حاجی بہادر خان غرشین: ایک ہمہ جہت شخصیت


دیدہ ور، غریب نواز، استاذ الاساتذہ، فرض شناس، علم دوست، سماجی مصلح، جذبہ حب الوطنی سے سرشار اور قبائلی شخصیت، حاجی بہادر خان غرشین 1 جولائی 1955 کو ضلع پشین کے ایک دور افتادہ گاؤں رود ملازئی کلی نیو آباد غرشینان میں سید صالح محمد کے ہاں ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک نابغہ روزگار ہستی اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی علم پروری اور ہمہ گیریت کا چند سطور میں احاطہ کرنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ اور یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں تین سال تک گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول غرشینان میں آپ مرحوم کا شاگرد رہ چکا ہوں۔

حاجی بہادر خان غرشین نے اسلامی عقائد اور پشتون روایات کے مطابق بنیادی دینی علوم اپنے بڑے بھائی محمد ابراہیم مرحوم کی سرپرستی میں اپنے گھر پر حاصل کیے اور عصری علوم کی تحصیل کے لیے آبائی گاؤں چھوڑ کر ضلع قلعہ سیف اللہ کے ایک چھوٹے قصبے مسلم باغ کے گورنمنٹ پرائمری سکول میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول پشین سے میٹرک کا امتحان ممتاز نمبروں سے پاس کیا۔ انٹر میڈیٹ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد 1976 میں محکمہ تعلیم میں بطور معلم تعینات ہوئے۔

وہ شاہانہ پروٹوکول اور زر پرستی کو خاطر میں نہ لاتے تھے اور ذاتی علم دوستی کی بنا پر دیگر انتظامی عہدوں سے صرف نظر کر کے پیشہ پیغمبری کو نہ صرف فوقیت دی بلکہ تادم مرگ اس معزز پیشے کی خون جگر سے آبیاری بھی کی۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آج صوبہ بھر کے مختلف محکموں میں آپ کے سیکڑوں شاگرد مختلف اعلی عہدوں پر فائز ہو کر ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ علاقے کی پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے مختلف چھوٹے دیہات میں کئی پرائمری اسکولوں کی تعمیر اور بحالی بھی آپ کی ذاتی کاوشوں کی رہین منت ہے۔

وقت کی پابندی کے علاوہ مرحوم اس قدر فرض شناس تھے کہ اپنے فرائض منصبی سے عہدہ براء ہونے کے بعد سکول واپسی پر بھی اپنے چھوٹے سے گھر پر نہ صرف مختلف بے سہارا بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے بلکہ دور دراز علاقوں کے کئی بچوں کو حصول تعلیم کے لیے گھر پر مناسب رہائش کے ساتھ ساتھ مالی معاونت بھی فراہم کرتے تھے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بھی آپ کی خدمات لائق تحسین ہیں۔ گورنمنٹ گرلز مڈل سکول غرشینان بھی آپ کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

علاوہ ازیں وہ ایک شفیق باپ کی مانند تمام طلبہ کے اخلاقیات، نصابی کارکردگی اور غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے اور کبھی کبھار نوجوانوں کی محفلوں پر غیر علانیہ چھاپے بھی مارتے تھے تاکہ علاقے کا نوجوان طبقہ غیر اخلاقی سرگرمیوں اور بالخصوص نشے کی لت میں مبتلا نہ ہو جائے۔ یہاں مرحوم کی اہلیہ کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا سراسر زیادتی ہو گی۔ وہ علم پروری اور سماجی سرگرمیوں میں بہادر خان غرشین کے ہم راہ شانہ بشانہ کھڑی تھی۔

حاجی بہادر خان مرحوم کا نشے کے خلاف اعلان جنگ ایک طویل داستان ہے۔ جب 1979 میں سوویت یونین (روس) نے افغانستان پر قبضہ جمانے کی غرض سے ہر سو قتل و غارت شروع کردی تو ردعمل میں لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان کے دیہی علاقوں کا رخ کیا۔ بدقسمتی سے افغان مہاجرین کی آمد سے یہاں کے پرامن نوجوان نسل میں بھی جرائم، نشہ اور کلاشنکوف کلچر پروان چڑھنے لگا۔ ان حالات میں بہادر خان مرحوم نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نوجوان نسل کو منشیات کی لعنت سے دور رکھنے کے لیے مختلف علاقائی اور قومی کھیلوں کا باقاعدہ انعقاد شروع کر دیا۔

ذاتی کوششوں سے بین الاضلاع والی بال، کرکٹ ٹورنامنٹ اور میلے منعقد کرنا شروع کیے اور ان ٹورنامنٹوں کے لیے نامور مہمانان گرامی سیاسی، سماجی اور قبائلی شخصیات کو مدعو کرتے اور کمال مہارت سے مہمانان گرامی کی توجہ علاقے کی تعلیمی پس ماندگی کی طرف مبذول کرا کر مسائل کا حل نکالنے میں ان کی اخلاقی اور معاشی مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔

حاجی بہادر خان مرحوم ایک متحرک اور ترقی پسند انسان تھے۔ سیاست میں بھی کافی حد تک سرگرم تھے۔ وہ کسی سیاسی جماعت کے مخصوص نظریے پر کاربند رہنے سے زیادہ شخصی تعلقات کو دوام دینے اور میل جول بڑھانے کو ترجیح دیتے تھے۔ مختلف سیاسی اور قبائلی شخصیات یعنی مرحوم عثمان خان کاکڑ، سردار آصف خان سرگڑھ، آمان اللہ ناصر ( فن کار) ، ٹھیکیدار عظیم خان پانیزئی، سابق ایم این اے مرحوم سرور خان کاکڑ، سابق سٹی ناظم کوئٹہ محمد رحیم کاکڑ و دیگر سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔

ان کا دل جذبہ حب الوطنی سے ہر وقت سرشار رہتا تھا۔ علاقے میں انتہائی تسلسل سے جشن آزادی کی تقریبات اور اسکولوں کے مابین تقریری مقابلے منعقد کراتے اور کئی پروگراموں میں بطور مہمان خصوصی بھی حصہ لیا کرتے تھے۔ اہل علاقہ کو تحریک پاکستان کے نمایاں کرداروں، خواتین رہنما کے کارناموں اور اکابرین کی حصول پاکستان کے لیے بے لوث قربانیوں سے وقتاً فوقتاً آگاہ کرتے تھے تاکہ نوجوان نسل کے دلوں میں وطن مخالف جذبات پنپ نہ سکے۔

محکمہ تعلیم بلوچستان کے اساتذہ تنظیم میں وہ خاصا متحرک اور فعال کردار کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن پشین کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اساتذہ کے لیے ان کی خدمات قابل قدر ہیں، اسی لیے تعلیمی حلقے میں انھیں ہمیشہ نہایت قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

آپ پشتون روایات سے واقف اور مہمان نواز شخصیت تھے۔ مختلف ضروریات کے پیش نظر گاؤں آنے والے مسافروں کے لیے قیام و طعام کا بندوبست کرتے تھے۔ سخاوت اور غریب پروری میں وہ حاتم طائی کے جان نشین تھے۔ باوجود محدود آمدنی کے وہ سائل کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے۔ مختلف مذہبی تیوہاروں، عاشورہ، عید المیلاد النبی، عیدین وغیرہ کے مواقع پر صدقہ دیتے اور خیرات کرتے تھے۔ بالخصوص رمضان المبارک کے مہینے میں کئی غریب گھرانوں میں اپنی بساط کے مطابق راشن بھی تقسیم کرتے تھے۔

سماج میں سرایت کی جانے والی شادی بیاہ و دیگر علاقائی تقاریب سے متعلق لایعنی اور فرسودہ رواجوں کے خلاف وقتاً فوقتاً آواز بھی اٹھاتے تھے۔ جنگلات کی کٹائی پر نہایت رنجیدہ ہوتے تھے اور ٹمبر مافیا کے لیے بہادر خان مرحوم کسی درد سر سے کم نہ تھے۔ جانوروں سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ تنگ نظری کا ان کی شخصیت میں شائبہ تک نہیں تھی۔ پشتو کلاسیکی موسیقی انتہائی شوق سے سنتے تھے۔ زندہ دل انسان تھے۔ چرند پرند پالنے کے بہت شوقین تھے بلکہ بسا اوقات اپنی آستینوں کو چڑھا کر خود جانوروں کو چارہ کھلاتے تھے۔

یہ شفیق اور علم دوست استاد 5، اگست 2022 کو بروز جمعۃ المبارک کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں طویل علالت کے بعد سڑسٹھ سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ مرحوم نے سوگواران میں خاندان، حلقہ احباب سمیت ہزاروں شاگردوں کو افسردہ چھوڑ دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments