کیا ٹیکنالوجی پاکستان میں طوفانی بارشیں لائی؟


خون آلودہ لاشیں دیکھنے سے فرصت ملے تو تیری زلف کو دیکھے اکبر میاں
افلاس زدہ چہرے دیکھ کے تیرے حسیں لب و رخسار بھول بیٹھا ہے

تین کروڑ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے۔ لاکھوں گھر پانی میں بہہ گئے۔ ہزاروں لوگ سیلابی پانی میں بہہ کے مر گئے۔ کئی لاشوں کا معلوم ہی نہیں کہ کہاں بہہ کے چلی گئیں۔ لاکھوں ایکڑز پہ کھڑی تیار فصلیں بہہ گئیں۔ لاکھوں مویشی اور ہزاروں دکانیں اور مارکیٹیں بھی پانی کی نظر ہو گئیں۔ اتنا بڑا سانحہ جس کی نظیر ماضی قریب میں تو نہیں ملتی۔ کروڑوں لوگ اپنے ذاتی گھروں سے محروم ہو کر چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ریلوے لائن یا سڑک پہ جھونپڑیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ موسم سرما سر پہ ہے۔ آزمائش کے مارے ان کروڑوں افراد کا ہو گا کیا؟ اپنے گھروں اور روزگار سے محروم ہو جانے والے ان کروڑوں افراد کا مستقبل کیا ہو گا؟

راقم نے جولائی 2022 میں ایک بلاگ بعنوان ”کراچی کی بارشوں کے پیچھے ٹیکنالوجی کی سازش ہے کیا؟“ لکھا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی سپر پاور ملک یا سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ ترقی کر جانے والے کسی ملک نے مون سون سسٹم کو چینلائز اور کنٹرول کر کے میرے پیارے وطن پاکستان پہ طوفانی بارشیں برسانے کے لیے کسی خوفناک ٹیکنالوجی کا استعمال کر دیا ہو؟

عرض ہے کہ مصنوعی بارشیں برسانے کی ٹیکنالوجی تو بہت پرانی ہے۔ شروع میں یہ ٹیکنالوجی روس، امریکہ اور یورپ کے پاس تھی۔ اب چین، جاپان، آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات اور دیگر کئی ممالک کے پاس بھی آ چکی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں مصنوعی بارشیں برسانے کا ٹھیکہ جس انٹرنیشنل کمپنی کو ملا، اس کے ایک سائنس دان نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے ایڈیٹوریم میں اپنی پریزینٹیشن میں نہ صرف دعٰوی کیا کہ ایک بار دبئی میں مصنوعی بارش برسانے کا سسٹم زیادہ ایکٹیویٹ کر دیا گیا یا سگنلز زیادہ چھوڑ دیے گئے تو اس قدر زیادہ بارش ہوئی کہ گاڑیاں بھی پانی میں ڈوبنے لگیں اور دبئی کا سیوریج سسٹم کریش ہو گیا۔ اس سائنسدان نے اپنے دعٰوی کی سچائی دکھانے کے لیے ایڈیٹوریم میں موجود ہزاروں افراد بشمول میڈیا پرسنز کو ڈاکومنٹری ویڈیو بھی دکھائی جس میں واقعی گاڑیاں دبئی کے سیلابی پانی میں بہہ رہی تھیں۔

اب دنیا میں وہی ممالک سروائیو کریں گے جو بارشوں کے سسٹم کو چینلائز اور کنٹرول کرنے والی ٹیکنالوجی، لاکھوں ایکڑز پہ کھڑے جنگلات کو سیٹلائیٹ سگنلز کے ذریعے آگ لگا دینے والی ٹیکنالوجی اور وائرس اور بیکٹیریا کے نام پہ بائیو لوجیکل اور کیمیائی ہتھیاروں کے توڑ کی ٹیکنالوجی رکھتے ہوں گے۔

جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا۔ اب ضرورت اس فوری اقدام کی ہے کہ بارشوں کے نتیجے میں سیلاب سے تباہ حال ہو جانے والے ان کروڑوں افراد کو مزید پریشانیوں سے بچایا جائے۔ اگر فوری طور پہ ان کے کچے پکے گھر دوبارہ تعمیر نہ کیے گئے تو سردی کا موسم سڑکوں اور ریلوے لائن پہ جھونپڑی ڈالے ان لو گوں میں مزید اموات کا سبب بنے گا۔ ظاہر ہے سردی کی شدت ان سیلاب زدگان چھوٹے چھوٹے بچوں، بوڑھوں اور دیگر میں بیماریوں کا سبب بنے گی جو بتدریج انھیں موت کی طرف لے جائے گی۔ خوراک اور ادویات کی قلت بھی اموات میں اضافہ کا سبب بنے گی۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ افواج پاکستان کو وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں سیلاب زدگان کے لیے ریسکیو اور ریلیف کا کام سرانجام دینے کے لیے تعینات کر دیا گیا۔ جتنا بڑا یہ سانحہ ہوا ہے اس سے ایک تربیت یافتہ قوت ہی نمٹ سکتی ہے اور دنیا بھر میں اس طرح کی تربیت عموماً افواج کی ہی ہوتی ہے۔

معاشرے کے ہر فرد، ہر طبقے، ہر گروہ، ہر تنظیم اور ہر ادارے کو بھی فوری طور پہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے آگے بڑھ کر کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ آپ جس شہر، دیہات یا علاقے میں رہتے ہیں۔ آپ کے علاقے کے قریب جہاں بارشوں نے تباہی مچائی ہے، آپ وہاں جا کر متاثرین کی انفرادی امداد کریں۔ یہ امداد پھٹے پرانے کمبل یا پرانے کپڑوں کی صورت میں نہیں بلکہ مالی طور پہ ہونی چاہیے۔

یہ کیا کہ اپنی ہی ذات کے لیے جیے جانا
تاریک ہوں راہیں تو انھیں روشن کر جاؤں
صدائے لاذات کی رات میں اکبر میاں
ٹمٹماتا ہی سہی چراغ بن کر جل جاؤں

اکبر شیخ اکبر اس بلاگ کے ذریعے حکومت، اداروں، پلانرز اور عوام کو بھی چند تجاویز دینا چاہے گا۔ دیکھیں، بارش کے پانی کی جو قدرتی گزرگاہیں صدیوں سے چلی آ رہی ہیں جب ان کے قدرتی راستوں میں تجاوزات کی صورت میں یا کسی ترقیاتی پراجیکٹ مثلاً سڑک وغیرہ کی صورت میں رکاوٹ ڈالیں گے تو وہ اپنا راستہ تبدیل کر انسانی آبادیوں کو نشانہ بنائے گا۔ آپ نے اربوں یا کروڑوں روپے کے فنڈز سے سڑک تعمیر کی لیکن اس بات کی ریسرچ و سٹڈی تک نہ کی کہ طوفانی بارشوں کی صورت میں پانی کہاں کہاں سے گزرتا ہوا دریا یا سمندر کی طرف جاتا ہے۔ آپ نے مطلوبہ تعداد میں اس سڑک کے نیچے پل ہی نہ بنائے۔ اگر بنائے تو ان کی اونچائی اور لمبائی بہت کم رکھی۔

سڑکیں تو حالیہ سیلاب کی نظر ہو گئیں۔ ظاہر اب نئے سرے سے اربوں کھربوں روپے کے فنڈز جاری ہو گے اور یہ سڑکیں دوبارہ بنیں گی۔ میری تجویز یہ ہے اس بار ان سڑکوں کے نیچے گزرنے والے سیلابی پانی کے پل زیادہ تعداد میں بنائے جائیں اور ان کی لمبائی اور اونچائی بہت زیادہ رکھی جائے تاکہ اگر مون سون کی طوفانی بارشیں مسلسل برسنے کی صورت میں سیلابی پانی بہت زیادہ ہو جائے تو وہ سڑک کے اوپر آ کے اپنا رخ انسانی آبادیوں کی طرف کرنے کی بجائے آرام سے ان پلوں کے نیچے سے گزر جائے۔ دوسرا سیلابی پانی کی قدرتی گزرگاہوں کا مکمل سروے کر کے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کی راہوں میں کسی قسم کی کوئی تجاوزات قائم نہ ہونے دی جائے۔ بارشوں کا پانی صدیوں سے جن گزرگاہوں سے ہو کر دریاؤں اور سمندر میں جا گرتا ہے ان راستوں کو ہر قیمت پہ بحال کیا جائے۔

دیکھیں، لوگ بارش کے پانی کی قدرتی گزرگاہوں پہ کچے پکے گھر بنا لیتے ہیں یا مٹی ڈال کے وہاں کھیتی باڑی شروع کر دیتے ہیں۔ اب بارش کا سیلابی پانی اپنے قدرتی راستے میں پیچھے سے تو فلو میں آ رہا ہوتا ہے لیکن جہاں فصلوں یا مکانوں یا بغیر پلاننگ کے نئی تعمیر ہونے والی سڑک سامنے رکاوٹ بن جاتی ہے تو وہ اپنا رخ بدل کر آبادیوں کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ سال میں کئی مرتبہ ڈرون کیمروں کے ذریعے بارش کے سیلابی پانی کے قدرتی راستوں کی مانیٹرنگ کی جائے کہ آیا وہاں تجاوزات تو قائم نہیں کی جا رہیں۔ اگر ایسا ہو رہا ہو تو فوری طور پہ وہ تجاوزات ہٹا کے ذمہ داروں کو سزا بھی دی جائے تاکہ وہ دوبارہ اس جرم کے مرتکب نہ ہوں۔

پورے ملک میں ریلوے لائن کو لوہے، بجری اور سیمنٹ سے بنائے گئے پلرز پہ بچھایا جائے۔ اس سے طوفانی بارشوں کے باوجود ریلوے ٹریفک متاثر نہیں ہو گی۔ یاد رکھیں، زمین پہ بچھی ریلوے لائن بھی زیادہ مقدار میں آنے والے سیلابی پانی کو روک کر ڈائیورٹ کرتی ہے جس سے وہ اردگرد کے دیہاتوں کا صفایا کرتے ہوئے شہروں میں بھی داخل ہو جاتا ہے۔

سارے ملک میں بجلی کا نظام لوہے یا سیمنٹ کے کھمبوں سے منتقل کر کے انڈر گراؤنڈ کر دیا جائے اس سے آندھیوں یا طوفانی بارشوں کے باوجود بجلی کی سپلائی برقرار رہے گی۔ سارے ملک میں شہروں کے اندر سڑکوں کے دائیں بائیں بارش کے پانی کی نکاسی کی نالیاں لازمی بنائیں اس سے بارش کا سیلابی پانی مکانوں، دکانوں اور مارکیٹوں میں داخل ہونے کی بجائے اپنے مخصوص راستوں کے ذریعے باہر چلا جائے گا۔

جولائی، اگست 2022 کی مون سون بارشوں سے آنے والی حالیہ تباہی کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے پورے ملک کے سیوریج سسٹم کو آئندہ پانچ سو سال کی ضرورت کے مطابق نئے سرے سے ڈیزائن اور تعمیر کیا جائے۔ سیوریج سسٹم کے لیے پرائیویٹ فیکٹری میں سیمنٹ، بجری اور لوہے کے تاروں سے تیار کیے جانے والے پائپ بنانے والے ایک کاریگر نے راقم کو بتایا تھا کہ سیوریج سسٹم بچھانے کے سرکاری پراجیکٹس کے بعض ٹھیکیدار ان کے پاس آ کر کہتے ہیں کہ اگر آپ پائپ ہزار روپے میں تیار کر کے دیتے ہو تو ہمیں پانچ سو روپے کا دو بھلے اس میں لوہے کے تاروں کی تعداد اور سیمنٹ کی مقدار کم کر دو۔ ”سرکاری ٹھیکیداروں کے کہنے پہ ہم ان پائپوں میں لوہے کے تاروں کی تعداد اور بجری سیمنٹ کی مقدار کم کر دیتے ہیں جس سے یہ بہت تھوڑے عرصے کے اندر سیوریج سسٹم کے اندر گل سڑ جاتے ہیں“ اس کاریگر نے کہا۔

دو دن پہلے راقم واک کے لیے پارک گیا تو میونسپل کارپوریشن بہاول پور کے ایک افسر بھی واک کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ان سے کہا، جناب! حالیہ مون سون بارشوں کے دوران پورے بہاول پور شہر کا سیوریج سسٹم کریش ہو گیا ہے۔ کہنے لگے ”پہلے ہم شہر کے سیوریج سسٹم کی مستقل صفائی کے لیے ڈیڑھ سو ملازمین ڈیلی ویجز بنیاد پہ ہائر کرتے تھے۔ پھر لاہور سے ایک بڑے افسر نے حکم دیا کہ ان ملازمین کی ہائرنگ روک دی جائے۔ اب جب سیوریج سسٹم کی صفائی کے لیے مطلوبہ ملازمین ہی نہیں تو پانی تو باہر آ کر سڑکوں اور گلیوں میں ٹھہرے گا“ ۔

پھر کہنے لگے ”شیخ صاحب! میں جنرل پرویز مشرف کا حامی نہیں لیکن اس شخص نے ایک بہترین بلدیاتی نظام دیا تھا۔ اس نے بلدیاتی اداروں کو اتنا خود مختار اور طاقتور بنا دیا تھا کہ اس دور میں شہر میں اس طرح کے مسائل کم ہی نظر آتے تھے۔ اب جب تک جنرل پرویز مشرف والا بلدیاتی نظام بحال نہیں ہوتا شہر اس طرح کے مسائل سے دوچار ہوتا رہے گا“ ۔

یہاں راقم حکومت پاکستان سے درخواست کرے گا کہ جہاں آپ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے سیلاب متاثرین کو فی خاندان پچیس ہزار روپے کی امداد دینے جا رہے ہیں وہاں جن لوگوں کی فصلیں، دکانیں اور کاروبار سیلاب کی نظر ہو گئے اور وہ تہی دامن، بے روزگار اور تباہ حال ہو کر بیٹھ گئے وہاں انھیں دوبارہ سے برسر روزگار بنانے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ مالی امداد دی جائے۔ اسی طرح موسم سرما شروع ہونے سے پہلے پہلے گھروں کی تعمیر کے لیے بھی ان کی امداد کی جائے۔ سیلاب زدگان کے لیے افواج پاکستان جو ریسکیو اور ریلیف کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں، اس کو بھی سراہا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments