قافلہ کا جشن آزادی پڑاؤ اور سید فخرالدین بلے کی شاہکار نظم ”مٹی کا قرض“ ( 5 ) پانچویں قسط


داستان گو : ظفر معین بلے جعفری
آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر

پر ابھی داد و تحسین اور واہ واہ، سبحان اللہ، کیا کہنے کا سلسلہ جاری تھا اور اس سے قبل کہ فرمائش کے مطابق سید فخرالدین بلے صاحب اپنا کچھ مزید کلام عطا فرماتے اچانک احمد ندیم قاسمی صاحب نے گفتگو کا آغاز فرما دیا اور چند ایک ایسے واقعات بیان فرمائے کہ جو حاضرین محفل کے لیے حیران کن تھے۔ قاسمی صاحب نے بیان فرمایا کہ جب عہد آمریت میں انہیں قید کر لیا گیا اور میں نے قید خانے میں بھی لکھنے پڑھنے کا عمل جاری رکھا ہوا تھا تو ایک دن اچانک سید فخرالدین بلے صاحب مجھ سے ملنے پہنچ گئے۔

فخرالدین بلے صاحب اپنے ہمراہ دو ٹفن کیرئیر لے کر آئے تھے اور دونوں انہوں نے ضابطے کے مطابق قید خانے کے اعلی افسر کہ جن سے بلے صاحب سے پہلے سے جان پہچان بھی تھی کو دے کر کہا کہ ان میں سے ایک آپ تسلی کر کے احمد ندیم قاسمی صاحب کو بھجوا دیں اور دوسرا ہم دونوں بیٹھ کر کھا لیتے ہیں اور میں آپ کے ساتھ کھانا کھا کر پھر اصل مقصد کی طرف آؤں گا اور وہ یہ کہ میں احمد ندیم قاسمی صاحب سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔

اس طرح فخرالدین بلے صاحب نے کھانے کی فراہمی کے ساتھ ملاقات کو بھی یقینی بنا لیا جو کہ اس وقت کے حالات میں ہرگز بھی آسان نہیں تھا۔ جب فخرالدین بلے صاحب مجھ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تو ظاہری سی بات ہے مجھے حد درجہ حیرت ہوئی، تعجب ہوا۔ سید فخرالدین بلے صاحب نے خیریت دریافت کی، مزاج پرسی کی۔ مجھ سے کہ آپ کو دیکھے ہوئے بہت روز ہو چکے تھے اور بس آپ کس دیکھنے اور ملنے آ گیا تھا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ بلے صاحب کے ہر ہر انداز اور رویے سے محبت ٹپک رہی تھی۔

انہوں نے مجھے اپنا خیال رکھنے کی ہدایت دی اور مجھ سے ماہنامہ ”فلاح“ لاہور کے لیے (کہ جس وہ بانی مدیر اعلی تھے ) تازہ ترین افسانہ بھی لکھنے کے لیے کہہ دیا۔ تمام شرکائے قافلہ، حاضرین محفل محو سماعت تھے اور قاسمی صاحب پر نظریں جمائے ان کے بیان کو ایسے سن رہے تھے کہ جیسے احمد ندیم قاسمی صاحب منظر ہوں اور وہ سب کے سب ناظر۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے مزید فرمایا کہ بحیثیت سرکاری ملازم یا پبلک سرونٹ کے فخرالدین بلے صاحب کا اس دلیرانہ انداز میں مجھ سے ملنے کے لیے آنا یقیناً ان کے بے باک، نڈر اور دبنگ افسر ہونے کا ثبوت تھا۔

قاسمی صاحب نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ فخرالدین بلے صاحب میرے لیے چند تحائف بھی لائے تھے جو میری نظر میں بہت قیمتی ہیں اور وہ تھے لکھنے کے لیے کاغذوں کے دس بارہ دستے، چار پانچ قلم اور نیلی اور کالی ایگل کی روشنائی کی بڑی بڑی تین چار شیشیاں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے کہا کہ دوران ملاقات تو فخرالدین بلے صاحب نے کمال ضبط اور حوصلے کا مظاہرہ فرمایا لیکن تین روز میں افسانہ مکمل کرنے کی تاکید فرمائی اور بوقت رخصت مجھے غمگین نظر آئے۔

اور ٹھیک چار روز بعد اسی دلیرانہ انداز میں مجھ سے میرا تازہ ترین افسانہ وصول کرنے اور چند ہی دنوں میں جب افسانہ شائع ہو گا تو فخرالدین بلے صاحب نے مجھے قید خانے میں ہی ماہنامہ فلاح لاہور کا وہ شمارہ بھی خود دینے کے لیے تشریف لائے کہ جس میں افسانہ اشاعت پذیر ہوا تھا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے فرمایا کہ ہم جیسے قیدیوں سے قید خانے میں رابطہ کرنا یا ہم سے ملنے کے لیے آنے کو اتنا سہل مت سمجھیے یہ بہت دشوار گزار مرحلہ ہوتا تھا اور اس کے نتائج حد درجہ بھیانک بھی ہو سکتے تھے۔

اس کے بعد احمد ندیم قاسمی صاحب نے فخرالدین بلے صاحب کی مزاحمتی شاعری پر بھی اظہار خیال فرمایا اور اپنی بات کو سید فخرالدین بلے صاحب کے اس شعر کے ساتھ مکمل فرمایا

دماغ عرش پہ ہیں اور چڑھی ہوئی آنکھیں
ابھی نوشتہ ء دیوار کون دیکھے گا؟
(سید فخرالدین بلے )

قاسمی صاحب کا خطاب ہونے پر برادر محترم ڈاکٹر اجمل نیازی نے سید فخرالدین بلے صاحب سے گزارش کی کہ وہ اپنی شاہکار نظم مٹی کا قرض عطا فرمائیں۔ اس پر قاسمی صاحب نے باور کروایا کہ ان کی فرمائش ہے۔

مٹی کا قرض۔ سید فخرالدین بلے
اس دھرتی کی ہر شے پر ہے اس مٹی کا قرض
میرے لئے ہے فرض سے پہلے اس مٹی کا قرض
کیوں نہ دھرتی سیوا کر کے خون پسینہ بوئیں
ممکن ہے کچھ کم ہو جائے اس مٹی کا قرض
اک مدت سے دیکھ رہی ہیں میری بھیگی آنکھیں
بڑھ جاتا ہے جب مینہ برسے اس مٹی کا قرض
پیا ملن کو مانگ رہی ہے دھرتی ہار سنگھار

کم کر دیں گے سبز دوشالے اس مٹی کا قرض
میرے لئے جب بار امانت ہے شانوں پر سر
سر سے میرے کیسے اترے اس مٹی کا قرض
ارض وطن سے پوچھو ہم سب ہیں کب سے مقروض
پنجند نے تو اب مانگا ہے اس مٹی کا قرض
جہل خرد کے اندھیاروں میں گھٹ تو سکتا ہے
پلکوں پہ جلدیپ سجا کے اس مٹی کا قرض
قوم کو گروی رکھنے والو، خوب چکایا ہے
مٹی کا کشکول بنا کے اس مٹی کا قرض
روز و شب مقروض ہیں میرے، سانسیں تک مقروض
مجھ کو تو ورثے میں ملا ہے اس مٹی کا قرض
جیتے جی ہے اس مٹی کا قرض چکانا مشکل
بڑھ جائے گا قبر میں جا کے اس مٹی کا قرض
سید فخرالدین بلے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments