سماجی رویوں کی تبدیلی کا شاعر


”مجھے اب بولنا ہو گا“ جناب مقبول شہزاد کی نئی کتاب کے بارے میں مجھے یہ الفاظ لکھتے ہوئے دوہری خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ خوشی کی پہلی وجہ ایک لکھاری کی حیثیت سے ان کی کتاب پر اظہار خیال ہے اور دوسری وجہ یہ کہ وہ میری دھرتی (تھل کے دل) کے بیٹے ہیں، یعنی میرا تعلق بھی مقبول شہزاد کے گاؤں لوریتو، چک نمبر 270، ٹی ڈی اے، لیہ سے ہے۔

مقبول شہزاد کی شاعری کے بارے میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ وہ دلوں کی آواز ہے۔ وہ جو سوچتے ہیں اسے اپنے قلم کے ذریعے کاغذ پر اتار کر قارئین تک پہنچا دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ دل سے محسوس کرتے ہیں، اس کیفیت کا تجربہ کرتے ہیں اس لئے ان کے احساسات، تجربات اور الفاظ لوگوں کے دل میں اتر جاتے ہیں۔ مقبول شہزاد جس دھرتی سے ہے وہاں اس کے فن اور تخلیق کی مزید پذیرائی ہونی چاہیے۔

اس کے خیالات اور سوچ کو قبول کیا جانا چاہیے۔
رحمت کا ترے در سے طلب گار ہوں میں بھی
انصاف نہ کر بہت گناہ گار ہوں میں بھی

اس شعر میں ان کی سوچ اور عاجزی کا عکاس نمایاں ہے۔ وہ اپنی ذات کی پارسائی کا ہرگز شکار نہیں ہے، بلکہ اپنے آپ کو ماڑموٹا شاعر کہتے ہیں۔ میں ایک بات کی جناب مقبول شہزاد کو مبارک باد اور داد دینا چاہوں گا کہ انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور نہ ہی حالات سے سمجھوتہ کیا ہے۔ اپنے قارئین کے لئے کئی قربانیاں دی ہیں۔ شاعر، ادیب اور لکھاری کسی بھی معاشرے کے احساس ترین افراد ہوتے ہیں جو معاشرے کے بدلتے ہوئے رویوں کو بہت باریکی سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیت کے ذریعے لوگوں کو اس تبدیلی سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس لئے میں ان تخلیق کاروں کو ”سوشل سائنٹسٹ“ کہتا ہوں۔ میری نظر میں مقبول شہزاد سماجی رویوں کی تبدیلی کا شاعر ہے جس کے اندر کا انسان اسے بار بار اکساتا ہے کہ وہ معاشرتی قدروں کی پامالی پر اپنی آواز بلند، اپنی شاعری کے ذریعے پہنچائے۔

اہل نظر نے پھول گلشنوں سے پا لیے
شہزاد ڈھونڈتا تھا پھول ڈھیر خار میں

بدقسمتی یہ ہے کہ مقبول شہزاد جس معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے وہ معاشرے کئی سمتوں میں بکھر چکا ہے جیسے سمیٹنے کے لئے ہمیں اپنی بنیادوں کی طرف لوٹنا ہو گا۔ اچھی بات یہ کہ بکھرے ہوئے معاشرے کو سمیٹا جا سکتا ہے لیکن ٹوٹے اور گلے سڑے معاشرے کو نہیں۔ حالات جتنے مرضی آئیڈیل نہ ہوں مگر مقبول شہزاد جیسے احساس انسان اس معاشرے میں اپنے حصے کا کام کرتے رہے ہیں گے تاکہ کل کو بر صغیر کی تاریخ میں کوئی سو سال بعد اس معاشرے کی تاریخ پڑھے گا تو اسے مقبول شہزاد جیسے انمول ادیب آثار قدیمہ نایاب معلوم ہوں گے۔

مانتا ہوں یہ کہ تو حاکم وقت ہے
تو خدا تو نہیں ہے، خدا یک ہے

لیہ سے تعلق رکھنے والے معروف اور منفرد لہجے کے شاعر مقبول شہزاد کی یہ چوتھی کتاب ہے۔ 164 صفحات پر مشتمل کتاب میں اردو زبان میں نظمیں، غزلیں، اشعار اور قطعات شامل ہیں جن کا موضوع انسانی اور معاشرتی رویے ہیں۔ مقبول شہزاد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں بدلتے رویوں، معاشرتی، انسانی جذبات اور سیاسی اور لسانی سوچوں اور رویوں کو بڑی عمدگی اور نفاست کے ساتھ بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا وہ اپنے قارئین کے مشکور ہیں جو ان کی شاعری کو پڑھتے اور سہراتے ہیں، ان کے لئے قارئین کی طرف سے حوصلہ افزائی اور ستائش کسی بھی اعزاز سے کم نہیں۔

کتاب پر معروف ماہر تعلیم اور ادیب پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین، ماہر تعلیم اور ادیب ڈاکٹر نعیم سلیم، ماہر تعلیم ڈاکٹر افضل صفی اور ٹرینر و اسپیکر ایاز مورس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ خوب صورت اور ٹائٹل کی حامل کتاب کو اردو سخن، آرٹ لینڈ، چوک اعظم نے شائع کیا ہے۔ میں جناب میں مقبول شہزاد کو دلی کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی سوچ سے مزید صفحات کو رنگین کرتے رہیں گے۔

وہ سوچتا ہے میں بے فکر ہوں
میں سوچتا ہوں مجھے فکر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments