جشن آزادی منانے والے اقلیتوں کو آزادی کیوں نہیں دیتے؟


مذہب اسلام جس کے نام میں ہی سلامتی ہے امن ہے وہ مذہب جو اس محاورے ”پیار اور جنگ میں سب جائز ہے“ کے بر عکس جنگوں کے بھی اصول و قواعد وضع کرتا ہے۔ جو بے گناہ کو سزا دینے کا قائل نہیں اور نہ ہی کسی کے گناہ کی سزا اس کے کسی عزیز کو دینے پر یقین رکھتا ہے۔ بلکہ ”جس نے جو کمایا اس کے لیے وہی ہے“ القرآن

یعنی ہر انسان اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ وہ مذہب جس میں مخالفین اور معاندین کے لیے بھی درگزر اور عفو کے قوانین ہیں۔ وہ نبی جو رحمتہ العالمین ہے سلامتی کا پیغام لے کر آیا۔ جس کی شریعت نے دشمنوں سے بھی حسن سلوک فرمایا جو صرف پیار ہی پیار تھا۔ دنیا کا ہر مذہب بنی نوع انسان سے پیار سکھاتا ہے۔ انبیاء یا پیامبر دراصل خدا رحمان و رحیم کی اپنے خالق سے محبت کے نتیجے میں ہی تو مبعوث ہوا کرتے ہیں جو وہ اس لیے بھیجتا ہے تا اس کی مخلوق گناہ و گمراہی کی جس دلدل میں دھنسی ہوئے ہے اس کے فرستادہ اسے اس دلدل سے نکال کر باہر صراط مستقیم کی راہ پر لے آئیں تاکہ ان کی دنیا و آخرت بہتر بن سکے۔

لیکن جبر کی تعلیم خدا تعالیٰ نے ہر گز نہیں دی۔ اس واحدہ لاشریک نے شرک کو گناہ عظیم تو قرار دیا لیکن یہ ہر گز نہیں کہا کہ مشرک کو قتل کر دو بلکہ اپنی رحمت کے دائرے کو اس کی توبہ تک وسیع کیا۔ پیغام حق پہنچانے کا حکم دیا لیکن اگر کسی تک وہ پیغام نہ پہنچ سکا تو اسے معصوم قرار دیتے ہوئے اس سے درگزر کیا۔ وہ مہربانوں سے بھی مہربان خدا تو انسان کو معاف کرنے اس کی بخشش کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ تو پھر جو اس کے ماننے والے ہیں اس سے محبت رکھتے ہیں اور اپنے پیغمبر ﷺ سے عشق کرنے کا دعوی کرتے ہیں آخر ہمارے اندر ایسا کون سا شیطان وارد ہو جاتا ہے جو اس محبت و عشق کے ہونے کے باوجود ہمیں خطوت الشیطان پر چلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ہمارے قول و فعل میں اتنا تضاد آخر کیسے پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم حسین کے ماننے والے یزیدیت کے نقش قدم پر چل پڑتے ہیں۔

ایک احمدی شخص کو اس کے ہی آبائی شہر میں بھرے بازار میں دن کے وقت ایک شخص اپنے فرقے کا نعرہ نہ لگانے پر جان سے مار دیتا ہے اور کوئی بھی اسے نہیں روکتا کوئی اسے یہ نہیں بتاتا کہ تم نہ خدا ہو نہ رسول تم کسی کی جان لینے والے کون ہوتے ہو۔ اس رحمان و رحیم ذات نے تو اپنی پاک کتاب میں نبی آخر الزماں کو بھی کہا کہ ہم نے تمہیں دروغہ بنا کر نہیں بھیجا ہے۔ تو ایک عام علم و فہم رکھنے والے انسان کو دین کا ٹھیکے دار کس نے بنایا؟ ہمارے ملک کے قانون نے جی ہاں ہمارے ملک کے سو کالڈ اسلامی قانون نے وہ اسلامی ملک جہاں اسلامی تعلیمات پر عمل صرف اقلیتوں کے خلاف ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ایک اسلامی کام بتلائیے جو ہمارے ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کے نام پر بنے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو رہا ہے۔

ایک 13 سالہ مسیحی بچی کو جبراً مسلمان بنا کر 35 سالہ مرد سے اس کی زبردستی شادی کروائی جا رہی ہے۔

جبکہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے تو عورت کی مرضی کو اہمیت دی ہے اور یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر کسی عورت کے والدین زبردستی اس کی شادی کروا دیں اور بعد میں اسے اپنے شوہر کی شکل پسند نہ ہو تو وہ صرف اس وجہ سے بھی خلع لے سکتی ہے۔ تو یہ کون سے اسلام کے ٹھیکے دار ہیں جو کسی معصوم بچی کا پہلے زبردستی مذہب تبدیل کروا رہے ہیں پھر اس کی جبراً شادی بھی۔ احمدیوں کا پاکستان میں جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ان کو ان کے گھروں میں آزادی سے رہنے تک کا حق چھین لیا گیا ہے۔

دکانوں پر ان کے خلاف نفرت انگیز جملے لکھے جاتے ہیں۔ ان کو کام کی جگہوں پر پریشان کیا جاتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ گورنمنٹ خاموش تماشائی ہے۔ ہر شخص قانون ہاتھ میں لیے بیٹھا ہے۔ ان کو پتا ہے کہ کوئی حکومتی ادارہ ان کو کچھ نہیں کہے گا بلکہ الٹا ان کے کندھے ہی تھپتھپائے گا۔ میں دس سال سے کینیڈا میں مقیم ہوں۔ میری بیٹیاں اسکول اسکارف پہن کر جاتی ہیں اگر کوئی چھوٹا بچہ بھی ان کے اسکارف کا مذاق اڑائے تو اسکول انتظامیہ اس کے خلاف ایکشن لیتی ہے۔

میں خود باقاعدہ حجاب لیتی ہوں اپنا روایتی برقع پہنتی ہوں۔ ہزار میں سے کوئی ایک اگر کبھی حقارت سے دیکھے یا کوئی جملہ کہہ دے تو اسی وقت اگر اسے یہ کہہ دیا جائے کہ پولیس کو تمہاری شکایت لگا دیں گے یا صرف یہ ہے، کہ ہم بھی کینیڈین شہری ہیں اور ہمیں ہمارے حقوق پتا ہیں تو وہ دم دبا کر بھاگتے ہیں کہ کہیں واقعتاً ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو جائے۔ ان ملکوں میں بھی سب فرشتے نہیں بستے۔ تنگ ذہنیت یا دوسرے مذاہب سے نفرت کرنے والے تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔

لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور وہ بھی کھلم کھلا کچھ نہیں کرتے چھپ چھپا کر ہی وار کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کو علم ہوتا ہے کہ سامنے آنے پر یا شناخت ہو جانے پر ان کو ان کے اپنے ہی مذہب اور قومیت کے لوگ نفرت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان کا یہاں رہنا دوبھر ہو جائے گا کوئی باعزت ملازمت ان کو نہیں ملے گی۔ دوسرا قانون بھی سخت سے سخت ایکشن لے گا۔ کیا ان کافروں کے ملکوں میں کوئی اپنی دکان پر یہ جملہ لکھ سکتا ہے کہ: ”مسلمان پہلے عیسائیت میں داخل ہوں پھر دکان میں“

سوچیے اگر ایسا ہو گیا تو کیا ہو گا۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا کیونکہ یہاں افراد کو قانون کا احترام سکھایا جاتا ہے۔ ان کو اوائل عمر سے ہی دوسرے شہریوں کے حقوق کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ کہ اگر کسی کا نظریہ حیات چاہے وہ کسی بھی معاملے میں ہو اسے قبول کرو۔ اور قانون کو کبھی بھی اپنے ہاتھ میں نہ لو۔ کینیڈا میں جب ایک مسلمان پاکستانی خاندان کو ایک ایسے ہی مذہبی یا قومی تعصب رکھنے والے انسان نے ٹرک سے ٹکر مار کر ہلاک کیا تو وزیر اعظم تک نے اس ایک بچ جانے والے بچے اور دیگر لواحقین سے اظہار ہمدردی کیا۔ اور تقریباً ہر بڑے شہر میں اس واقعہ کے خلاف مقامی افراد نے پر امن احتجاج کیا اور پر زور مزاحمت کی۔ اس سے اس خاندان کے افراد تو واپس نہیں آ سکتے لیکن شیطانی ذہنیت رکھنے والے دوسروں افراد کو کم ازکم اس بات کا احساس ہو گا کہ اس طرح کا کام نہیں کرنا چاہیے اور کس طرح لوگوں نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ اب ہمارا قانون اگر خود لوگوں کو یہ حق دے رہا ہے کہ ہمارے پاس آنے کی قطعاً ضرورت نہیں بلکہ خود ہی ملزم کو مجرم قرار دو خود ہی منصف بنو اور موقع پر ہی فیصلہ سناؤ اور قصہ ختم کرو۔

کسی بھی شخص سے ذاتی عناد ہو، جائیداد کا معاملہ ہو کچھ بھی ہو بس اس پر توہین مذہب کا فتوی لگاؤ اور جان تک لے لو۔ مذہبی بھیڑیے تمہارا ساتھ دینے کو آگے آئیں گے اور تمہیں ہیرو بنا دیں گے۔ نہ قانون میں اتنی ہمت ہے کہ تمہیں سزا دے سکے اور نہ صاحب اختیار میں اتنی جرات کہ تمہارے خلاف کوئی کارروائی کر سکے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری ہو گا۔ اسی طرح اقلیتیں پستی رہے گی۔ اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہے گی اور جہاں جس کو موقعہ ملے گا انہیں گستاخ کہہ کر مار دے گا اور نام نہاد عاشقان رسول کا ہیرو بنتا رہے گا۔

کاش کہ ہم بطور عاشق رسول ﷺ اس ناموس کی خود بھی حفاظت کرنے والے ہوں جس کے نعرے ہم اقلیتوں کے منہ سے کہلوانا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سب سے بہتر تبلیغ وہ ہوتی ہے جس میں انسان کو زبان سے بولنا نہ پڑے بلکہ اس کا عمل، اس کا کردار، اس کا رویہ دوسرے انسانوں کو بتلا رہا ہو کہ وہ کس اعلی مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ ابھی ایک اور وڈیو بھی نظر سے گزری جس میں ایک جرمنی سے واپس آئے شخص کو اس کے بھائی یا والد کی فوجی خدمات پر فوج کی طرف سے ایک تختی ملی جس پر شہید کے الفاظ تحریر تھے اس کو بھی ایک پورے ہجوم نے گھیرے میں لے لیا اور اس قدر مار پیٹ کی اور میں حیران ہوں کہ اتنے جم غفیر میں کوئی ایک بھی مسلمان نہ تھا وہ سب تو کسی تشدد پرست فرقے کے ماننے والے تھے ان میں سے تو کوئی سلامتی دینے والا نہ تھا وہ تو مار پیٹ گالی گلوچ کرنے والے ابوجہل کی نسل تھے۔

جن کو اگر موقع ملتا تو وہ ان نہتے بہن بھائی کی جان لینے سے بھی گریز نہ کرتے۔ وہی چند ماہ قبل سیالکوٹ کا واقعہ یاد آ گیا جس میں سری لنکن مینیجر کو زندہ جلایا گیا تھا۔ کیا ہوا اس ہجوم کا کتنوں کو سزائے موت ہوئی؟ ایسے درندوں کے ہجوم سے بچنا ہے تو ایک ایک شخص جو ان میں شامل ہوتا ہے اسے قرار واقعی سزا دیں اور بار بار ایسے واقعات کے خلاف پر امن احتجاج کریں۔ کاش کہ ارباب اختیار بھی خواب غفلت سے جاگیں اور ان واقعات کا سدباب کریں۔

پاکستان ہر پاکستانی کا ہے۔ چاہے وہ کسی بھی مذیب کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔ 75 سال گزرنے کے بعد بھی پاکستانی اس حقیقت کو قبول نہ کر سکے۔ اگر عوام اس بات کو نہیں سمجھ سکتی تو قانون حرکت میں آئے اور ہر قصور وار کو قانون کے مطابق سزا سنائے۔ تب ہی پاکستان میں ہر انسان سکون سے رہ سکتا ہے ورنہ وہی بات کہ چند دن خبروں میں رہے اور پھر بس سب ختم۔ یہ نہ پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری ہو گا۔ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے بلکہ اور بڑھتا جائے گا۔

بقول راحت اندوری صاحب
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments