عالمی موسمیاتی تبدیلی۔ حالیہ سیلاب ہماری تیاری کا امتحان


کرہ ارض پر موسمیاتی تبدیلی ایک نئی حقیقت ہے جس کا سامنا پوری دنیا کو ہے۔ اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ پوری دنیا میں اس تبدیلی کے اثرات مرتب ہوں گے مگر کچھ ممالک بہت زیادہ متاثر ہوں گے کچھ کم۔ مالدیپ جیسے ملک کے سمندر میں ڈوب جانے کا خدشہ ہے تو براٰعظم افریقہ میں ایک بڑے حصے کے صحرا میں بدلنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں ایک طرف کئی سو ایکڑ زمین روزانہ کے حساب سے سمندر کا لقمہ بن رہی ہے تو دوسری طرف صحرا بھی پھیلتا جا رہا ہے اور پہاڑوں پر گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ سیلاب، زلزلہ اور کوئی ایسی آفت جس کا نام لو پاکستان نشانے پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی وہ علاقے جو کم ترقی یافتہ کہلاتے ہیں جہاں غربت کی شرح زیادہ ہے سب سے زیادہ قدرتی آفات کی زد میں آتے ہیں۔ بار بار چترال، گلگت بلتستان سے بلوچستان تک ایسے مناظر دیکھنے کو آتے ہیں الامان الحفیظ۔

2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب کے بعد متاثرین کی بحالی کے علاوہ ایسے قدرتی اور مصنوعی آفات سے نپٹنے کے لئے اداروں کا قیام اور ان کی فعالی کے لئے بھی ملکی اور غیر ملکی امداد اور قرضوں کی مد میں ایک خطیر رقم خرچ کی گئی مگر تدارک ہوتا نظر نہیں آتا۔ قومی، صوبائی اور ضلع کی سطح پر بھی قدرتی اور مصنوعی آفات سے نپٹنے کی منصوبہ بندی پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے مگر ان آفات سے نہ بچاؤ ممکن ہوسکا اور نہ ہی ان کی شدت میں کمی واقع ہوئی۔

شاید ہمارے مزاج میں نہیں کہ ہم پائیدار اور دیرپا مستقبل کی منصوبہ کریں اور اگر بحالت مجبوری کر بھی لیں تو قدرتی آفات اور دیگر ایسے خدشات یا اندیشوں کو مدنظر رکھیں جن سے جانی اور مالی نقصان کا احتمال ہو۔ سرکاری تنصیبات اور انفراسٹرکچر تعمیر کرتے ہوئے قدرتی آفات خاص طور پر زلزلہ اور سیلاب جیسے معمول کے خطرات سے بھی تحفظ کا خیال نہیں رکھا جاتا جو اس بات کی غمازی ہے کہ سرکاری سطح پر اب تک سنجیدگی کا فقدان ہے۔

پاکستان میں 2005ء کے زلزلے سے ہونے والے نقصانات سے دنیا نے بہت سیکھا۔ عالمی اداروں نے ایسے آفات سے نپٹنے کے لئے اپنی حکمت عملی بنالی۔ اس زلزلے سے ہونے والی تباہی کے بعد بحالی کے کام میں دنیا بھر سے پیشہ ور افراد اور رضا کاروں نے حصہ لیا جن سے پاکستان کے لوگوں خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی سیکھنے کا موقع ملا جو اب دنیا بھر میں عالمی اداروں کے ساتھ وابستہ نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے ہمارے ریاستی اور حکومتی اداروں نے بھی سیکھ لیا ہے کہ تباہی سے فائدہ کیسے اٹھایا جاسکتا ہے۔

یوں لگتا ہے اس بار مون سون کے بادلوں نے بلوچستان کا راستہ دیکھ لیا ہے جہاں پہلے اس موسم میں بارش نہیں ہوا کرتی تھی یا کم ہوتی رہی ہے۔ موسمیاتی تبدلی کے ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقتوں میں موسمی تغیرات کے واقعات میں شدت کے ساتھ رخ کی تبدیلی بھی ہوگی۔ کہتے ہیں وہ علاقے جہاں پہلے بارشیں نہیں ہوتی تھیں اب زیادہ ہو سکتی ہیں اور جہاں بارشیں زیادہ ہوتی تھیں وہاں کم ہوں گی۔ اگر بلوچستان جہاں موسم سرما میں بارشوں کی شدت ہوتی تھی جو اب مون سون میں بھی ہوئی ہے تو مون سون کی بارشوں والے علاقوں میں موسم سرما کی بارشوں میں شدت آ سکتی ہے۔ اگر ماہرین کی باتوں پر غور کیا جائے تو ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ اب موسمی تغیرات کے اثرات سے محفوظ علاقے کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس بدلتے ہوئے پیش منظر میں متعلقہ اداروں، ماہرین اور محققین کی بھر پور توجہ کی ضرورت ہے جو سرکاری اور غیر سرکاری سرپرستی اور حوصلہ افزائی کے بغیر ممکن نہیں۔

حالیہ بارشوں اور سیلاب سے جو زیادہ نقصان ہوا ہے اس کا تجزیہ کیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ سیلابی پانی کا رخ یا اس کے پہلے سے موجود راستے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسری بات جو عیاں ہوگی وہ ایسی جگہوں پر آباد کاری ہے جہاں پہلے انسانی آبادی نہیں ہوا کرتی تھی۔ انسانی آبادی میں جس تناسب سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسی شرح سے نئے وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں جس میں غیر محفوظ جگہوں پر آباد کاری بھی شامل ہے۔ جدید ٹیکنالوجی جیسے بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویل اور مشینری نے آباد کاری کو سہل کر دیا ہے مگر قدرتی آفات کی شدت کو کم کرنے میں کوئی مدد نہیں کی ہے۔ مثلاً ٹیوب ویل لگا کر لب دریا زمین کو آباد کیا گیا مگر دریا کے بہاؤ کی شدت اپنی جگہ موجود ہے جو تغیانی کی صورت میں تباہی کا باعث بنتی ہے۔

سیلاب کی تباہ کاری دیہی علاقوں میں زیادہ ہونے کے باوجود میڈیا کی توجہ نہیں رہتی۔ چونکہ بارشوں سے شہری علاقوں میں بھی معمولات زندگی متاثر ہوتے ہیں اس لئے ذرائع ابلاغ کی ساری توجہ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد تک محدود ہوجاتی ہے۔ بارش کے بارے میں پیشگی خبردار کرنے کا نظام {ارلی وارننگ سسٹم} بھی صرف شہروں تک محدود ہے کہ کس شہر میں کس وقت کتنی بارش ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ کسی دور دراز علاقے کا سڑک یا پلوں کی تباہی کی وجہ سے رابطہ منقطع ہونے کی خبر آتی ہے۔ موسم اور خاص طور پر بارش کے بارے میں پیشگی معلومات اس جدید دور میں کوئی بڑی بات نہیں مگر اس کے لئے درکار صلاحیت اور استعداد کار ہمارے متعلقہ اداروں میں موجود نہیں جس کی وجہ سے پیشگی حفاظتی تدابیر اور تدارک کے بغیر جانی اور مالی نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔

سیلاب سے سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لئے اس سال اب تک بلوچستان کی حکومت نے وفاق سے جتنے فنڈ مانگے ہیں وہ گزشتہ سال اس صوبے میں ترقی پر خرچ کی گئی رقم سے کہیں زیادہ ہیں۔ سیلاب سے ایک سال کے دوران جتنا انفراسٹرکچر یا بنیادی ڈھانچہ مثلاً پل، سڑکیں اور عمارتیں وغیرہ بنتی ہیں اس سے زیادہ سالانہ بارشوں میں بہہ جائیں تو یہ ترقی معکوس ہے۔ بارش سے ہونے والی تباہی صرف چند گھنٹوں میں ایک بڑی آبادی کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیتی ہے جس کا اثر متاثرہ خاندانوں کے علاوہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار پر بھی پڑتا ہے۔ ایسی آفات سے بجلی، سڑکوں، پلوں، فراہمی آب، سکول اور صحت کے بنیادی مراکز کے متاثر ہونے سے پہلے سے بنیادی سہولیات محروم آبادی اور زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ قدرتی آفات ہماری زندگیوں کو متاثر کرتے رہیں گے۔ ان آفات کو سنجیدگی سے لینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ان کی شدت میں آئندہ برسوں میں بھی کمی واقع ہونے کے امکانات محض خوش فہمی ہو سکتی ہے۔ قدرتی آفات کے تدارک کے لئے دو قسم کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ ایسے آفات وقوع پذیر ہی نہ ہوں مگر ایسا ناممکن ہوتا ہے۔ دوسری حکمت عملی یہ کہ ان آفات کا مقابلہ کیا جائے جس کے لئے لوگوں کو تیار کیا جاتا ہے۔ چونکہ ہم نے ان آفات کے ساتھ ہی رہنا ہے اس لئے ایک دیرپا حکمت عملی کے تحت ہر سطح پر قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کو قومی نصب العین بنانا ہو گا۔

صرف وسائل مہیا کرنے سے بات نہیں بنے جب تک ہر سطح پر پیش بندی، منصوبہ سازی اور عمل درآمد کرنے کے لئے درکار صلاحیت موجود نہ ہو۔ سرکاری اداروں میں استعداد کار اور صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو مستقبل کی منصوبہ مندی میں قدرتی آفات سے ممکنہ بچاؤ کی تدابیر اختیار کر سکیں۔ سرکاری اور نجی عمارتوں کو محفوظ بنانے کے لئے ایسی جگہوں کا انتخاب کیا جائے جہاں قدرتی آفات سے نقصان کا خدشہ نہ ہو۔ منصوبہ بندی اور تعمیر کے دوران ہی سڑکوں اور پلوں کو ممکنہ سیلاب سے محفوظ بنانے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کیے جائیں۔ ذاتی مکانات بھی محفوظ جگہوں پر بنائے جائیں جس کے لئے متعلقہ سرکاری اداروں سے پیشگی اجازت لینا لازمی ہو۔ عوام کی شمولیت کے بغیر قدرتی آفات سے نپٹنا صرف سرکاری اداروں کی بس کی بات نہیں اس لئے ہر سطح پر آگاہی اور رابطہ کاری بھی لازمی ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan