پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا وجود اور ساکھ داؤ پر


پچھلے چند ہفتوں میں دو ٹویٹس نظر سے گزریں۔

ایک صارف نے امریکی ادارہ ای سی ایف ایم جی کے منظور شدہ میڈیکل کالجوں میں پاکستان کا ذکر نہ ہونے کی خبر کے تناظر میں ٹویٹ کیا کہ اب پاکستانی ڈاکٹرز پاکستان میں رہ کر پاکستانی عوام کی خدمت کریں گے۔

دوسری ٹویٹ سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی تھی جس میں انہوں نے پی ایم ڈی سی بل 2022 ء پاس ہونے پر اطباء کی برادری کو مبارکباد دیتے ہوئے یاددہانی کرائی کہ یہ پیپلز پارٹی ہی ہے جو ماضی کی طرح اپنے وعدوں کو پورا کرتی ہے۔

متوقع طور پر پہلی ٹویٹ غیر طبی حلقوں میں مقبول ہوئی جبکہ دوسری کو ڈاکٹر احباب نے خوب بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کو بھیجا اس خوشخبری کے ساتھ کہ پچھلی حکومت کے شروع کردہ نیشنل لائسنسنگ اگزام (این ایل ای) سے جان چھوٹ گئی ہے۔

حالیہ برسوں میں اعلی پاکستانی طبی اسناد تیزی سے بین الاقوامی توثیق کھوتی گئی ہیں۔ پاکستانی ایم ڈی اور ایم ایس ڈاکٹروں کو توہین آمیز انداز میں خلیجی ممالک سے نکالا گیا اسی طرح انیستھیسیا میں پاکستانی ایف سی پی ایس جو کئی عشروں سے برطانیہ کی جنرل میڈیکل کونسل کی ویب سائٹ پر تسلیم شدہ ڈگری کی حیثیت سے موجود تھی ہٹا دی گئی اس سے قبل گائنی آبس، امراض اطفال اور ریڈیالوجی میں بھی پاکستانی فیلوشپ کچھ برسوں تسلیم شدہ اسناد رہنے کے بعد اس امتیاز سے محروم کردی گئیں۔

برصغیر میں جدید طب کی ابتدا

سنہ 1717 ء میں جب مغل بادشاہ فرخ سیر کے جسم کے حساس حصے میں ننھی سی پھنسی نمودار ہوئی اور نامی گرامی ہندوستانی اطباء اور ویدوں کی کوششوں کے باوجود پک پک کر ایک دردناک پھوڑا بن گئی تو اس موقع پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے منسلک سرجن ہیملٹن کو طلب کیا گیا جس کے علاج سے بادشاہ کو مکمل شفاء حاصل ہو گئی۔ انعام کے نام پر ہیملٹن صاحب تاجدار ہندوستان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو کافی رعایات حاصل کرانے میں کامیاب ہوئے۔ جس سے آگے چل کر انگریزوں کو بہت فائدہ ہوا۔ یہ واقعہ مشرقی طریقۂ علاج پر جدید مغربی طب کی برتری کا بین ثبوت ہے۔

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے حالات زندگی دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ شاہی طبیب حکیم احسن اللہ خان صبح دوپہر شام بادشاہ کی نبض محسوس کرنے آتے اور اپنے ہاتھ سے تبرید، کشتے، معجون اور خمیرے بادشاہ کے لئے تیار کر کے لاتے۔ ان خدمات کے عوض انہیں وزیراعظم کا عہدہ حاصل تھا حکیم صاحب کے نسخوں کی تاثیر میں کمی بیشی کو بادشاہ کے مرشد حسن عسکری دعاؤں، تعویذ اور وظائف سے پورا کیا کرتے اور ساتھ ہی بادشاہ کو ان کے خوابوں کی دل خوش کن تعبیرات سنایا کرتے یہ وہ پس منظر تھا جس میں مغربی اقتدار کے ساتھ ساتھ جدید طب بھی ہندوستان میں اپنے جگہ بناتی گئی۔

جنرل میڈیکل کونسل کی تشکیل

برطانیہ میں ڈاکٹروں کی اعلی تعلیم کے لئے رائل کالج آف فزیشن کو 1516 ء میں چارٹر مل گیا تھا جبکہ رائل کالج آف سرجن کا قیام 1800 ء میں ہوا۔ اس وقت 19 مختلف ادارے اپنی مرضی سے طبی تعلیم کیا کرتے۔ آرچ بشپ آف کینٹربری (عیسائی مفتیٔ اعظم) تک کو یہ استحقاق حاصل تھا کہ جس شخص کو چاہیں ڈاکٹر ہونے کا لائسنس مرحمت کر دیں جب انگریز ہندوستان میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو اس وقت خود انگلستان میں ایک تہائی سے زائد اطباء غیر سند یافتہ تھے طبی تعلیم کے دورانیہ، نصاب، اصول اور طبیب کے فرائض وضع کرنے کے لئے جنرل میڈیکل کونسل کا قیام 1858 ء میں عمل میں آیا جس کے اغراض و مقاصد میں ایک یہ تھا کہ ”مریض کو علم ہو کہ اس کا معالج کوالیفائیڈ ہے یا غیر کوالیفائیڈ“

جی ایم سی نے برطانیہ میں پہلی دفعہ معالجین کا ایک رجسٹر قائم کیا تاکہ خطا کار اور نا اہل اطباء کو معطل یا برخاست بھی کیا جا سکے۔ 1886 ء میں میڈیکل ایکٹ میں ترمیم کر کے ہندوستان میں قائم میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کو اجازت دی گئی کہ وہ بھی پانچ پاؤنڈ کی ادائیگی کر کے اپنا نام کولونیل لسٹ کے نام سے قائم ایک الگ رجسٹر میں رقم کرا سکیں اور پھر نہ صرف ہندوستان بلکہ برطانیہ سمیت اس کی نوآبادیات میں پریکٹس کا حق حاصل کریں۔ 1930 ء میں جنرل میڈیکل کونسل نے بروقت انسپیکشن نہ ہونے کے باعث ہندوستانی میڈیکل کالجز کی توثیق واپس لے لی جو 1936 ء میں تسلی بخش انسپیکشن سے بحال ہوئی لیکن ان چھ سالوں میں فارغ التحصیل ہونے والے ہندوستانی ایم بی بی ایس جنرل میڈیکل کالج پر رجسٹر کیے جانے سے محروم رکھے گئے۔

ہندوستان میں آیورویدک اور طب یونانی سمیت کئی غیر سائنسی طریقۂ ہائے علاج کی عوام میں مقبولیت اور ان سے منسلک افراد کا اثر و رسوخ میڈیکل کالجز میں نصاب اور کورسز کو منظم کرنے میں رکاوٹ بنی رہی 1916 ء میں کہیں جا کر انڈین میڈیکل ڈگری ایکٹ بنایا گیا جس کے تحت اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے والے اور خود کو مغربی سائنسی طب کے پریکٹشنر ظاہر کرنے والے کو سخت سزا دی جا سکتی تھی۔

امریکی میڈیکل ایسوسی

امریکہ میں کالج آف فلاڈلفیا کے نام سے پہلا میڈیکل کالج 1765 ء میں قائم ہو چکا تھا لیکن قریباً ایک سو سال تک طبی تعلیمی نصاب اور تربیت کا کوئی باقاعدہ نظام نہ تھا بڑے ڈاکٹروں کی شاگردی یعنی اپرینٹس شپ کے ذریعے اکتساب فیض کیا جاتا تھا۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی غرض سے 1847 ء میں امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا جس نے اعلامیہ جاری کیا کہ“ ہمارے ملک میں طبی تعلیم کا معیار اس وقت تک بلند نہیں ہو سکتا جب تک ایک قومی اتفاق رائے قائم نہ ہو سکے ”

اسی تنظیم نے دنیا کی تاریخ میں پہلا جدید طبی اخلاقی ضابطہ تشکیل دیا۔ میڈیکل کالجوں کی ایکریڈیشن کا جدید نظام بھی ایک امریکی ایجاد ہے۔ 1910 ء میں ابراھام فلیکسنر نامی ایک ماہر تعلیم اور سماجی نقاد نے 155 امریکی میڈیکل کالجوں کے نصاب، سہولیات اور تربیتی نظام کا تفصیلی جائزہ لے کر رپورٹ شائع کی جس کے نتیجے میں ان میڈیکل کالجوں کی بہت بڑی اکثریت کو غیر معیاری قرار دے کر بند کر دیا گیا اور تسلیم شدہ اداروں کی تعداد کم ہو کر صرف 31 رہ گئی۔

ای سی ایف ایم جی

ای سی ایف ایم جی یا تعلیمی کمیشن برائے غیر ملکی ڈاکٹر ایک امریکی ادارہ ہے جو چھان بین کر کے طے کرتا ہے کہ کس ملکی یا ملکی تعلیمی ادارے کی سند قابل قبول ہے۔ یہ ایک انتہائی موثر اور قابل اعتبار ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ چین و عرب اور ہندوستان سمیت جہان بھر کی طبی اسناد کو سند تصدیق دینا یا نہ دینا اب ای سی ایف جی کے اختیار میں ہے۔

عالمی وفاق برائے طبی تعلیم

ورلڈ فیڈریشن آف میڈیکل ایجوکیشن ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جو عالمی ادارۂ صحت کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ 1972 ء میں قائم ہونے والا۔ یہ ادارہ رکن ممالک کی ذمہ دار ایجنسیوں مثلاً پاکستان میں پی ایم ڈی سی کے معاملات کی جانچ پڑتال کر کے ان کو منظوری یا ایکریڈیشن دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ میڈیکل کالجز کی ڈائریکٹری بھی بناتا ہے یاد رہے کہ ڈائریکٹری میں نام ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ متعلقہ ادارے کی ڈگری منظور شدہ پے امریکی ای سی ایف جی کی رائے کو یہ بہت وقعت دیتا ہے۔

فیمر اور ڈورا

موسسہ برائے طبی تعلیم اور ریسرچ ایک ایسا ادارہ ہے جو طبی نصاب اور نظام بنانے کی باقاعدہ تربیت دیتا ہے جبکہ ڈورا ان ایجنسیز کی ڈائریکٹری کا نام پے جو اپنے علاقوں میں میڈیکل اسکولوں کی تصدیق اور توثیق کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پاکستان میڈیکل کمیشن المعروف پی ایم ڈی سی ڈورا کا حصہ ہیں۔

طبی تعلیم کے سٹیک ہولڈرز کون ہیں

میڈیکل سٹوڈنٹ، اساتذہ، آجر مثلاً حکومت یا پرائیویٹ اسپتال کا مالک اور سب سے اہم مریض!

میڈیکل کالجوں کی سماجی جوابدہی کا عالمی اتفاق

سٹیک ہولڈرز کے تعین کے ساتھ ہی یہ فطری سوال پیدا ہو گیا کہ کیا میڈیکل کالج اپنے طرز عمل میں معاشرے کے آگے جوابدہ ہیں یا نہیں۔ کیا وہ ایسے سائنسی ذہن تیار کر پا رہے ہیں جو نت نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کی استعداد رکھتے ہیں کیا معیار، مساوات، عوامی ضروریات سے مطابقت اور موثر علاج معالجے کی فراہمی ہو پا رہی ہے کہیں ان کے وجود سے معاشروں کی ترجیحات درہم برہم تو نہیں ہو گئیں۔ مشرقی لندن میں دسمبر 2010 ء کو ہوئی اس بیٹھک کی ضرورت اس لئے بھی پڑی کیوں کہ انڈیا جیسے بڑے ملک میں اچانک پرائیویٹ میڈیکل کالج کھمبیوں کی طرح اگنے لگے تھے اور معاشرے پر ان کے منفی اثرات نظر آرہے تھے۔

یہاں تک پہنچ کر ہم ابتداء میں تحریر ٹویٹس کا جواب دے دیتے ہیں۔ بیرونی توثیق سے محرومی کا مطلب صرف یہ ہو گا کہ پاکستان میں میڈیکل کالجز اور پوسٹ گریجویٹ طلباء ایک ایسی ڈگری کے لئے زندگی کے قیمتی سال وقف کر رہے ہیں جو عالمی معیار پر پورا نہیں اترتی۔ مانڈوی صاحب ہوں یا دیگر سیاسی زعماء ان کی پی ایم ڈی سی پر نعرے بازی پہلے سے الجھی ہوئی صورتحال کو مزید الجھا دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments