کا حصول بھی۔ منفی اور نامناسب سوچوں نے صنم کے ذہن کو مکڑی کے جالے کی طرح اپنے حصار میں جکڑ لیا تھا۔

”امداد۔ میں کل قصبہ کے قریبی ٹیلے پر۔ تمہیں ملنے آؤں گی۔“ یہ چند سطور ٹوٹے پھوٹے حروف میں لکھ کر دھڑکتے دل کے ساتھ گھر کا سودا سلف لینے کے بہانے وہ امداد کی ہٹی کی طرف چل دی۔ عجیب بے قراری، اندیشے اور اضطرابی کیفیت کی دھند، اس کے ذہن پہ چھائی ہوئی تھی۔ کبھی بوڑھے باپ اور دن بھر کی محنت مشقت سے تھکے بھائی کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا۔ دوسرے ہی لمحے امداد کی۔ کی محبت اسے اپنے حصار میں لے کر اپنے خاندان کے افراد اور ان کے تصور سے کوسوں میل دور لے جاتی۔

دکان پر پہنچ کر صنم کو مایوسی ہوئی۔ امداد اسے کہیں نظر نہ آیا لیکن جب وہ گھر کے لئے ضروری سودا سلف لے کر مڑی تو وہ کچھ فاصلے پر کھڑا انسیت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ لیکن یہ مقام اور ماحول کوئی بھی بات کرنے کے لئے انتہائی نا سازگار تھا۔ صنم اپنی محبت کو ارد گرد کے لوگوں سے پوشیدہ رکھتے ہوئے وہاں کسی کی توجہ کا مرکز بننا نہیں چاہتی تھی۔ وقت کو غنیمت جانتے ہوئے اس نے مٹھی میں بھینچا ہوا چند سطری رقعہ دھڑکتے دل کے ساتھ امداد کی طرف بڑھا دیا۔ اور تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی دکان سے دور ہوتی گئی۔

صنم جب گھر پہنچی تو اس کا بوڑھا باپ چارپائی پر بیٹھا ہانپ رہا تھا۔ شاید وہ ابھی ابھی کھیتوں پہ کام چھوڑ کر گھر کو لوٹ آیا تھا۔ صنم نے پوچھا، ”بابا، خیر ہے؟ آج اتنی جلدی گھر آ گیا ہے۔ لالہ کیوں نہیں آیا؟“ اس کے باپ نے کہا، ”خیریت ہے! ۔ آج ساتھ والے گاؤں سے کچھ مہمان آئیں گے۔“ غیر ارادی طور پر صنم کا ماتھا ٹھنکا، ”کون سے مہمان؟ کیسے مہمان؟“ ۔ ”بیٹی تجھے ساری عمر گھر تھوڑی بٹھائے رکھنا ہے۔ لڑکا اچھا، سرکاری نوکری ہے“ اس کے بابا نے سانس لینے میں مشکل محسوس کرتے ہوئے جواب دیا۔ صنم نے اس بات کی پریشانی میں کھوئے ہوئے پیتل کے گلاس میں مٹی کے گھڑے میں سے پانی انڈیلا اور اپنے باپ کو پانی تھماتے ہوئے کہا، ”بابا! میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔“ ان باتوں کے پس پردہ اس کے ذہن میں سوچوں کا ہجوم لگا ہوا تھا۔ مسلسل ایک سوال اسے پریشان کیے ہوئے تھا کہ ”کیا کروں۔ کیا نہ کروں۔“ اس کے بابا نے تھوڑا مسکراتے ہوئے، اشکبار آنکھوں سے کہا، ”میں اکیلا تھوڑی ہی ہوں، یہ تو ہر ماں باپ کو، بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرتے ہوئے اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو نبھانے کا فرض ادا کرنا ہی ہوتا ہے، تیری ماں زندہ ہوتی تو کتنے چاہ سے اس نیک کام کی انجام دہی میں سرگرم نظر آتی۔ ”صنم اپنے بابا کی باتیں سنتے سنتے گھر کے کام کاج اور صفائی ستھرائی میں مصروف ہو گئی۔ اس طرح تھوڑی دیر کے لئے وہ ان پریشان کن سوچوں سے آزاد ہو گئی۔ لیکن۔ یہ کمبخت عشق۔ ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑا تھا۔

شام ڈھلے تین چار مرد اور عورتیں صنم کے گھر کے دروازے پر کھڑے دستک دے رہے تھے۔ مہمانوں کو گھر میں اتارا گیا۔ چائے پانی سے خاطر مدارت کی گئی۔ صنم نے چائے پیش کی۔ عورتیں اور مرد اسے باریک بین نظروں سے گھور رہے تھے کہ جیسے سر سے پاؤں تک اس کا ایکسرے کر رہے ہوں۔ جیسے جانوروں کی منڈی سے کوئی جانور خریدنے کے لئے اسے نظروں سے ناپا تولا جا رہا ہو۔ خیر مہمانوں نے چائے کے بعد رخصت کی اجازت چاہی اور ایک بڑی عمر کی عورت نے صنم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کچھ روپے اس کے ہاتھ میں تھما دیے، جو کہ یقیناً اس بات کی نشاندہی تھی کہ مہمانوں کو اپنے بیٹے کے لئے صنم کا رشتہ منظور تھا۔ مہمانوں نے جاتے ہوئے اس کے بابا کو گھر آنے کی دعوت دی جو کہ اس چیز کا عندیہ تھا کہ رشتہ کی بات آگے بڑھائی جائے اور تاکہ اس نیک کام کو حتمی شکل دی جا سکے۔

صنم کے رشتہ کے لئے مہمانوں کی آمد کی خبر اڑتے اڑتے امداد تک پہنچ چکی تھی۔ وہ اس صورت حال سے پریشان تو تھا۔ لیکن کچھ لمحے پہلے تک وصال یار کی خوشگوار توقعات پر مایوسی اور نارسائی کی جیسے چادر بچھ گئی ہو۔ امداد کا شیطانی ذہن معاملے کی سنگینی اور اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے لگا۔ وہ اس تمام متذبذب صورت حال میں شراب نوشی کا سہارا لینے پر مجبور تھا۔ شاید! اسی وجہ سے اس کا ذہن بہت سوچ بچار کے بعد ایک ناممکن اور ناقابل عمل منصوبے کو سر انجام دینے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔

تہجد کی نماز سے کچھ دیر پہلے صنم نے اپنے پاس ہی اپنے بوڑھے باپ اور بھائی کی چارپائی کی طرف نگاہ کی اور اس بات کی تسلی کرلی کہ وہ گہری نیند میں ہیں۔ اس نے اپنی چارپائی سے اٹھ کر چپل پہنی اور دوپٹہ سنبھالتے ہوئے اپنے گھر کے بیرونی دروازے کی طرف دبے قدموں بڑھنے لگی، خاموشی سے دروازہ کھولا اور باہر سے دروازہ بند کر کے قریبی کھیتوں کی طرف بڑھنے لگی۔ قصبہ کی پوری آبادی نیند کے نشے میں بے خبر سور ہی تھی۔ کہیں دور سے کبھی کبھار کتوں کے بھونکنے کی آواز آجاتی تھی۔

کھیتوں کے قریب اسے ایک ہیولا متحرک نظر آیا۔ جذبۂ محبت کے اندھے پن میں وہ دلیر اور نڈر اپنے انجام سے بے خبر آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ تھوڑا اور قریب جانے پر یہ واضح ہو گیا تھا کہ وہ ہیولا امداد تھا۔ ۔ نہ جانے کب سے وہاں پر موجود وہ صنم کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی۔ صنم کے لیے یہ ناگوار اور ناقابل برداشت بو تھی۔ اب کھیتوں سے آگے بڑھ کر وہ دونوں بغیر کوئی بات کیے ٹیلے کی طرف بڑھنے لگے۔

یہ اکلوتا ٹیلہ اتنا بلند تو نہ تھا لیکن اس کی اوٹ میں اگر کوئی بیٹھا ہو تو آس پاس سے گزرنے والوں کو شک بھی نہ گزرتا تھا کہ وہاں کوئی موجود ہے۔ ہلکی چاندنی کے باوجود رات کا یہ پچھلا پہر اماوس کی رات کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ٹیلے کی اوٹ میں آتے ہی امداد نے صنم کو گلے لگایا اور سیدھے ہاتھ میں تھامے ہوئے تیز دھار خنجر کے پے در پے دو یا تین وار کیے۔ امداد کا یہ وار اتنا غیر یقینی اور غیر متوقع تھا کہ اس سے پہلے کہ صنم اس صورت حال کو سمجھتی یا مزاحمت کرتی، تیز دھار آلہ اس کے زندگی کا چراغ گل کر چکا تھا۔

آخری چند ہچکیاں تھیں اور حیرت سے کھلی صنم کی آنکھوں سے زندگی کی رمق ایسے معدوم ہو رہی تھی کہ جیسے صحرا کی ریت کی طرح جو ہتھیلیوں سے پھسلتی جا رہی ہو۔ وہ امداد کے بازوؤں کے سہارے ہی ڈھیر ہو چکی تھی۔ شراب کے نشہ نے امداد کو اس طرح بے حس کر رکھا تھا کہ وہ اپنے سوچے سمجھے ارادے کو کامیابی سے اور باآسانی سر انجام دے چکا تھا۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ صنم جیسی نازک اندام کے لئے یہ چند وار جان لیوا اور کارگر ہوں گے۔

اس نے آرام سے اس پھول سے جسم کو خود سے جدا کر کے زمین پر لٹا دیا۔ اسے اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہ تھا۔ اس نے اپنے خنجر سے خود ہی اس نے اپنے پیٹ پر ایک وار کیا تاکہ تاثر دیا جا سکے یہ قتل کسی اور نے کیا ہے۔ نشہ سے لڑکھڑاتی زبان سے زیر لب امداد کی زبان پر یہی گردان تھی۔ ”اگر تم میری نہیں تو۔ کسی اور کی بھی نہیں۔ اگر تم میری نہیں تو۔ کسی اور کی بھی نہیں۔“ یہ کہتے ہوئے خون بہنے کی وجہ سے وہ بھی صنم کے پہلو میں ہی بے خوش ہو کر گر چکا تھا۔

اس وقوعہ کے چند لمحوں کے بعد ہی قریبی مسجد سے فجر کی اذان فضاؤں میں گونج اٹھی۔ کچھ پتہ نہ چلتا تھا کہ یہ پرندے ایک نئے دن کے آغاز پر اپنے خالق کی تعریف اور ثناء میں محو اپنی آوازیں بلند کر رہے تھے یا کہ کچھ دیر قبل ٹیلے کی اوٹ میں وقوع پذیر ہونے والے اندوہناک واقعہ پر وہ ماتم کر رہے تھے۔ تھوڑی روشنی لگی تو راہ گیروں نے امداد اور صنم کو خون میں لت پت دیکھ کر نمبر دار کو خبر دی۔ سارے لوگ تماش بینوں کی طرح دور دور سے یہ منظر دیکھ رہے تھے اور کئی کہانیاں گھڑ رہے تھے۔

صنم تو موقع پر ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی محبت کے لئے امر ہو چکی تھی لیکن امداد اپنی انا پرستی اور گھناؤنے اعمال کے ساتھ زندگی کی اذیت جھیل رہا تھا۔ کسی نے ہمت کی اور جا کر اپنی پگڑی کھول کر صنم کے لاش پر ڈال دی۔ علاقہ پولیس کو اس حادثہ کی خبر دی چکی تھی، تھوڑی دیر تک پولیس اپنی قدیم برٹش دور کی جیپ پر پہنچ چکی تھی۔ صورت حال دیکھ کر چند گواہوں کے بیان لینے کے بعد صنم کی لاش تو پوسٹ مارٹم کے لئے بھیجی جا چکی تھی جبکہ امداد کو ابتدائی طبی مدد کے لئے سرکاری ہسپتال روانہ کر دیا گیا تھا۔

اس قتل کا عینی گواہ قاتل ہی تھا۔ پر امداد نے بڑی کامیابی کے ساتھ قتل کے اس واقعہ کو جان لیوا حملے کا تاثر دے کر خود کو بے الزام ثابت کروا لیا تھا۔ پولیس نے صنم کے بوڑھے باپ اور بھائی کو قاتلانہ حملے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ پولیس کی حراست میں دونوں باپ بیٹا ملزمان رنجیدہ اور افسردہ تھے اور ہتھکڑیوں میں تھانیدار کے قدموں میں بیٹھے لوگوں کی چبھتی نظروں کا سامنا کر رہے تھے۔ ان کی صفائی اور بے قصور ہونے پر کوئی یقین کرنے کے لیے تیا ر نہ تھا۔

صنم کے بوڑھے باپ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ اپنی بیٹی کو بہت پیار کرتا تھا اور ہمیشہ اس کے بہتر مستقبل کے لئے دعا گو بھی رہتا تھا۔ لیکن جانے کیسے اور کب۔ لٹیری اور باغیانہ خواہشات نے سیند لگا کر اس کے گھر کی رونق اور زندگی کو اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا کر دیا تھا۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ وہ ہتھکڑی لگے ہاتھوں اور نم آلود آنکھوں سے نیلے آسمان کی طرف شکوہ بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے شاید۔ انصاف کا منتظر تھا۔

اور شاید اس بے بسی اور مجبوری میں اس ذات مستجیب سے مدد اور حمایت کا طلب گار تھا۔ قصبہ کے تماش بین لوگ مجبور اور بے بس سادہ لوح خاندان کو اس صورت حال میں دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے۔ صنم کے گھر کے تمام پھل دار درخت بھی جیسے سر جھکائے کھڑے ندامت اور افسوس کی اس غمناک گھڑی میں بے گناہ اور ناحق خون کے شبہ میں گرفتار باپ بیٹا کے غم میں برابر کے شریک تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments