شہباز گل اور مکافات عمل


پڑھا تھا، سنا تھا کہ مکافات عمل اٹل ہے۔ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔ یہی دنیا کا اصول ہے۔ زبان کا دیا گیا زخم تلوار سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ انسان کا آج کا عمل، کل کی فصل کا بیج ہوتا ہے، لیکن ہم انسان عروج پر اس سنہرے اصول کو بھول جاتے ہیں، اور بعد میں شرم و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

زیادہ دور نہیں جاتے، بس چار سال پیچھے جاتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت تھی۔ یہ حکومت انتقام اور نفرت میں اندھی ہو چکی تھی۔ ساری اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالا جا رہا تھا۔ تفتیش میں تعاون کرنے کے باوجود بھی انہیں گرفتار کیا جاتا تھا۔ بنا عدالت میں پیش کیے مہینوں تک جیل میں رکھا جاتا تھا۔

نواز شریف کی اہلیہ شدید علیل تھیں، ان کا مذاق اڑایا گیا، یہاں تک ہسپتال میں ان کے کمرے میں جا کر تصاویر بنائی گئیں۔ وہ بستر مرگ پر تھیں، کہا گیا ڈرامہ کر رہیں۔ نواز شریف جیل میں تھے، درد کی صورت میں ڈاکٹر میسر نا تھا۔ فواد حسن فواد کو وعدہ معاف گواہ نا بننے پر 2 سال قید میں رکھا گیا۔ احد چیمہ کو بنا کسی مقدمے کے جیل میں رکھا گیا۔ مریم نواز کو گرفتار کر کے وکٹری کے نشان بنائے گئے۔ رانا ثناءاللہ پر جھوٹا منشیات کا مقدمہ بنایا گیا۔ احسن اقبال، شاہد خاقان کو جیل میں ڈالا۔ فریال تالپور کو رات کے آخری پہر ان کے گھر سے جیل لے جایا گیا، اور یہ لسٹ ختم نہیں ہو گی۔

تب ان کا مذاق اڑایا گیا۔ ان کی بیماریوں پر میمز بنائے گے۔ لوگ ہنستے تھے اور ان کا مذاق اڑایا گیا۔ سوشل میڈیا کے ففتھ جنریشن واریئرز نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ تب شہباز گل کی غلیظ زبان سے کوئی محفوظ نا تھا۔ تب یہ آدمی عمران خان کا مشیر و ترجمان اور بہترین دوست تھا، سیاہ و سفید کا مالک، کوئی روک ٹھوک نہیں، پوری حکومتی مشینری اس کے اشاروں پر ناچتی تھی۔ اس کی زبان کے شر سے کوئی محفوظ نا تھا۔ بدتمیزی و بداخلاقی سے اس کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔

وقت کا پہیہ گھوما، کل کی اپوزیشن حکومت میں آ گئی۔ اور شہباز گل کی زبان اسے لے ڈوبی۔ کوئی دوست سامنے نا آیا، سب نے ٹویٹر اور سوشل میڈیا پر سپورٹ کیا۔ میدان میں کوئی نا آیا۔ اڈیالہ جیل راولپنڈی، پمز ہسپتال اسلام آباد، یہ دونوں وہ شہر جہاں تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی کی ساری سیٹیں ہیں، پھر بھی کوئی کارکن نا آیا؟ شہباز گل کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا گیا۔

شہباز گل کی موجودہ حالت یہ بات بھی ثابت کرتی ہے کہ جو لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کرتے ہیں، وہ نقصان میں رہتے ہیں۔ خواہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بابر اعوان ہوں، نون لیگ کے زعیم قادری، ایم کیو ایم کے فاروق ستار، تحریک انصاف کے شہباز گل و فردوس عاشق اعوان ہوں، یہ سب خسارے میں رہے۔ کیونکہ یہ سیاسی کارکن نہیں تھے۔ یہ محنت کر کے اوپر نہیں آئے تھے۔ بلکہ یہ لوگ اپنی چرب زبانی کی وجہ سے پارٹی کے سربراہوں کے منظور نظر بن گئے۔

ان کو مخالفین پر الزام لگانے کے لیے ہی رکھا گیا تھا۔ لیکن جب یہ اپنی وفاداری اور لمٹ سے آگے بڑھے، انہیں نکال کر باہر پھینک دیا گیا۔ شہباز گل جو کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے، بھلا وہ ایلیٹ کلاس میں کیسے آ سکتا تھا؟ اب وہ رو رہا ہے، جو کل دوسروں کو بیماری کا طعنہ دیتا تھا آج وہ خود تماشا بن گیا ہے۔ ، جو دوسروں کا مذاق اڑاتے نا تھکتا تھا آج وہ خود ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔

اس میں ہمارے لیے نصیحت ہے کہ جب اللہ ہمیں کوئی عہدہ دے تو ہماری گردنوں میں سریا نہیں آنا چاہیے۔ غرور نہیں کرنا چاہیے، دوسروں کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔ ان کو خود سے کمتر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اللہ کو عاجزی پسند ہے، عاجز بندے ہی اس کے پسندیدہ ہیں، جب کوئی عہدہ ملے تو خدارا اسے دوسروں کے لیے باعث زحمت مت بنائیں کیونکہ عہدے جاتے دیر نہیں لگتی، بازی کبھی بھی پلٹ سکتی ہے۔ عروج کسی بھی لمحے زوال میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ لیکن جب انسان عروج پر ہو، یہ باتیں اس سے اکثر فراموش ہو جاتی ہیں، اور وہ فاش غلطیاں کرتا ہے، جس کا انجام شدید ہوتا ہے، جو بعد میں اسے ہی بھگتنا پڑتا ہے۔

شہباز گل سے یہ سب برداشت نہیں ہو پائے گا۔ سیاست دان جیل جاتے ہیں، شہباز گل سیاست دان نہیں۔ اسے نصیحت حاصل ہو چکی، اب اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس میں سیاسی پارٹیوں کے لئے بھی سبق ہے، کہ آج جو آپ دوسروں کے ساتھ کریں گے، کل کو وہی سب کچھ آپ کے ساتھ بھی ہو گا، یہی مکافات عمل ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments