مدراس: ہندوستان کا معاشی مرکز


میں آپ کو یہ بتانا چاہوں گا مدراس شہر کب آباد ہوا اور کن لوگوں نے اسے آباد کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اس وقت یہ شہر کن باتوں کے لیے مشہور ہے اور بھارتی معاشی اور معاشرتی ترقی میں یہ کتنا اہم کردار ادا کر رہا ہے؟

ایک پرتگیزی سیاح، واسکوڈے گاما 1498 ء میں ہندوستان آیا۔ اس سے ہندوستان اور پرتگال کے درمیان ایک رابطہ قائم ہو گیا۔ ایم این پیرسن نے اپنی کتاب The Portuguese in India میں لکھا ہے کہ واسکوڈے گاما جس نے کئی سال قبل اپنے سفر کا آغاز کیا تھا نے 20 مئی 1498 ء کو کلکتہ میں اپنے سفر کیا اختتام کیا تھا۔ یہ کسی بھی یورپین کا ہندوستان کی زمین پر پہلا قدم تھا اور ہندوستان اور یورپ کے درمیان رابطہ کا یہ نقطہ آغاز ہے۔ ایم این پیرسن مزید لکھتے ہیں کہ 1522 ء میں پرتگیزی وہ پہلے یورپین ہیں جو تجارت کی غرض سے اس علاقے میں آئے اور 1608 ء میں ان کے بعد انگریزوں نے سورت کے مقام پر ہندوستان میں اپنا پہلا قدم رکھا۔

ان کے ساتھ ساتھ فرانسیسی اور ڈچ بھی ہندوستان آئے۔ یہ ایک بڑی دلچسپ تاریخ ہے کہ کس طرح اہل مغرب نے ہندوستان کی سر زمین پر قبضہ کیا اور یہاں کے لوگوں کو اپنا غلام بنایا۔ اس تاریخ کو پڑھ کر اس کا موازنہ موجودہ حالات سے کرنا چاہیے اس سے کئی باتوں کو سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ چنائی، تامل ناڈو کا ایک اہم شہر ہے اور اپنی صدیوں پرانی تاریخ رکھتا ہے لیکن اس وقت میں آپ کے سامنے اس کی پچھلی چار صدیوں کی تاریخ بیان کرنا چاہتا ہوں۔

ایک وقت آیا کہ ہالینڈ سے آئے ہوئے لوگوں نے ہندوستان میں اپنا قدم رکھا اور اپنی تجارتی کوٹھیاں بنائیں۔ انھی دنوں انگریز بھی اس علاقے میں آنا شروع ہو گئے۔ اس وقت اس علاقے میں بہت اعلٰی طریقے سے کپڑے پر پرنٹنگ کا کام کیا جاتا تھا اور ایسے کپڑے کی یورپ میں بہت مانگ تھی۔

ڈیوڈ گللیمور نے اپنی کتاب The British in India: Three Centuries of Ambition and Experience
میں لکھا ہے کہ انگریزوں اور باقی یورپین لوگوں کی سب سے زیادہ دلچسپی اسی کپڑے میں تھی۔ مقامی لوگوں کی مہارت میں کمی اور محدود پیداواری صلاحیت کی وجہ سے انھیں اپنی ضرورت کے مطابق کپڑا دستیاب نہ تھا۔ جس کی وجہ سے انگریزوں نے اس علاقے میں اس کام کے لیے ایک فیکٹری لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت تک وہ سورت میں اپنی فیکٹری لگا چکے تھے۔ ڈیوڈ گللیمور نے اپنی ایک کتاب میں The British in India: A Social History of the Raj اس بات کا ذکر کیا ہے کہ 1615 ء وہ سال ہے جب انگریزوں نے ہندوستان میں اپنا پہلا تجارتی دفتر کھولا اور ہندوستان سے مصالحہ جات، پارچات لے جانا شروع کیا اور یورپ سے ہتھیار اور سونا چاندی لانا شروع کیا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس کام کے لیے انھوں نے 1639 ء میں مدراس کے ایک مقامی راجہ سے کچھ جگہ حاصل کر کے وہاں اپنی فیکٹری لگائی اور ساتھ ہی رہائش کے لیے Fort St George کے نام سے ایک بستی بھی بسا لی۔

انگریز بڑی تعداد میں اس بستی میں آ کر رہنے لگے۔ اسی دوران انگریزوں نے اپنی فوجی طاقت میں بھی اضافہ کرنا شروع کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ تجارتی مفادات کے تحفظ کے لیے فوجی طاقت کا ہونا ضروری ہے۔ یہ انگریزوں کے پہلے فوجی تھے جنھوں نے ہندوستان کی دھرتی پر تجارت کے ساتھ ساتھ زبردستی قبضے کا آغاز کیا۔ اس کے بعد حالت یہ تھی کہ تجارتی مہارت ہو یا جنگی حکمت عملی، دونوں میں یہ لوگ مقامی آبادی سے کہیں آگے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ ڈچ، فرانسیسی اور پرتگیزی بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ ابھی ان کے درمیان لڑائیاں شروع نہیں ہوئی تھیں۔

مدراس میں واقع فورٹ کو وائٹ ٹاؤن اور باقی لوگوں کی بستیوں کو بلیک ٹاؤن کہا جاتا تھا۔ انگریزوں کی آمد سے مقامی لوگوں میں ایک عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونا ایک فطری بات تھا۔ مقامی لوگوں نے کئی مرتبہ انگریزوں کے خلاف چھوٹے پیمانے پر لڑائیاں بھی کی لیکن اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اکثر ناکام رہے۔ انگریزوں کا بنایا ہوا قلعہ ابھی بھی موجود ہے۔ میری بڑی خواہش تھی کہ میں وہ قلعہ دیکھ سکوں لیکن دور ہونے کی وجہ سے ہم اسے نہ دیکھ سکے۔

قلعے کے ارد گرد شہر آباد ہونا شروع ہو گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ اس شہر کی آبادی چالیس ہزار ہو گئی جن میں اکثریت انگریزوں کی تھی۔ انگریزوں کو مراعات حاصل کرنے کے لیے مغل حکمرانوں کے سامنے پیش ہونا پڑتا تھا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مغل فوجوں نے انگریزوں اور دیگر یورپیئنز کو بڑی تعداد میں قتل کیا۔ میرے لیے اس بات کا یقین کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ بات کئی لوگوں نے لکھی ہے لیکن کوئی مصدقہ حوالہ نہیں ملا۔ یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جب دلی میں اکبر اور جہانگیر یکے بعد دیگرے بادشاہ تھے۔ مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد ان علاقوں میں انگریزوں اور دیگر یورپیئنز کے سامنے کوئی بڑی رکاوٹ نہ رہی۔ اب دو قابض گروہوں کے درمیان مقابلہ تھا۔ تاریخ میں اس کشمکش کو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی جنگوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ایک وقت آیا کہ فرانسیسیوں نے انگریزوں کو شکست دی اور انھیں اس علاقے سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن جلد ہی انگریز دوبارہ قابض ہو گئے۔ اس دور میں انگریزوں اور حیدر علی، بعد میں ٹیپو سلطان کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں۔ ان جنگوں میں فرانسیسیوں نے ریاست میسور کا ساتھ دیا۔ ریاست میسور کے خاتمے کے بعد علاقے پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہو گیا۔

مدراس کی بندرگاہ تجارت کے لیے بے حد اہم تھی۔ اسی دور میں صرف دو سال کے اندر قحط کی وجہ سے چالیس لاکھ لوگ بھوک سے مرے۔ یاد رہے اس وقت یہاں کی تمام تر تجارت پر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ بعد ازاں انگریزوں نے اس علاقے میں مدراس پریذیڈنسی کے نام سے اپنی حکومت شروع کی اور اس شہر میں ریلوے لائن کا انتظام کیا، سٹاک ایکسچینج بنائی، بے شمار تعلیمی ادارے بنائے، معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے کئی دوررس اقدامات کیے جن سے عام لوگ اب تک مستفید ہو رہے ہیں۔ انگریزوں کے ان کاموں سے انکار ممکن نہیں۔ جنگ عظیم اول میں جرمنز نے مدراس کی بندر گاہ پر حملہ کیا اور تیل کے بہت سارے گودام تباہ کر دیے۔ جس میں پانچ مقامی افراد کی موت واقع ہوئی اور ایک تجارتی جہاز بھی تباہ ہوا۔ ڈیوڈ گللیمور نے ان تمام باتوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

چند سال قبل مدراس کا نام بدل کر چنائی رکھا گیا۔

چنائی یعنی سابقہ مدراس خلیج بنگال کی ایک ساحلی پٹی پر واقع ہے۔ اس وقت یہ جنوبی ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور ہندوستان کے گنجان آبادی والے شہروں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ بھارت میں آنے والے سیاحوں کی اکثریت اسی شہر میں آتی ہے۔ چند سال قبل بھارت نے میڈیکل ٹورازم کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت یورپ اور امریکہ میں کام کرنے والے بھارتی ڈاکٹرز نے بھارت میں ہسپتال بنائے اور ان کا معیار وہی رکھا جو مغرب میں تھا۔

یہاں پر کئی چیزوں کے سستا ہونے کی وجہ سے انھوں نے مغربی ممالک کے لوگوں کو پیشکش کی کہ وہ علاج کے لیے بھارت آئیں۔ اس کے بعد پوری دنیا سے لوگ بھارت میں علاج کروانے کے لیے آنے لگے۔ اس کام میں چنائی سب سے آگے ہے۔ چنائی کو بھارت کا انڈرائٹ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ بھارت میں بننے والی ہر تیسری گاڑی چنائی میں تیار ہوتی ہے۔

چنائی، دہلی سے 2200، ممبئی سے 1350 اور بنگلور سے 350 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ چنائی کو یہ بھی اعزاز حاصل کہ 1884 ء میں یہاں ایک میٹنگ ہوئی جس میں سترہ لوگ شریک تھے اس میٹنگ میں سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک سیاسی جماعت بنانے کا نظریہ پیش کیا گیا اور پھر اسی نظریہ کو آگے بڑھا کر کانگریس کی بنیاد رکھی گئی۔ انگریزوں کے دور میں بنائی جانے والی عمارتیں یورپی طرز کی ہیں۔ البتہ کہیں کہیں ہندو اور اسلامی طرز تعمیر بھی نظر آتا ہے لیکن وہ بہت کم ہے۔

ہندی کو سرکاری زبان بنانے کی کوشش کے خلاف مقامی لوگوں نے ایک تحریک چلائی جو کامیاب ہوئی اور اب تامل، تامل ناڈو کی سرکاری زبان ہے۔ انگریزی زبان کا چلن بھی عام ہے۔ شہر کی خوبصورت عمارتوں میں مدارس ہائی کورٹ کی بلڈنگ جو 1892 ء میں بنائی گئی تھی اپنی ایک الگ ہی شان رکھتی ہے۔ چنائی کا جی ڈی پی 90 بلین ڈالر ہے یعنی پاکستان کے جی ڈی پی کا تقریباً تیسرا حصہ۔ آئی ٹی کی برآمدات میں یہ شہر بھارتی شہروں میں دوسرے نمبر پر ہے۔ سترہویں صدی میں برطانیہ کو ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ اسی شہر سے شروع ہوئی۔ اس وجہ سے تین سو سال تک یہ شہر ٹیکسٹائل کی صنعت کا مرکز رہا ہے۔ اب ٹیکسٹائل کا تو اتنا بڑا حصہ نہیں ہے۔ اس وقت یہ شہر آئی ٹی اور آٹو موبائل کے لیے بہت مشہور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments