خواہشات کا غلام کبھی آزاد نہیں ہوتا


وطن اس کائنات میں انسان کے لیے خدا کی بہت بڑی نعمت ہے۔ وطن ہمارا گھر، فخر، وقار، دل کی دھڑکن، آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہے۔ وطن بے سہارا کے لیے سہارا اور بے گھر کے لیے گھر ہے۔ وطن ماں کے پیٹ کے بعد وہ دوسرا پیٹ ہے جس نے ہمیں اٹھائے رکھا ہے۔

یہ باپ کے کندھے کے بعد وہ دوسرا کندھا ہے جو کبھی تھکتا نہیں ہے۔ یہ زمین کی چھاتی سے نکلا ہوا وہ خالص دودھ ہے جسے پی پی کر ہم پلے بڑھے ہیں۔ یہ وہ گرم گود ہے جس میں ہمیں ماں کی شفقت اور باپ کی حفاظت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ وہ اسکول اور مدرسہ ہے جو ہمیں بغیر گھٹن کے سانس لینے کا فن سکھاتا ہے۔ وطن بچپن میں ہمارا ٹھکانہ اور بڑھاپے میں سہارا ہے۔ وطن دل اور روح کی مانند ہوتا ہے، اس کے بغیر انسان ایسا ہے جیسے درخت بغیر پتوں اور جسم بغیر روح کے۔

یہی وجہ ہے کہ وطن ہمارے جسم کے ہر کونے میں بستا ہے، اس کی محبت ہماری رگوں میں دوڑتی ہے اور جب اس پر مشکل حالات آتے ہیں یا اس کے حوالے سے کوئی بری خبر سننے کو ملتی ہے تو ہم سب کے دل بے قرار ہو جاتے ہیں، کیونکہ یہ ہمارے لیے ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے اور ہم میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ ہمارے ملک کا پرچم یوں ہی فضاؤں میں لہراتا رہے۔

ایک محب وطن شہری کو اپنے ملک پر ایسا ہی فخر ہوتا ہے جیسا کہ باز کو اپنی پرواز پر فخر ہوتا ہے۔ اس کا اپنے وطن سے رشتہ ایسا ہوتا ہے جیسا مچھلی اور پانی کا رشتہ یا درختوں اور ہوا کا رشتہ ہوتا ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان اور اس کے وطن کے رشتہ کو لفظوں میں بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہ وطن سے محبت ہر ایک کو ہوتی ہے لیکن اس کا احساس جس طرح ایک غریب الوطن کو پردیس میں ہوتا ہے اس طرح ہمیشہ دیس میں رہنے والوں کو نہیں ہو سکتا۔

پردیسی کی زندگی ہمیشہ اپنے دیس کے غم سے آشکارا ہوتی ہے، دیار غیر میں جب وہ کوچہ بکوچہ رزق تلاش کرتا ہے اور وہاں اپنے وطن کے کسی کوچے، سڑک، درخت، باغ، گلی یا نہر وغیرہ جیسا کچھ دیکھنے لگتا ہے تو اس کا دل کرتا ہے کہ یہیں پر کہیں اپنے سکون دل کی خاطر کوئی سہارا ڈھونڈ لوں، اور پھر وہیں بیٹھ کر گنگنانے لگتا ہے۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے :

الم تر ان الطیر ان جاء عشھ
فآواہ فی اکنافہ یترنم ”

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب پرندہ شام کو اپنے گھونسلے میں واپس آتا ہے اور اس کی بانہوں میں خود کو محفوظ محسوس کرتا ہے تو فرط مسرت میں گانے لگتا ہے۔

سو کوئی بھی اپنے وطن کی قدر و قیمت اس وقت تک صحیح طرح نہیں جان سکتا جب تک وہ اس سے تھوڑے وقت کے لیے سہی، دور نہ ہو جائے۔

آج سے پچھتر سال قبل اللہ تعالی نے ہمیں اس کرہ ارض پر پاکستان کی شکل میں ایک جنت نظیر خطہ عطاء فرمایا، جس پر خالق کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے،

کیونکہ وطن در حقیقت سلامتی، سکون اور آزادی کا دوسرا نام ہے اور اس معنی میں یقیناً ہم آزاد ہو گئے ہیں۔ لیکن غلامی کی ایک دوسری قسم وہ ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے آزاد ملک میں ہوتے ہوئے بھی غلام رہتا ہے اور وہ ہے اپنی نفسانی خواہشات کا غلام ہونا۔

مگر اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ خواہش، نفس کے میلان کو کہا جاتا ہے اور یہ اپنی ذات میں مطلقا کوئی بری چیز نہیں ہے، کیونکہ اگر انسان کا میلان کھانے پینے، کمانے اور شادی وغیرہ کی طرف نہ ہو تو اس کے لیے یہ سارے کام ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بن جاتے ہیں، خواہش ہی تو وہ جذبہ ہے جو انسان کو کسی چیز کی طرف راغب کر سکتا ہے۔

لیکن جب کوئی خواہش اس قدر بڑھ جائے کہ انسان اس کے سامنے بے بس اور مغلوب ہو جائے تو پھر یہ خواہش بری ہی نہیں ٹھہرتی بلکہ اس کی پیروی بھی شرعا ممنوع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں جابجا ایسے ہی خواہشات کے پیچھے چلنے سے روکا گیا ہے۔

جو انسان اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیتا ہے، اللہ تعالی اس کو اس کے علم کے باوجود گمراہی میں پھینک کر اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دیتا ہے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ القرآن۔

تب وہ اپنی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے دوسروں کا حق مارتا ہے، اس کی خاطر دوسروں کے احترام اور وقار کو روند ڈالتا ہے، جائز اور ناجائز میں تمیز کرنا بھول جاتا ہے اور خواہشات ہی کے حصول میں ایسا مگن ہوجاتا ہے کہ اپنی اصل زندگی یعنی آخرت کو بھول جاتا ہے۔

چنانچہ ہمارے ہاں بھی آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں گے تو ایسے غلاموں کی بڑی تعداد نظر آئے گی۔ کوئی پیسے کا غلام ہے، کوئی زیادہ سے زیادہ جائیدادیں جمع کرنے کے شوق میں مگن ہے، کوئی اپنا مستقبل بنانے کے لیے دوسرے کو کوڑی کوڑی کا محتاج بنا رہا ہے اور کوئی اپنا گھر سنوارنے کے لیے دوسرے کے ہنستے بستے گھر کو اجاڑ رہا ہے۔

قومی لیڈران تو کرسی کے حرص میں اس قدر اندھے، بہرے ہو گئے ہیں کہ کوئی چیز ان کی طرف ان کے مارنے کے لیے ہی کیوں نہ پھینکی جائے تب بھی وہ اس کی طرف اپنا مفاد ڈھونڈنے کے لیے لپک جاتے ہیں۔ آج کل تو وہ کرسی کی ہوس میں ایسی نیچ حرکتیں کرنے لگے ہیں کہ انسان کو ان کی تربیت پر شک ہونے لگتا ہے۔

”عزیز ہم وطنو“ کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ اقتدار، طاقت اور دبدبے کی خواہش نے ان کی عزت اور وقار کو خاک میں ملا دیا ہے۔

معزز قارئین! اگر آپ کو بھی مناصب اور اختیارات کے حصول اور ماتحتوں کے جلوس میں اترا کر چلنے کی خواہش نے اندھا کر دیا ہے یا آپ کی ساری فکر، دولت، لذت اور طاقت کا حصول ہے تو سمجھ لیجیے کہ آپ آزاد نہیں بلکہ مملوک اور غلام ہیں۔ جی ہاں! لالچ اور لامتناہی خواہشات کے غلام۔

اگر آپ آزاد بننا چاہتے ہیں تو دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے اور ان کی قیادت کرنے سے پہلے خود اپنے نفس پر غلبہ حاصل کر کے اس کی قیادت کرنا سیکھ لیجیے۔ لیکن! اپنے نفس کی سلطنت کا بادشاہ بننے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے لالچ کے طوق سے آزاد ہوا جائے اور اپنی ہوس پر قابو پایا جائے۔ کیونکہ نفسانی خواہشات کا غلام کبھی آزاد نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments