وزیراعلی صاحب خدارا سانگھڑ کو بچا لیں


سندھ کا ضلع سانگھڑ 6 تعلقوں پر مشتمل ہے اور اس ضلع کی آبادی 21 لاکھ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بارش کے گزشتہ 2 اسپیل کے دوران ضلع میں 656 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی ہے۔ گزشتہ دو اسپیلز کی وجہ سے ضلع میں ایک ہزار 721 دیہات مکمل زیر آب اور 19 ہزار 752 مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ ضلع سانگھڑ کے مختلف تعلقوں میں 11 اموات اور 14 افراد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ 20 ہزار 236 خاندان اور ایک لاکھ ایک ہزار 181 افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

ضلع بھر میں 3 لاکھ 48 ہزار 405 ایکڑ رقبہ پر فصلیں کاشت کی گئیں جس میں سے 3 لاکھ 10 ہزار 39 ایکڑ فصل مکمل تباہ ہو چکی ہے۔ ضلع کی 164 کلومیٹر سڑکیں اور 317 کلومیٹر شولڈرز، 6 پل اور 99 نالے بھی تباہ ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ صرف صوبہ سندھ کے ایک ضلع کا بارشوں کے گزشتہ دو اسپیلز تک محدود نا مکمل سرکاری جائزہ ہے۔ جبکہ بلا مبالغہ آنکھوں دیکھی روئیداد یہ ہے کہ ضلع سانگھڑ بلوچستان اور جنوبی پنجاب کی مانند تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

سانگھڑ کے بے شمار دیہات مکمل ڈوب چکے ہیں اور ایک چوتھائی مکان پانی میں بہہ گئے ہیں اور جو مکانات کسی حد تک محفوظ ہیں ان کی چھتیں بھی پانی رسنے کے باعث پناہ فراہم کرنے کے قابل نہیں رہیں۔ دیہاتی علاقوں میں چھ سے آٹھ فٹ اور شہری علاقوں میں تین سے پانچ فٹ تک پانی موجود ہے جس کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ قبرستان پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں لوگوں کو اپنے پیاروں کی لاشیں دفنانے کے لیے جگہ نہیں مل رہی۔

مریضوں کو ہسپتال لے جانا محال ہو چکا ہے، چارپائیوں پر ڈال کر چار چار چھ چھ فٹ پانی سے گزر کر جانا پڑ رہا ہے۔ یہ سطور کے لکھتے وقت تیسرا اسپیل بھی شروع ہوئے بھی کئی گھنٹے گزر چکے ہے۔ گلیوں اور بازاروں میں پہلے ہی قد آدم تک پانی موجود ہے اور سیم نالے اوور فلو ہو رہے ہیں حالیہ اسپیل تباہی کی جو داستان چھوڑ کر جائے گا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

یہ درست ہے کہ پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہی ہے۔ بارشوں کے شیڈول میں تبدیلی اور مقدار میں غیر معمولی اضافہ موسمیاتی تبدیلی کا ہی شاخسانہ ہے اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے تیزی سے پگھلتے گلیشئر پاکستان میں شدید سیلابوں کا باعث بن رہے ہیں۔ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رواں سال بارشیں معمول سے زیادہ ہو رہی ہیں اسی وجہ سے پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ لہذا رواں سال ہونے والی غیر معمولی بارشوں کو بنیاد بنا کر پیپلز پارٹی کی قیادت حسب معمول جان چھڑانے کے لیے کہہ سکتی ہے کہ زیادہ بارش آئے تو زیادہ پانی آتا ہے۔

تاہم یہ عذر تسلیم بھی کر لیں کہ قدرتی آفات کے سامنے ترقی یافتہ ممالک بھی بے بس ہیں۔ سوال مگر پھر بھی پیدا ہوتا ہے کہ صوبائی اور ضلعی حکومت کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا تیاری تھی؟ دوسرے علاقوں کا علم نہیں کم از کم اپنے شہر سانگھڑ کی حد تک یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہاں تباہی کا اصل سبب قدرتی آفت نہیں بلکہ مقامی انتظامیہ اور سیاستدانوں کی کرپشن ہے۔ دو ہزار گیارہ کے سیلاب کے بعد آج تک ضلع سانگھڑ میں برساتی نالوں کی صفائی نہیں کی گئی۔

نالوں کی صفائی اور پانی کی نکاسی کے پوائنٹس پر بر وقت مشینیں نصب کر لی جاتیں تو کم از کم ضلع سانگھڑ کو ڈوبنے سے بچایا جا سکتا تھا۔ سفاکی و بے حسی کی حد یہ ہے کہ ضلعی بجٹ کی بندر بانٹ کے بعد اس وقت پیپلز پارٹی کے منتخب ایم این اے، ایم پی اے کی سیٹ کے ٹکٹ ہولڈر، ڈی سی سانگھڑ، ایڈمنسٹریٹر بلدیہ، ایریگیشن کا عملہ اور پی پی ایچ آئی افسران ریلیف فنڈ حاصل کر کے ٹھکانے لگانے کی سوچ میں ہیں۔ کاش وزیراعلی سندھ اپنے حالیہ دورہ سانگھڑ کے دوران اپنے ہاتھوں سے شہر ڈبونے والے ان سیاسی اور انتظامی عہدوں پر فائز لٹیروں اور چمچہ گیر صحافیوں کے بجائے عام شہریوں سے زمینی حقائق جاننے کی زحمت کر لیتے تو شاید یہ نوبت نا آتی۔

وزیراعلی سندھ سے گزارش ہے کہ مویشیوں کی ہلاکت، فصلوں کی تباہی، کاروبار کی بربادی اور گھروں کی مسماری کے بعد اب بلوچستان اور جنوبی پنجاب کی مانند ضلع سانگھڑ میں بھی انسانی زندگی ایڑیاں رگڑنا شروع ہو چکی ہے۔ آپ اپنے دورہ سانگھڑ کے دوران جو سڑکیں اور آبی گزرگاہیں دیکھ کر واپس تشریف لے گئے مقامی عوام کی اذیت و بے چارگی کی درست عکاسی اس سے نہیں ہو سکتی۔ وزیراعلی صاحب ضلع سانگھڑ میں انسانیت سسک رہی ہے اور بلک بلک کر زندگی کے تحفظ کی دہائیاں دے رہی ہے۔ وقت بہت کم ہے۔ خدارا کچھ کر سکتے ہیں تو کر لیں ورنہ خاکم بدہن عنقریب یہاں بھی کیچڑ میں دھنسی انسانی لاشیں ملنا شروع ہو جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments