تونسہ اور بلوچستان :دو سوتیلے


امسال 2022 ء میں مون سون بارشوں کا آغاز شد و مد سے ہوا۔ ماہ ساون کی ابتدا سے انتہا تک کے دنوں میں ملک بھر میں شدید طوفانی بارشیں ہوئیں کراچی، گلگت بلتستان، بلوچستان وغیرہ میں بدترین سیلابی صورتحال پیدا ہوئی۔ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ملک کے پسماندہ جنوبی پنجاب کے ڈویژن ڈیرہ غازی خان کو بھی کرنا پڑا جس میں بھی سیلابی ریلوں نے ہرطرف تباہی و بربادی پھیلا دی ہے۔ مٹھاون۔ نالہ وڈور۔ سانگھڑ۔ کوہ سلیمان کے پہاڑوں، اور پوری تحصیل تونسہ میں شدید ترین بارش ہوئی۔

تونسہ کے گرد و نواح منگڑوٹھہ، سوکڑ، مندرانی، بغلانی، کوٹ مہوئی، مکول، وہوا، قیصرانی، لوہار والا وستی حبیب، بستی چنڑ، بیٹ جراح، بیٹ اشرف ٹھلہ چاکی، بیٹ جڑھ دائرہ شاہ، بودومناں مارکھ وائی، سجن، لانگھہ مکمل سیلابی پانی میں ڈوب گئے، اس طرح ضلع راجن پور کے کئی علاقے جن میں فاضل پور، داجل، لنڈی سیداں وغیرہ شامل ہیں بھی بدترین سیلاب کی زد میں ہیں۔ یہاں کے مکین درختوں پہ پناہ لیے ہوئے ہیں

کوہ سلیمان کے پانی نے کپاس اور چاول وغیرہ کی فصلوں کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔ درجنوں افراد اور مال مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں مکانات زیر آب آ چکے ہیں اور لاکھوں افراد طوفانی سیلاب سے تن تنہا نبردآزما ہیں، چند افراد بے بسی سے لڑتے لڑتے لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں۔

مزید کب ناک صورت حال یہ ہے کہ وہ لوگ جو محفوظ ہیں انہوں نے سیلاب متاثرین کو ہی مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا ہے کہ یہ سب لوگوں کی غفلت اور ان کے گناہوں کی سزا ہے، یہ بے بنیاد اور اپنی ذمہ داری سے چشم پوشی کرنے والی بات ہے، قدرتی آفات ضرور آتی ہیں لیکن ان کے تدارک بھی موجود ہوتے ہیں، طوفان نوح کے بعد کشتی بنا کر محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ حکمران جماعت کشتی بنانے کی بجائے پہلے سے بدحال لوگوں کے سر تھوپ رہی ہے، یہ مکمل طور پر سیاسی اور انتظامی ناکامی اور غفلت کا نتیجہ ہے جس پر جتنا جلدی ممکن ہو قابو پایا جائے۔ یہ سب بیانیے بنانے کی وجہ عوام کو جذباتی اور نفسیاتی سطح پر محکوم رکھنا ہی ہے۔

حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو نورا کشتی سے فرصت نہیں کہ وہ اقتدار کی کرسی کو حاصل کرنے اور بچانے میں مصروف عمل ہیں جبکہ بلوچستان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور کوٹ ادو، اور مظفرگڑھ کی عوام بے سہارا سسک رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ داران اور سوشل میڈیا پر متحرک افراد یوتھیا اور پٹواری کی پٹاری و شعبدہ بازی میں مستغرق ہیں۔

ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اقتدار اور مخیر حضرات بے سہاروں کے سہارا بنیں، غربا کی زندگی بھر کی جمع پونجی پل بھر میں چھن گئی، ارباب اختیار انسان دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے طوفان کا سامنا کرنے والوں کی دادرسی کا انتظام کریں۔ اور میڈیا ذمہ داران پر لازم ہے کہ وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی تازہ ترین درست صورت حال سے قوم کو آگاہ کرے تاکہ انسانیت کی جان و مال کی حفاظت کا بروقت انتظام شرمندہ تعبیر ہو جائے۔ بجائے کہ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا سیاست سیاست کھیلے اور جانوں کے ضیاع کا مذاق اڑائے اب بھی وقت ہے کہ مالی اور جذباتی نقصان کے بعد اب جانی نقصان سے تو متاثرین کو بچا لیا جائے

چتروٹہ تحصیل کوہ سلیمان، موضع شم پھتے والا سرفراغ غربی تحصیل کوہ سلیمان، بیلاوہیر زڑدوہیر کندھی، چھکیں زام یہ سارے علاقے تحصیل تونسہ ضلع ڈیرہ غازی خان کے شمال مغرب میں واقع ہیں ان علاقوں میں کوئی بھی نیٹ ورک کی سہولیات موجود نہیں ہیں

اس وجہ سے مین سٹریم میڈیا روزمرہ کی لڑائیوں، سیاسی اور فلمی اداکاروں کی زندگیوں سے ہٹ کر ان لاکھوں کی زندگیوں پر بات کرے جو اب خطرے میں ہیں۔

سیاسی دنگل اور فضول ٹرینڈز کی بجائے اب وسیب اور دامن کوہ کے متاثرہ لوگوں کی آواز بننے کا وقت آ چکا ہے۔ بہت سے سیاسی لوگ جو چار بار منتخب ہونے کے بعد اب چند ہزار کے روشن پر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں ان سے عوام کو اب مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ناگہانی آفات کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات ہی کر دیں کہ پھر کبھی وسیب والوں کے سارے جیون کی جمع پونجی پل بھر میں نہ ڈوب جائے۔

عوام کے پیسے پر عیاشیاں کرنے والے چند ہزار کی بجائے انتظامی فنڈز سے پیسہ مستقل اقدامات اٹھانے پر توجہ دیں۔ عوام کو بھی اب محاسبہ کرنا چاہیے کہ انہیں بچانے والے ان کے بھائی اور عام لوگ ہی تھے نہ کہ سیاست دان، اس لیے وہ سیاسی جنونیت اور سیاست کے نام پر اپنے معاشرتی تعلقات خراب کرنے سے آئندہ اجتناب کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments