موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے


آج ارض پاک اپنی پچھتر سالہ زندگی کے انتہائی کٹھن ایام سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف معاشی سونامی نے ہر ذی روح کی زندگی مشکل بنائی ہوئی ہے تو دوسری طرف طوفانی تباہ کن بارشوں اور سیلاب نے معاشی سونامی کی تباہ کاریوں کو مزید تباہ کن بنایا ہوا ہے۔ ایسے مشکل کٹھن حالات میں کسی بھی ریاست کی جنتا اپنی قیادت کی جانب امید لگائے بیٹھتی ہے کہ ان کی قیادت اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے اللہ تعالیٰ کی مدد سے اور عوام کے ساتھ سے ان کی مشکلات کو آسانیوں میں ضرور تبدیل کرے گی۔

پاکستان کی پبلک بھی عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی طور پر تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے متاثر ہے، مگر ہمارے ملک میں ان تبدیلیوں کا اثر عوام پہ اس لیے زیادہ پڑا کہ ایک تو ہماری عوام کی آمدنی بڑھتی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی جس کی وجہ سے عوام کی قوت خرید دن بدن کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے تو دوسری جانب عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستانی حکومت نے ایسے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جس سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کیا جاسکتا اور اپنے عوام کو ان تبدیلیوں کے نقصانات سے بچانے کے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جاتے۔

مصیبتوں اور مشکلات کی ماری پاکستانی جنتا اور پاکستانی معاشرے کو پاکستانی عوام کے خودساختہ مسیحا اور مقبول ترین عوامی لیڈر نے بھی اپنے ذاتی اقتدار کی ہوس میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان ایک آئینی اور جمہوری عدم اعتماد تحریک کے ذریعے اقتدار سے بے دخل ہوئے۔ انہوں نے پچھلے چار ساڑھے چار ماہ کے دوران اپنے اقتدار سے بے دخلی کو کبھی امریکی سازش قرار دیا تو کبھی فوجی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور سول بیوروکریسی کو مورد الزام ٹھہرایا۔

کبھی خط لہرا کر عوام کو اشتعال انگیزی کی جانب مائل کیا تو کبھی وہ مقتدر ادارے ان کی بندوق کی نشست پہ رہے جو ان کے پہلے اقتدار میں آنے کی وجہ تھے، جنہوں نے انتخابات 2018 کی رات کو آر ٹی ایس سسٹم کا اپنے تابع کر کے ان کی شکست کو کامیابی میں تبدیل کیا۔ خان صاحب نے ساڑھے چار ماہ مسلسل ملک کے امن، سلامتی، استحکام اور معاشرتی ہم آہنگی کو نشانے پہ رکھا ہوا ہے۔ پاکستانی فوج، عدلیہ، سیاسی مخالفین مطلب جس نے بھی خان صاحب سے اختلاف رائے کا اظہار کیا وہ بدترین مخالفت اور گالم گلوچ اور کردارکشی کا شکار ہوا۔

پاکستان اپنی عمر کے 75 برس مکمل کرچکا مگر ان پچھتر برسوں میں شاید ہی پاکستان کی سیاست اتنی تنزلی، اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوئی ہوگی جتنی 2011 سے لے کر اب تک ہوئی ہے اور اس معاشرتی تباہی کے ذمے دار عمران خان صاحب اور ان کی ذاتی خواہشات کے تابع ان کی سیاست ہے۔ خان صاحب نے پچھلے چند ماہ سے پاکستان کی فوج کو جس طرح ہدف ملامت و تنقید بنایا ہوا ہے شاید اس طرح پاکستان کے دشمنوں نے بھی نہیں بنایا ہو گا۔ پاکستان کے مخالف انڈین آرمی کے سابق میجر وی لاگر میجر گورو آریا کے مطابق ہم پاکستانی فوج کو کروڑوں اربوں روپے خرچ کر کے بھی اتنا نقصان نہیں پہنچا سکے جتنا عمران خان نے اقتدار سے بے دخلی کے بعد اپنی فوج اور اداروں کو پہنچایا ہے۔

میجر گورو آریا نے اپنے ایک تازہ ٹی وی انٹرویو میں شہباز گل کے اے آر وائی پہ براہ راست فوج میں بغاوت پیدا کرنے والے بیان پہ عمران خان اور ان کی جماعت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ہم پاکستانی فوج کے مخالف بلکہ سخت ترین مخالف ہیں مگر اس مخالفت میں بھی ایک وقار اور احترام ہے لیکن جس طرح عمران خان شہباز گل نے اپنی فوج میں بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ اب اندازہ کریں کہ ہمارا دشمن بھی دشمنی وقار اور احترام کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نبھانے کا قائل ہے مگر وہ شخص جو ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہے، جسے یہ دعویٰ ہے کہ وہ قوم کا مسیحا نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہو میسنجر ہے، قوم کو صحیح سمت بتانے والا ان کے دکھوں دردوں کا مداوا کرنے والا رہنما ہے، وہ ملک اور قوم سے محض ذاتی اقتدار کی ہوس میں نجانے کس بات کا انتقام لے ریا ہے۔

پاکستان اس وقت طوفانی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے نبرد آزما ہے، خان صاحب کے پی کے میں نو سال سے برسر اقتدار ہیں وہاں کی جنتا بھی بدترین موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے قدرتی آفتوں کا سامنا کر رہی ہے، پنجاب میں بھی ان کی حکومت ہے تین چوتھائی پنجاب پانی پانی ہے اس وقت مگر مسیحا قوم کی مسیحائی کرنے کے بجائے ان کو مزید منتشر کرنے کی مہم پہ نکلا ہوا ہے۔ خان صاحب کے ہر جلسے پہ کروڑوں روپے کا خرچہ ہو رہا ہے اگر وہ جلسے منسوخ کر کے جلسوں پہ اٹھنے والے اخراجات اپنی پارٹی کی حکومتوں کے عوام کی بحالی اور ان کے امدادی کاموں پہ خرچ کریں تو یہ انتشار و فتنہ برپا کرنے والے جلسوں سے کہیں زیادہ خان صاحب کے کام آئیں گے۔

اس وقت سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے پیپلز پارٹی کی قیادت، سندھ حکومت اور پارٹی عہدیداران و کارکنان بارش و سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے کاموں میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی حکومت بلوچستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں کے عوام کو زیادہ سے زیادہ رلیف پہنچانے اور ان کی ہر ممکن بحالی کی کوششوں میں جتی ہوئی ہے، مگر خان صاحب اور ان کی جماعت صرف ذاتی مقاصد حاصل کرنے کی جستجو میں لگی ہوئی ہے، یہ وطن ہم سب کا ہے اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام باہمی اختلافات، مخالفانہ سیاست، اقتدار کے حصول کی جنگ کو ایک طرف رکھ کر صرف اور صرف بارشوں اور سیلاب سے تباہ حال ہم وطنوں کی امداد ان کی بروقت بحالی کے اقدامات پہ تؤجہ مرکوز کرنی چاہیے باقی سیاست بھی ہوتی رہے گی تو ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں گی، مگر یہ وقت سیاسی اختلافات پس پشت رکھ کر ملک و قوم کی خدمت اور اس کے امن، ترقی، سالمیت اور خودمختاری اور سیاسی و معاشی استحکام کی کوششیں کرنے کا ہے۔

غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments