پاکستانی ٹیم اور ایشیاء کپ ٹرافی


            

اسی نوے کی دہائی میں بھلے پاکستانی کرکٹ ٹیم بھارت کے خلاف بہت مضبوط رہی ہو لیکن ایشیاء کپ کی بات کی جائے تو یہاں

بھی ورلڈ کپ کی مانند پاکستان کا ریکارڈ کچھ زیادہ متاثر کن نہیں ہے۔ 1984 میں اپنے آغاز کے بعد پاکستان کو پہلا ایشیاء کپ جیتنے کے لیے 2000 تک ساتویں ایڈیشن کا انتظار کرنا پڑا۔ معین خان کی قیادت میں جیتے اس ٹورنامنٹ میں محمد یوسف 295 رنز بنا کر سب سے کامیاب بیٹسمین رہے تو یہ دوسری بار ہوا تھا کہ کسی پاکستانی بلے باز کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہو۔ اس سے قبل 988 1 میں اعجاز احمد 192 رنز بنا کر ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز رہ چکے تھے۔ بیسٹ بیٹسمین کے ایوارڈ کے ساتھ یوسف مین آف دی ٹورنامنٹ کا اعزاز بھی لے اڑے جو پہلی بار کسی پاکستانی نے حاصل کیا تھا۔

اتفاق سے 2000 کے ایڈیشن میں پاکستان کے ہی عبدالرزاق بھی 8 وکٹیں لے کر سب سے کامیاب بالر قرار پائے۔ ان سے قبل 1986 میں پاکستان کی طرف سے عبدالقادر 9 وکٹیں حاصل کر کے ٹاپ بالر رہے تھے۔ اس عرصے کے دوران گزرے سات ایڈیشنز میں پاکستانی ٹیم صرف ایک بار 1986 میں فائنل تک رسائی حاصل کر پائی جہاں اسے سری لنکا نے شکست دی۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی ہو کہ اس بار ٹورنامنٹ میں بھارت نے شرکت نہیں کی اور اس کی جگہ بنگلہ دیش نے پہلی بار حصہ لیا۔

اس کے بعد 2012 میں مصباح الحق کی قیادت میں ایک بار پھر یہ ٹرافی پاکستان کو نصیب ہوئی۔ 2014 میں بھی پاکستان فائنل تک پہنچا لیکن اب کہ سری لنکا نے اسے شکست دیدی۔ جس کے بعد گزرے دو ایشیاء کپ میں پاکستانی ٹیم پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہو رہی ہے اور ہم سے بہتر کھیل پیش کر کے بنگلہ دیش نے مسلسل دو بار ایشیاء کپ کے فائنل میں جگہ بنائی جہاں دونوں بار بھارت نے اسے شکست دی ہے۔

اس حساب ؎سے اب تک ہوئے چودہ ایڈیشنز میں سب سے زیادہ سات بار بھارت نے ایشیاء کی حکمرانی کا اعزاز حاصل کیا جب کے پانچ دفعہ کی فاتح سری لنکن ٹیم ٹھہری۔ اور ہم دنیا کی بہترین باؤلنگ کے دعوے دار اب تک صرف دو بار ہی ایشیاء کپ جیت سکے ہیں۔ باؤلنگ کی بات کی جائے تو یہاں بھی بھارتی باؤلرز کا ریکارڈ اچھا رہا ہے اب تک کسی ایک ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا اعزاز سات بار بھارتی باؤلرز نے ہی حاصل کیا ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سب زیادہ 33 وکٹیں سری لنکا کے ملینگا نے حاصل کی ہیں اور سب سے زیادہ 1220 رنز سری لنکا کے ہی سنتھ جیاسوریا نے بنائے ہیں۔ کسی ایک ٹورنامنٹ میں سب سے 378 نز بنانے کا ریکارڈ بھی جیاسوریا کے پاس ہے جو انہوں نے 2008 کے ایڈیشن میں بنائے تھے۔ اب تک کسی بھی میچ میں سب سے بڑی 224 رنز کی پارٹنر شپ کا ریکارڈ پاکستان کے محمد حفیظ اور ناصر جمشید کے پاس ہے جو انہوں نے 2012 میں بھارت کے خلاف بنایا تھا لیکن جواب میں بھارت کے ویرات کولھی نے 183 رنز کی باری کھیل کر وہ میچ پاکستان سے چھین لیا تھا۔ جو اب تک کسی بھی بلے باز کا سب سے بڑا انفرادی اسکور ہے۔

اب تک ہوئے چودہ ایشیاء کپ ٹورنامنٹ میں سری لنکا نے تمام مقابلوں میں شرکت کر کے گیارہ بار فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ بھارت اور پاکستان نے تیرہ بار ایشیاء کپ میں حصہ لیا تو بھارتی ٹیم دس بار فائنل کھیلی ہے جبکہ پاکستان صرف چار بار فائنل تک رسائی حاصل کر پایا۔ بنگلہ دیش کی ٹیم بھی بارہ بار حصہ لے کر تین بار فائنل تک پہنچی جبکہ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والے دیگر ممالک ہانگ کانگ، متحدہ عرب امارات اور افغانستان کوئی خاص قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے۔

ایشیاء کپ میں پاکستان بمقابلہ بھارت کی بات کریں تو دونوں ٹیمیں چودہ بار ایک دوسرے کے مدمقابل آ چکی ہیں جس میں آٹھ بار بھارتی ٹیم فاتح ٹھہری اور پانچ بار پاکستانی ٹیم میچ جیت پائی جب کے ایک میچ بارش کی نظر ہوا۔ گزشتہ پانچ مقابلوں میں پاکستانی ٹیم صرف ایک بار 2014 میں بھارتی ٹیم کو شکست دے پائی تھی جب شاہد آفریدی نے ایشون کے آخری اوور میں دو چھکے لگا کر جیت کو یادگار بنا دیا تھا۔

اس بار کا ایشیاء کپ بھی 2016 کی طرح دوسری بار ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں ہو گا۔ گزشتہ سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پہلی بار بھارت کے خلاف فتح حاصل کرنے والی پاکستانی ٹیم بابر اعظم کی قیادت میں خاصی پرامید ہے کہ وہ اس بار ایشیاء کپ میں اچھا کھیل پیش کرے گی۔ خاص کر ہمارے کرکٹ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس بار بھارتی ٹیم پاکستان کے خلاف پریشر میں ہوگی۔ لیکن اگر یہی پیمانہ مانا جائے تو پچھلی بار بھی کچھ اس سے ملتی جلتی ہی صورت حلال تھی۔

2018 کے ایشیاء کپ سے قبل پاکستانی ٹیم نے بھارت کو چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں یادگار شکست دی تھی جس کو لے کر بہت بلند و بانگ دعوے کیے جا رہے تھے ہمارے کچھ مبصرین نے ویرات کوہلی کی ایشیاء کپ میں شرکت نہ کرنے کی وجہ پاکستانی باؤلنگ سے ڈر بھی بتا دی تھی۔ لیکن اس کے بعد جب دونوں روایتی حریفوں کا سامنا ہوا تو یوں محسوس ہوا جیسے پاکستانی ٹیم کرکٹ کھیلنا ہی بھول گئی ہو۔ بھارتی ٹیم نے اس کے بعد پاکستان کو دو ایشیاء کپ اور ایک ورلڈ کپ 2019 کے میچوں میں بالکل اک طرفہ شکست دی تھی۔

گزشتہ ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف پاکستان کے ہیرو شاہین شاہ آفریدی ان فٹ ہیں اور ان کی جگہ محمد حسنین کو قومی اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی یہ نوجوان ٹیم اپنے سے نسبتاً تجربہ کار بھارتی ٹیم کا کیسے مقابلہ کرتی ہے۔ کیونکہ ٹیم مینجمنٹ نے پچھلی بار تجربہ کار محمد حفیظ کو بھی ایشیاء کپ سے ڈراپ کر دیا تھا لیکن ٹیم کی بری پرفارمنس کے بعد انہیں واپس بلا لیا گیا تھا اب یہی تجربہ شعیب ملک کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments