اقبال اور اشتراکیت


اشتراکیت ایک مکمل نظریہ حیات کا نام ہے جس کے اندر سب کو مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ اشتراکیت کا یہ نظام کیپٹلزم کے خلاف سامنے آیا۔ اس نظام کا خواب 1844 میں کارل مارکس نے دیکھا۔ جو آگے چل کر مارکس ازم کے نام سے منسوب ہو گیا۔ اس نے کسان اور محنت کش کو اہمیت دی۔ اس نظام کا مقصد یہ تھا کہ کسان اور محنت کش کو اس کا حق ملنا چاہیے۔ کارل مارکس نے اس کے تحت لکھا۔ علامہ اقبال بھی اس فکر میں شامل تھے انھوں نے اس نظام کا استقبال کیا۔ اور اس کا باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب روس کو ”بطن گیتی سے آفتاب تازہ“ کی بشارت دی۔

کچھ لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ علامہ اقبال اشتراکی نظام کے مخالف تھے۔ اس ضمن میں قابل ذکر علامہ صاحب کا وہ مفصل تردیدی بیان ہے جو انھوں نے شمس الدین حسن کے جواب کے طور پر لکھا اور روزنامہ ”زمیندار“ میں شائع ہوا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اقبال کو کسی نے اطلاع دی کہ آپ سے بالشویک خیالات منسوب کیے گئے ہیں۔ تو انھوں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اس کی تردید میں جواب لکھ بھیجا۔ لیکن درحقیقت علامہ اقبال اشتراکیت کے خلاف نہیں تھے۔ یہاں ان کے شدید ردعمل کے پیچھے وجوہات کچھ اور ہیں۔ علامہ اقبال فکری طور خواہ کتنا ہی آزاد تھے مگر وہ عملی طور پر کچھ بندش کا شکار بھی تھے۔ چونکہ اس وقت برطانوی سامراج تھا اور اس سے انھیں کسی قدر خوف بھی تھا۔ اس لیے وہ ایسا کوئی اقدام نہیں کرنا چاہتے تھے جس سے حکومت وقت ان کے خلاف ہو جائے۔

دوسرا یہ واقعہ جس زمانے میں پیش آیا وہ تاریخ کا انتہائی نازک دور تھا۔ انقلاب روس نے برطانوی سامراج کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ اور اس کی جگہ اشتراکی نظام نے لے لی تھی۔ حکومت ان حالات کو انتہائی تشویش کی نظر سے دیکھ رہی تھی۔ اس صورت حال میں علامہ اقبال کا اشتراکیت سے انکار ان کی حفاظت کے لیے ضروری تھا۔ علامہ اقبال اشتراکیت کی صرف مذہب دشمنی کے علاوہ اس کی تمام باتوں سے متفق تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور ملوکیت دونوں کے مخالف تھے۔

مزدوروں کے حق میں تھے۔ سوشلزم کے حامی تھے۔ اور ایسے انقلاب کے خیر خواہ تھے جس میں امیر اور غریب کی کوئی تفریق نہ ہو۔ سوشلزم کو اسلام کے اس قدر مشابہ خیال کرتے تھے کہ ان کے نزدیک اگر سویت نظم میں خدا کا اقرار بھی شامل ہو جائے تو عین اسلام ہو گا۔ علامہ اقبال کے اس خیال اور روزنامہ ،،زمیندار، میں تردیدی بیان کو اگر دیکھا جائے تو ان میں بڑا فرق نظر آئے گا۔

برطانوی سامراج کی گرفت جب ہندوستان پر ڈھیلی پڑ گئی تو اقبال نے علانیہ اشتراکیت کا اقرار کیا۔ انھوں نے اس نظام کے بارے میں مزید غور و فکر کیا۔ اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انسانوں کو ان دکھوں سے نجات دلانے کا واحد راستہ اشتراکی انقلاب ہے۔ انھیں اسلامی انقلاب کے آثار کہیں نظر نہیں آئے جو ان کے خیال میں انسانی دکھوں کا بہترین علاج تھا۔ تو پھر ان کے سامنے صرف ایک ہی راہ تھی اور وہ تھی سوشلزم کی راہ۔ اقبال نے انھی خیالات کے تحت 1934 میں سوشلسٹ پارٹی کے قیام کی تجویز رکھی۔

علامہ اقبال کی تمام تر ہمدردیاں محنت کش طبقے کے ساتھ تھیں۔ ان کے حقوق کا استحصال انھیں ناگوار گزرتا تھا۔ ان کا دل مزدوروں پر ڈھائے گئے ظلم و ستم کو دیکھ کر دکھتا تھا۔ انھیں اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ مزدور طبقے کو اس سے نجات دلانے کا واحد راستہ ملوکیت کا خاتمہ ہے۔ علامہ اقبال ”بال جبرئیل“ میں اس کا تذکرہ یوں کرتے ہیں :۔

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو!
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
گنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
(فرمان خدا)

علامہ اقبال اس وقت کے رائج نظام سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ افلاس اس وقت دور ہو گی جب دولت کی مساوی تقسیم ہو گی۔ وہ سرمایہ کی بے جا تقسیم کے مخالف تھے اور اس معاملے میں اسلامی اصولوں کو ہی بہتر خیال کرتے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ ہندوستان کی زیادہ تر آبادی مزدوروں اور کسانوں پر مشتمل ہے۔ اور ان کو تقریباً وہ تمام مسائل در پیش ہیں جو انقلاب سے پہلے روس کو تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے انقلاب روس کا خیر مقدم کیا۔

انھیں اس انقلاب میں مزدوروں کی فلاح نظر آئی۔ علامہ اقبال نے جب دیکھا کہ روس میں ایک ایسے نظام کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے اندر امن اور سکون ہو گا۔ ہر شخص کو برابر موقع ملے گا۔ اور اس طرح عوام کے اندر خود اعتمادی کی صلاحیت پیدا ہو گی۔ اس تصور نے مزدور طبقے میں اعتماد پیدا کیا۔ تو اقبال بھی اس سے متاثر ہوئے اور ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھنا شروع کیا جس کے اندر امن و سکون ہو۔ اور یہ خوبی انھیں سوشلزم کے اندر نظر آئی۔ اس ضمن میں ان کی نظمیں ”خضر راہ“ اور ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ قابل ذکر ہیں۔

مندرجہ بالا تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال اشتراکی نظام کے حامی تھے۔ روسی انقلاب کی حمایت میں تھے۔ اشتراکیت کو اس کی خوبیوں کی بنا پر سراہتے تھے۔ انسانی استحصال، نا برابری اور عدم مساوات کا خاتمہ چاہتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments