بھاری پتھر حکومت کو غیر معمولی نقصان پہنچا سکتا ہے


ضرورت سے زیادہ فلسفہ بھگارنا بنتی چیز بھی بگاڑ دیتا ہے۔ توقیر بھملہ نے عربی کی ایک حکایت ترجمہ کی ہے کہ کسی جگہ پر بادشاہ نے تین افراد کو سزائے موت کا حکم دیا بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں کو پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا۔ جہاں ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ تھا جس کے ساتھ پتھروں سے بنا ایک مینار اور مینار پر ایک بہت بڑا بھاری پتھر مضبوط رسی سے بندھا ہوا ایک چرخے پر جھول رہا تھا۔ رسی کو ایک طرف سے کھینچ کر جب چھوڑا جاتا تھا تو دوسری طرف بندھا ہوا پتھر زور سے نیچے گرتا اور نیچے آنے والی کسی بھی چیز کو کچل کر رکھ دیتا تھا چنانچہ ان تینوں کو اس موت کے تختے کے ساتھ کھڑا کیا گیا۔

ان میں سے ایک عالم دوسرا وکیل جبکہ تیسرا فلسفی تھا۔ عالم کو سزائے موت دینے والے مقام پر لایا گیا تو اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی عالم نے جواب دیا کہ زندگی موت خدا کے ہاتھ میں ہے وہی زندگی اور موت عطا کرتا ہے۔ عالم کا پختہ یقین دیکھ کر سب دم بخود ہو گئے پتھر کو کھولا گیا وہ پوری قوت سے نیچے کی طرف آیا مگر عالم کے سر کے پاس آ کر رک گیا سب حیران رہ گئے کہ عالم کے یقین نے اس کو بچا لیا عالم کو رہا کر دیا گیا۔

اس کے بعد سزائے موت دینے کی باری وکیل کی آئی اس کو سزائے موت والی جگہ پر لٹا کر اس کی آخری خواہش کو پوچھا گیا تو وہ کہنے لگا کہ وہ ہمیشہ حق اور سچ کا وکیل رہا ہے اور جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے اور یہاں پر بھی ہوگی۔ رسے کو دوبارہ کھولا گیا پتھر پوری رفتار سے وکیل کی جانب آیا مگر اس کے سر کے پاس بھی آ کر رک گیا۔ سب نے انگلیاں دانتوں میں داب لیں وکیل کو بھی رہا کر دیا گیا کہ یہ انصاف کے سبب سے بچ گیا۔

آخری سزائے موت کا منتظر قیدی فلسفی تھا وہ یہ سب بہت غور سے دیکھ رہا تھا جب اس کو لٹا کر اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے فلسفہ بگھارنا شروع کر دیا کہ نہ تو عالم کو خدا نے بچایا ہے اور نہ ہی وکیل کو اس کے انصاف پر پختہ یقین نے نہیں بلکہ رسے پر ایک جگہ گرہ ہے۔ جو رسہ گھومتے وقت چرخی پر رکاوٹ ڈال دیتی ہے جس سے پتھر رک جاتا ہے۔ سب نے رسی کو بغور دیکھنا شروع کیا تو ان کو بھی وہ گانٹھ نظر آ گئی گانٹھ کو کھول کر رسی کو درست کر دیا گیا اور فلسفی کی جانب پتھر لڑھکا دیا گیا ہے۔ پتھر پوری رفتار اور قوت سے فلسفی کی جانب آیا اور اس کے سر کو پاش پاش کر دیا۔

ضرورت سے زیادہ فلسفہ سنانا یا علم بگھارنا بسا اوقات غیر معمولی نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ مفتاح اسماعیل اپنی وزارت کے بعد ٹیلی ویژن پروگراموں میں آئے اور اپنی معاشی پالیسیوں کے حق میں عوام کو سمجھانے کی بجائے فلسفہ پیش کرنا شروع کر دیا کہ میں بھی اکنامکس کو جانتا ہوں۔ ماضی کی حکومتوں کے وزرا بھی ڈگریاں رکھتے تھے مگر ناکام ہو گئے اس لئے صرف یہ کہنا کہ میں اکنامکس جانتا ہوں عوام کو اطمینان نہیں دلا سکتا وہ تو اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔

ابھی جب پٹرول کی قیمتوں کو دوبارہ سے بڑھایا گیا تو عوام ششدر رہ گئے کیونکہ اس سے قبل وہ روز دیکھ رہیں تھے کہ وہ ڈالر جو کم و بیش ڈھائی سو روپے کو چھو رہا تھا نیچے جانا شروع ہو گیا تھا جبکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کے گرنے کی خبریں بھی سماجی میڈیا کی بدولت سب کے سامنے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عوام قوانین کے گنجلکوں اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں میں نہیں الجھتے۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ جب ان دونوں کی قیمتیں نچلی سطح پر آ رہی ہے تو پیٹرول جو مہنگائی بڑھے یا گھٹے کا بنیادی سبب ہے کی قیمت بھی کم ہونی چاہیے۔

اور عوام کا یہ تاثر بہت مضبوط تھا کہ اس دفعہ قیمت مزید کم کر دی جائے گی۔ بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ پیٹرول کی قیمت بڑھانا ناگزیر تھا تو کم ازکم اس ناگزیر کو قیمتوں کو بڑھانے سے قبل وزارت اطلاعات اور حکومتی جماعت کا شعبہ اطلاعات و سماجی میڈیا عوام تک پہنچاتے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور جس سے عوامی امنگوں کو ٹھیس پہنچی۔

ویسے بھی مسلم لیگ نون جگہ جگہ تنظیم کی عدم موجودگی کے سبب سے مسائل کا شکار ہے پھر سدا بہار ایم این اے اور ایم پی اے کے تصور نے بھی مسلم لیگ نون میں اس بات کی امید کا فقدان پیدا کر دیا ہے کہ موجودہ اراکین پارلیمنٹ اور وزرا کے علاوہ کسی دوسرے کو پارلیمان میں نمائندگی کا موقع ملے گا اس لئے متحرک لوگ نواز شریف کی محبت میں ووٹ تو مسلم لیگ نون کے ہی نام کرتے ہیں مگر جلسوں، جلوسوں میں متحرک نہیں ہوتے اس لئے یہ بھی ایک غیر معمولی چیلنج مسلم لیگ نون کو درپیش ہیں۔

اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ مسلم لیگ نون کے ساتھ عوام نواز شریف سے غیر معمولی محبت رکھنے کی وجہ سے ہے۔ وہ کسی کی مخالفت میں نواز شریف کے گرد نہیں بلکہ نواز شریف کی شخصیت کی وجہ سے ان پر فدا ہے۔ پھر شہباز شریف کا ایک اعلی منتظم ہونا ایک سکہ بند حقیقت کے طور پر عوام کے دلوں میں راسخ ہے اور اس سب کا منطقی نتیجہ وہ معاشی معاملات میں بہتری سمجھتے ہیں جس کے عوام منتظر ہیں۔ میں مفتاح اسماعیل کی قابلیت کو نہ جانتا ہوں اور نہ ہی انکار کر رہا ہوں مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کی قابلیت کے ثمرات عوام تک منتقل نہیں ہوئے اور اس مسئلہ کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ خدانخواستہ بھاری پتھر غیر معمولی نقصان پہنچا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments