سندرتا کی ملکہ نیرہ نور


اکہتر برس کی نیرہ نور اچانک چلی گئیں۔

ہم نے نیرہ کی گائیکی کے سنگ جینا سیکھا ہے۔ نیرہ کے سر سنگیت نے ہمیشہ ہم جیسوں کا ساتھ دیا ہے۔ اس کی صاف و شفاف آواز جذبوں کے درمیان حائل نہیں ہوتی اسے تیکھا کر کے اور سانولا کر کے ہمارے گوش گزار کر دیتی ہے۔ وہ احساسات کی ملکہ ہے۔ جذبے اس کے در پہ اپنے معنی کی تلاش میں آتے ہیں۔ وہ انھیں خالی واپس نہیں جانے دیتی۔ سامع کے مقابل لا کھڑا کر دیتی ہے۔ وہ آواز کی آنکھ میں آنکھ ڈال کے سننے کا گر سکھاتی ہے۔ نیرہ کے سامنے ہر چیز مہک جاتی ہے۔ چاہے وہ جذبہ ہو دل ہو یاں روح

اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
کس نے نہیں سنا اور اس پہ ایمان نہیں لایا؟
نوے کی دہائی تک کس کالج کی لمبی سڑک نے اس گیت کو ہم جیسوں کے ساتھ مل کر نہیں گایا؟
”ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے جگنووں کے دیس جانا ہے ”
کبھی جو بارش ہوئی تو
”برکھا برسے چھت پر، میں تیرے سپنے دیکھوں“
نے کس کی بارش میں رنگ نہیں بھرے؟

نیرہ کی آواز اداس تو کر سکتی ہے مایوس نہیں۔ اس کی گائیکی آس ہے۔ نیرہ انہونی کے ساتھ جینا سکھاتی ہیں۔ اس کی گائیکی شام ہے۔ یاد ہے۔ پنگھٹ پہ بجھتی پیاس ہے۔

”اے عشق ہمیں برباد نہ کر“
”ہر چند سہارا ہے ترے پیار کا دل کو“
”آج بازار میں پا بجولاں چلو“
”کہوں کس سے قصہ درد و غم کوئی ہم نشیں ہے نہ یار ہے“
”رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی“
”جلے تو جلاؤ گوری پیت کا الاؤ گوری“
”وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا“
”کہاں ہو تم چلے آؤ“
”چلو پھر سے مسکرائیں۔“
نیرہ نے ہمیں مسکراتے ہوئے گیت سننا اور روتے ہوئے جلنا بجھنا سکھایا ہے۔
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سر بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک پڑی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا

سنیں تو سننے والے کو ضبط عشق کے معنی سمجھ آ جاتے ہیں۔ غزل ہو یاں گیت و نظم سب ہی اس نے عمدہ گائیں مگر میں دعوی سے کہتی ہوں کہ نیرہ سے اچھی نظم کسی نے نہیں گائی۔

”دوستی کا اک سمندر
ان گنت ساحل وفا کے
اپنے سینے میں چھپائے
جانے کب سے بہہ رہا تھا ”
جب تک نیرہ سے نہ سنیں نظم سمجھ میں نہیں آتی۔
”چلو اس کوہ پر اب ہم بھی چڑھ جائیں
جہاں پر جا کے پھر
کوئی کبھی واپس نہیں آتا ”
صرف نیرہ کی آواز یہ منظر بناتی ہے۔ نیرہ کی آواز دھڑکن بن کے دل میں اترتی ہے۔
”خواب مرتے نہیں
، خواب مرتے نہیں
خواب مرتے نہیں ”

جس نے تین بار نیرہ سے سنا ہے وہی اس کی حقیقت جان سکتا ہے۔ نیرہ لفظوں کے حسن کو دوبالا کر کے گاتی ہیں۔ انھیں جادو کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔

کاسنی رنگ کیا ہے؟ بہت سوں کو نیرہ نے سمجھایا۔ جب نیرہ کہتی ہے
”۔ درد کے کاسنی پازیب بجاتی نکلے“
تو رنگ کھل کے حس بن جاتا ہے۔ نیرہ کا کردار اس کی گائیکی میں چھلکتا ہے۔
سچ، معصومیت، اخلاص، عاجزی، انکساری، استقامت، یقیں
، ٹھہراؤ، قبولیت اس کی شخصیت کے ساتھ اس کے فن کا بھی خاصا بن گئی ہیں۔
”میرا درد نغمہ بے صدا
میری ذات زرہ بے نشاں ”

فیض کی یہ نظم عورت کے درد کی آواز ہے۔ نیرہ نے اس درد کو مجسم کر دیا ہے۔ کبھی کبھار گلوکار شاعر سے اس کا کلام چھین لیتا ہے۔ اس نظم کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا ہے۔

”وطن کی مٹی گواہ رہنا“

کہ نیرہ تیرا حصہ رہی ہے۔ یہ ملی نغمہ مشکل ہے مگر نیرہ نے فن گلوکاری میں اسے سہل ممتنع کی عمدہ مثال بنا دیا ہے۔

”جب تیری سمندر آنکھوں میں
اس شام کا سورج ڈوبے گا
سکھ سوئیں گے گھر در والے
اور راہی اپنی راہ لے گا ”

نیرہ نے اپنی راہ لے لی ہے اپنے ماتھے پہ مداحوں کا بوسہ لے کر۔ مگر ہم ہمیشہ اس کے سر سے جڑیں رہیں گے۔ ہمیشہ سنتے رہیں گے۔

”تم میرے پاس رہو“
الوداع بلبل پاکستان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).