ایک تصویر جس میں ”وجاہت مسعود اور اوریا مقبول جان“ ایک ساتھ دیکھے گئے


گزشتہ دنوں ایک تصویر کا بڑا چرچا رہا جس میں دو ایسی شخصیات کو ایک ساتھ دیکھا گیا جو نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے بالکل ہی مختلف ہیں اور دونوں کا فلسفہ حیات ایک دوسرے سے بالکل ہی جداگانہ ہے۔ ایک شخص پروگریسیو تصورات کا پرچارک ہے اور بھیڑ چال سے بچ بچا کر اپنے تئیں اپنا ایماندارانہ موقف یا رائے بڑے دھڑلے سے پیش کر دیتا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ ان کا موقف واضح اور ”اگر مگر چونکہ چنانچہ“ کے اضافی بوجھ سے کسی حد تک آزاد ہوتا ہے۔ درویش صفت انسان ہیں مگر درویشی میں عیاری یا خوامخواہ کے مصلحتی چولے پہننے کو اخلاقی گراوٹ یا کمزور کردار سے تشبیہ دیتے ہیں، اسی لیے اس قسم کی شعبدہ بازیوں سے کوسوں دور رہتے ہیں، اس شخصیت کا نام وجاہت مسعود ہے۔

دوسری شخصیت جن کے نام کے ساتھ بڑے واضح حروف میں ”پرومیننٹ کنزرویٹو کالمسٹ“ لکھا ہوتا ہے۔ سابق بیوروکریٹ ہیں اور قدرت اللہ شہاب کے ورثے کو  لے کر چل رہے ہیں۔ جس طرح انہوں نے آخری عمر میں رجوع کرتے ہوئے شہاب نامہ میں روحانی ٹچ کی رسم ڈالی تھی بالکل اسی طرح سے یہ صاحب بھی ٹی وی اسکرین پر اپنے ذاتی روحانی خوابوں کے تذکرے کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ بھی دنیا کو الوداع کہنے سے پہلے پہلے اپنا روحانی نامہ لکھ ڈالیں گے تاکہ سند رہے اور روحانی تلقین بابوں کا سلسلہ چلتا رہے۔

اس کے علاوہ ان کے تعارفی شجرہ میں ملالہ یوسف زئی، عاصمہ جہانگیر اور پرویز ہودبھائی سے شدید قسم کی نفرت کے علاوہ فیمنزم موومنٹ، سیکولر تصورات اور خواتین کا آ ؤٹ ڈور لائف سرگرمیوں میں حصہ لینا جیسے عناصر سے چڑ یا مخالفت شامل ہے، اس شخصیت کا نام اوریا مقبول جان ہے۔ دونوں شخصیات کا ابتدائی خاکہ بنانے کا مقصد دونوں کے نظریاتی میدانوں کو واضح کرنا ہے اور اس ابتدائی تعارف کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اوریا مقبول جان کا نام وجاہت مسعود کے ساتھ جوڑنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ”ریپبلک“ کے ساتھ ”اسلامی“ کا صیغہ لگانا، جس کا ری پبلک کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں بنتا اور زبردستی لگانے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ”نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے، نہ پورے اسلامی بن پائے اور نہ سیکولر“ بس وقت کے حساب سے ”بندوبستی ٹانکے“ لگا کر کام چلاتے آرہے ہیں۔

اتنی لمبی تمہید کا مقصد اس مشترکہ تصویر کے وائرل ہونے کے بعد میں بننے والی رائے اور دلچسپ قسم کی چہ مگوئیاں ہیں جنہیں پڑھ کر یا سن کر حیرانی ہوتی ہے کہ ہم مجموعی طور پر اتنے شدت پسند کیوں بنتے جا رہے ہیں؟ ہمیں دو ایسے انسانوں کا محبت سے ملنا جو بھلے نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہوں معیوب کیوں لگتا ہے؟ اور ہم رسمی جیسچر کو مشکوک نگاہی سے کیوں دیکھتے ہیں؟ ہمارے ایک مذہبی دوست ہیں جو اوریا کے گرویدہ ہیں انھوں نے یہ مشترکہ تصویر دیکھتے ہی مجھے اپنا فتویٰ سناتے ہوئے کہا کہ ”دیکھیں جناب آخرکار وجاہت مسعود نے اوریا مقبول جان کی علمیت کا اعتراف کر ہی لیا اور اس تصویر کا موڈ بتا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ دونوں ایک ساتھ نظر آنے والے ہیں، اور غور سے دیکھیں تو آپ پر واضح ہو گا کہ کیسے اوریا نے وجاہت پر دست شفقت رکھا ہوا ہے اور گرم جوشی سے ہاتھ ملا رہے ہیں“ ۔

حالانکہ دست شفقت وجاہت نے رکھا ہوا ہے مگر شاید بھائی جلد بازی میں غور کرنا بھول گیا ہو گا؟ میں نے یہ سنتے ہی مسکرا کر عرض کی کہ جناب اگر یہ اتفاقی تصویر کوئی سیکریٹ ڈاکومنٹ ہوتی تو ایڈیٹر ”ہم سب“ عدنان کاکڑ اپنے مزاحیہ کمنٹ کے ساتھ اپنی وال پر شیئر نہ کرتے مگر ملنے ملانے پر اتنی ”مخولیا“ مزاحیہ قسم کی باتیں اور نتائج اخذ کرنا ہم جیسے ”ویلے“ فارغ البال قسم کے لوگوں کا ہی حوصلہ ہو سکتا ہے بھائی۔

اب جو لوگ ان دونوں شخصیات کے نظریات سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جیسے ریپبلک کے ساتھ کسی بھی مذہب کا صیغہ لگانا ایک طرح سے ”اکسیمورون“ بن جاتا ہے، مطلب مجموعہ تضاد جس کا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ کیونکہ ریپبلک سیکولر ریاست کا استعارہ ہوتا ہے جس کا کسی بھی مذہب سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہوتا، بالکل اسی طرح سے وجاہت مسعود کے ساتھ اوریا مقبول جان کو جوڑنا بھی ایک طرح سے ”پرسنیلٹی آکسیمورون“ یا شخصی گھپلا بن جائے گا اور گھپلا کرپشن کے زمرے میں آتا ہے جس کا حاصل کنفیوژن کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔

میں نے بہت سے معترضین دوستوں سے سوال کیا کہ آپ اپنی رائے قائم کرنے میں آزاد ہیں مگر اتنا تو بتا دیں کہ آپ نے اپنے نظریاتی مخالف کو کتنا اور کس حد تک پڑھا ہے؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سوں کی رائے سنی سنائی باتوں یا پروپیگنڈے پر مشتمل تھی۔ مطالعہ کرنے والے صاحب فکر و نظر اوریا اور وجاہت کے مزاج کو بخوبی سمجھتے اور جانتے ہیں اور وجاہت مسعود اوریا مقبول جان کے تصورات کو قرون وسطیٰ میں اٹکے ہوئے سمجھتے ہیں اور ان کے جہادی خیالات سے سخت اختلاف رکھتے ہیں۔

جہاں تک ان کے ظرف کی بات ہے تو ہم جیسے کئی ان کی ایک مخلصانہ کاوش کے گواہ ہیں، کافی عرصہ پہلے انہوں نے مختلف سیاسی اور مذہبی رہنماؤں سے انٹرویو کی صورت میں ڈائیلاگ کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس سلسلے کی جہاں بہت سارے لوگوں نے مخالفت کی تھی اسی مخالفانہ مہم میں ہم بھی پیش پیش تھے کہ آخر وجاہت مسعود جیسے روشن خیال بندے کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ مائک اٹھا کر کس طرف چل پڑا۔ چلو سیاسی لوگوں سے بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر مذہبی رہنماؤں سے ڈائیلاگ کرنے کا کیا جواز بنتا ہے؟ مذہبی رہنما تو اپنے رویوں میں انتہا پسندانہ اور رجعتی رجحانات کے پیروکار ہوتے ہیں ان سے بھلا بات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر سخت تنقید اور مخالفت کے باوجود وجاہت کا موقف بالکل واضح تھا کہ ایک ہی سماج میں رہتے ہوئے ہم کسی کو بھی کارنر نہیں کر سکتے اور مختلف الخیال لوگوں سے ڈائیلاگ کرنے میں ہی معاشروں کی بھلائی اور خیر ہوتی ہے۔ ایک ملک میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے خیالات سے استفادہ کرنا اور باہمی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کو سپیس دینے سے ہی ملک و معاشرہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔

مطلب وجاہت شمولیت پر یقین رکھنے والا انسان ہے اس نے کبھی نسل، رنگ، جنس زبان یا مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی بات نہیں کی اور اپنے پروگریسیو نظریات کی وجہ سے مختلف نظریات کے لوگوں کو کم تر اور خود کو برتر بنا کر پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جبکہ دوسری طرف آپ اوریا مقبول جان کا طرز کلام مشاہدہ کر سکتے ہیں جو انتہائی حقارت و نفرت سے اپنے مخالف نظریات کو لتاڑتے ہوئے اور خود کے نظریات کو کوالیفائیڈ بنا کر پیش کرتا رہتا ہے۔

انسانی تصورات انسانوں کے بنائے ہوتے ہیں اور انسانوں کا مجموعی ورثہ ہوتے ہیں اور ان میں رد و بدل کی گنجائش موجود رہتی ہے مگر اپنے سچ کو فائنل اتھارٹی سمجھنا احمقانہ رویے میں شمار ہوتا ہے اور یہ ایک طرح سے ”احساس برتری“ ہوتا ہے جو آپ کی آواز کا والیم تو ضرور بڑھا دیتا ہے مگر دانش کا دامن خالی ہی رہتا ہے اور یہ ایک طرح کی ذہنی بیماری ہوتی ہے۔ ترقی پسند فکر حالات و واقعات کے تناظر میں خود کو ”رینوویٹ یا ری کنسٹرکٹ“ کرتی رہتی ہے اور سب فکری دھاروں کو ساتھ ملاتے ہوئے شمولیت پر یقین رکھتی ہے جب کہ رجعت پسندی ”قطعیت کی وجہ سے فاصلہ بنائے رکھنے پر مصر ہونے کی بنا پر معاشرے سے کٹی رہتی ہے اور اوریا مقبول اسی فکر کے پیامبر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments