درد و الم کی کہانی۔ چہار سو پانی ہی پانی


پاکستان میں وسط جون 2022 سے شروع ہونے والے مون سون سیزن کی بارشوں نے تباہی کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کی شدت نے ملک کے بیشتر حصوں کو متاثر کر رکھا ہے۔ تباہی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان اس سے سب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ دوسرے نمبر پر صوبہ سندھ کو بھی بڑی تباہی کا سامنا ہے جبکہ خیبر پختون خواہ، جنوبی پنجاب، گلگت بلتستان اور کشمیر سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر انسانوں کو بھی مالی و جانی نقصان اور سیلابی صورتحال کا سامنا ہے۔

تادم تحریر ہونے والی تباہی کی تفصیلات کے مطابق ملک بھر میں ایک ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ سولہ سو کے قریب زخمی بدن امداد کے منتظر ہیں۔ تقریباً چھ لاکھ پالتو جانور بھی اس آسمانی آفت کا شکار ہو کر مر چکے ہیں۔ کئی ایک آبادیاں صفحہ ہستی سے نابود ہو چکیں، کئی خاندان بے سہارا ہو چکے۔ کسی بچے کے والدین اس آفت کی بھینٹ چڑھ کر راہی ملک عدم ہو چکے تو کئی ماؤں کی کوکھ اجڑ چکی۔ کسی کا سہاگ چلا گیا تو کوئی بہن اپنے بھائی کا راہ تکتے تکتے خود بھی گزر گئی، خاندان کے خاندان اجڑ گئے، کنبے کے کنبے بکھر گئے۔ بھائی، بھائی سے جدا ہو گیا، دوست، دوست سے بچھڑ گیا۔ اک قیامت کا ساماں ہے جو ملک بھر میں چہار سو جاری ہے۔

بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جہاں پر بارشوں کے لامتناہی سلسلہ نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے۔ تاحد نگاہ پانی ہی پانی ہے۔ بپھرے ہوئے ندی نالے انسانی و حیوانی جانوں کو نگلنے کو بے تاب نظر آتے ہیں۔ سیلابی پانی کچے اور پکے مکانوں کو ساز و سامان سمیت حرف غلط کی طرح مٹاتا چلا جا رہا ہے۔ اس سیلاب کی نظر ہونے والے انسانی لاشے اگر مل بھی رہے ہیں تو دفنانے کے لئے دور دور تک خشک زمین دکھائی نہیں دیتی۔ بے گھر افراد کو خیمے میسر بھی آ جائیں تو لگانے کے لئے جگہ کا حصول ناممکن نظر آ رہا ہے۔

ایک شدید انسانی المیہ ہے جو بلوچستان اور سندھ سمیت ملک کے دیگر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ مگر افسوس کہ اس کے تدارک کے لئے حکومتی اور سیاسی سطح پر کوئی سنجیدہ کاوش اور حکمت عملی دکھائی نہیں دے رہی۔ حکومت اور اپوزیشن اقتدار اور سیاست کے کھیل میں مگن ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان جناب میاں محمد شہباز شریف غیر ملکی دوروں میں مصروف ہیں تو اپوزیشن کے سب سے بڑے راہنما جناب عمران احمد خان نیازی جلسہ جلسہ کھیلنے اور اداروں پر تنقید کرنے میں مصروف ہیں۔

متاثرین کی امداد فوٹو سیشن اور بیانات تک محدود ہے۔ اگر عملی طور پر متاثرین کی اشک شوئی کے لئے کوئی جماعت دکھائی دیتی ہے تو وہ ہمیشہ کی طرح جماعت اسلامی ہی ہے جو اپنے الخدمت فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں ہر جگہ متاثرین کی فلاح و بہبود کے لئے نہ صرف فعال کردار ادا کرتی نظر آتی ہے بلکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق صاحب بغیر کسی ہیلی کاپٹر کے زمینی رستوں سے ہی متاثرین تک بذات خود پہنچ کر خدمت کا حق ادا کر رہے ہیں۔ کاش یہ جذبہ، یہ حکمت عملی اقتدار کے مزے لوٹنے والی دیگر سیاسی جماعتوں کے اندر بھی رواج پا سکتی تو قدرتی آفات کی شدت بڑی حد تک کم کرنے میں مدد مل جاتی۔

پاکستان کے قیام سے اب تک ملک جمہوری اور عسکری حکومتوں کے زیر سایہ رہا ہے اور اس خطہ زمین پر ہزاروں سال سے ہر سال کم یا زیادہ شدت کے سیلاب آتے رہے ہیں۔ اس سال کی طرح ہر سال ہزاروں جانیں سیلاب کی نظر ہوتی رہیں۔ بستیاں اجڑتی رہیں، فصلیں برباد ہوتی رہیں اور نقصانات پر نقصانات ہوتے رہے مگر ہر سال اقتدار کے ایوانوں میں مکین افراد کی کاوشیں فضائی جائزوں اور امداد کے جھوٹے اعلانات تک محدود رہیں۔ ہم سے جدا ہو کر بنگلہ دیش کہلانا والا ملک اپنے بدترین سیلابوں سمیت ہم سے بڑی معاشی طاقت بن گیا مگر ہم قدرتی آفات کو روکنے کے لئے ایک مربوط، منظم، اجتماعی اور قومی پالیسی نہیں بنا سکے۔

ہم نے نت نئے ادارے، کمیٹیاں اور کمیشن تو بنا دیے، جائزہ رپورٹس تو تیار کر لیں، فائلوں کے انبار تو لگا دیے مگر قدرتی آفات کو مفید بنانا تو درکنار اس سے درست طریقہ سے نمٹنے کی بنیادی حکمت عملی بھی ترتیب نہیں دے پائے۔ ہمارا پانی کا ایک ذخیرہ بنانے کا منصوبہ متنازعہ ٹھہرا تو کیا ہم دیگر منصوبوں کو شروع کرنے اور ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے بھی قاصر ہیں۔ اگر چند ایک چھوٹے ڈیم بنا ہی لئے ہیں تو ان کی مضبوطی اور پانی کو روکنے کی صلاحیت کار کو جانچنے کا نظام کیوں نہیں بنا سکے؟ ہم سیلاب کی طرح کی قدرتی آفت کے لئے بروقت آگاہی مہم کیوں نہیں چلا پاتے؟ ہم سیلابی گزرگاہوں کے رستوں پر قائم آبادیوں کو متبادل جگہ پر منتقل کرنے کی حکمت عملی کیوں نہیں بنا پا رہے؟ اور کچھ نہیں تو سیلابی موسم میں ممکنہ متاثر ہونے لوگوں کو بمع مویشی وغیرہ بلند مقامات پر منتقل ہی کر دیا کریں۔

ہم کب تک مٹی سے لاشوں کو ڈھونڈتے رہیں گے؟ کب تک حکومتوں اور اداروں کے کام جماعت اسلامی جیسی بے اقتدار جماعتیں سنبھالتی رہیں گی؟ کب تک ہر آفت کو اللہ کی آزمائش اور پکڑ کہہ کر جان چھڑاتے رہیں گے؟ کب تک اجڑی بستیوں اور بے نشاں قبروں پر ماتم کناں رہیں گے؟ کب تک۔ آخر کب تک صاحبان اقتدار کے سیاسی کھیل ہمارا منہ چڑاتے رہیں گے؟ کب تک ہم درد و الم اور انسانی المیوں کی کہانیاں لکھتے رہیں گے؟

خدا را سر جوڑیے، سیاسی اختلافات کو وقتی طور پر نظر انداز کیجئے، خلق خدا کے لئے، اس ملک کی بقا کے لئے میز پہ بیٹھیے، ایک حکمت عملی، قومی سوچ کی عکاس حکمت عملی ترتیب دیجئیے۔ دنیا میں بھی زندہ آباد کے نعرے لگوایے اور اپنی اخروی زندگی کی بہتری کا سامان بھی کیجئے۔ قدرت ہر سال موقع فراہم کرتی ہے۔ فائدہ اٹھائیے، کر گزریے، اگر نہیں کر سکتے تو اس قوم کی جان چھوڑیے پھر تمہیں اقتدار کے محلوں میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments