ادب میں تراجم کی تاریخ اور اہمیت


زبانوں کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ زبانوں کے تراجم اپنی اہمیت کے اعتبار سے تین ادوار میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ پہلا دور، دور قدیم ہے۔ یہ وہ دور تھا جب انسانوں نے غاروں سے نکل کر دریاؤں کے کنارے بستیاں بسانی شروع کیں تھیں۔ اس دور میں ایسی ہی دیگر بستیوں کے مکینوں سے رابطے کے لیے ان کو ایک دوسرے کی بولی سمجھنے کی ضرورت تھی۔ دنیا کی سب سے پہلی تہذیب، سمیری، تہذیب تھی جو 4500 سے 4000 قبل مسیح میں (میسی پوٹیمیہ کے علاقے ) دریائے فرات اور دجلہ کے ڈیلٹا پر آباد ہوئی۔

دنیا کی یہ اولین آبادی 40000۔ 80000 نفوس پر مشتمل تھی جو 12 شہری ریاستوں میں تقسیم تھی۔ یہ لوگ عبید (قدیم سمیری زبان کا لفظ) کہلاتے تھے۔ ان لوگوں نے زراعت، تعمیرات، مویشی پروری، برتن سازی اور حتٰی کہ بیئر کشید کرنے کے ہنر کو رواج دیا۔ اس تہذیب کے لوگوں نے مختلف طریقے سیکھنے، نوادرات حاصل کرنے اور تجارت کی غرض سے وادی سندھ، مصر، موجودہ اومان اور افغانستان تک کے علاقوں کے سفر بھی کیے۔ ان کی اپنی زبان سمیری ہی تھی جو، کنیا فارم، طریقہ سے لکھی جاتی تھی۔

یہ زبان رفتہ رفتہ 2000 قبل مسیح تک قدیم عکادی زبان میں تبدیل ہو چکی تھی۔ قدیم سمیری زبان 3100 سال قبل مسیح میں اپنے عروج پر تھی۔ تحریر کو وجود میں لانا سمیریوں کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ جو اس وقت بادشاہ کے مندر کی آمدن سے لے کر کسانوں کے مالیے کے حسابات تک کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ دنیا کا سب سے پہلا ضابطہ حیات بھی سمیریوں نے ہی لکھا تھا۔ جو مٹی کی لوح پر لکھا دریافت ہوا ہے۔ ان لوگوں نے وسیع پیمانے پر زبان اور ادب کو تخلیق کیا۔

سمیریوں کے پاس لکھے ہوئے لٹریچر کا ایک خزانہ تھا جس کے چند آثار ہی پائے ہیں۔ مگر اس وقت کا ادب زیادہ تر شاعری پر مشتمل تھا۔ اور منظوم ہوتا تھا۔ معلوم تاریخ کا پہلا ترجمہ گیلگامش نامی نظم کی صورت میں سمیری آثار قدیمہ سے دریافت ہوا ہے۔ یہ نظم قدیم سمیری زبان سے عکادی میں ترجمہ ہوئی تھی۔ تاریخ یہ تصدیق کرتی ہے کہ گیلگامش نامی بادشاہ سمیر میں 2700 قبل مسیح میں سب سے پہلے قائم ہونے والی کش خاندان کی باقاعدہ حکومت کا پہلا فرماں روا تھا۔

جو عرک میں قائم ہوئی۔ یہ بادشاہ دیگر فنون کو فروغ دینے کے علاوہ فن تحریر کو فروغ دینے کی وجہ سے مشہور ہوا۔ EPIC OF GILGAMESH (گیلگامیش کا عروج) نامی نظم ترجمہ ہونے کی وجہ نہ صرف اس فرماں روا کا نام قدیم تاریخ میں زندہ ہے بلکہ اس سے متاثر ہو کر رومی و یونانی تاریخ اور انجیل میں موجود دیومالائی کہانیوں کا جنم بھی ہوا۔ مثال کے طور پر اس طویل نظم کا اہم حصہ ایک عظیم سیلاب کا ذکر ہے۔ آنے والے زمانے میں یہی روایت عہد نامہ قدیم میں نوح کی کہانی کی صورت میں بھی ملتی ہے۔ یہ نظم بارہ حصوں پر مشتمل ہے جس میں بادشاہ کے مافوق الفطرت کارناموں کا ذکر ملتا ہے۔

ترجمے کی تاریخ کا دوسرا دور 500 سال قبل مسیح سے 1500 سال بعد مسیح کا عرصہ ہے۔ 500 قبل مسیح میں بدھ بھکشؤوں نے گوتم بدھ کے اقوال کو قدیم ہندی زبان سے سنسکرت میں ترجمہ کیا۔ یونان کی تاریخ کا سنہری دور بھی یہی عرصہ ہے جس میں سائنسی روایت قائم ہوئی۔ جس میں مشہور سائنسدانوں، فلسفیوں اور ماہرین طب کی تحقیق قدیم یونانی زبان سے لاطینی میں ترجمہ ہوئیں۔ ان میں سقراط، بقراط، ارسطو، اور افلاطون اہم نام ہیں۔ بعد میں یہی تراجم انگریزی میں ترجمہ ہوئے۔

دور مسیح سے 1000 بعد مسیح کا دور مشرق وسطیٰ میں مذاہب کے عروج کا دور ہے۔ اب عبرانی زبان ارتقا ٔ پذیر ہو کر عربی زبان بن چکی تھی جو اپنے اندر وسعت کشادگی اور وسیع ترین ذخیرہ الفاظ رکھتی ہے۔ یونانی اور شامی زبان میں لکھی گئی کتب کا ترجمہ عربی میں ہونے کی سب سے اہم مثال GREECO۔ ARABIC MOVEMENT ہے۔ جس کا ایک مظاہر عباسی خلفا ٔ کا قائم کردہ دارالحکمت ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں قائم ہونے والے اس ادارے میں فلسفے، طب، فلکیات، ریاضی اور سائنس کے علاوہ دیگر علوم کی متعدد کتب کا تراجم یونانی اور شامی زبان سے عربی زبان میں کیے گئے۔

یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ انہی تراجم کی وجہ سے مسلم تہذیب کا ایک ایسا دور شروع ہوا جو 800 بعد مسیح سے 1300 بعد مسیح تک چلا۔ اس 500 سالہ عرصے میں ابن سینا، البیرونی، الرازی، الکندی، الفارابی، ابن رشد، ابن الہیثم اور ابو حمید غزالی کے علاوہ متعدد نامور سائنسداں، طبیعات داں، مورخ اور فلسفی پیدا ہوئے۔

تراجم کی تاریخ کا تیسرا دور گزشتہ پانچ سو سالہ دور ہے۔ اس دور میں تراجم کی اہمیت ادب، معاشیات، معاشرتی علوم اور فلسفے کے حوالے سے ہے۔ اس دور میں دنیا ایک عالمگیر بستی میں تبدیل ہوئی ہے۔ مختلف قوموں، سماجوں اور تہذیبوں کی زبانیں جانے بغیر ان سے رابطہ ممکن نہ تھا۔ اور اقوام کے مابین روابط کے بغیر گلو بل ویلج کا تصور ممکن نہیں ہے۔ گزشتہ دو سو برس میں معاشیات کی کل ترقی زبان کی محتاج تھی اور آج بھی ہے۔

مثال کے طور پر آج اگر چین کی مصنوعات دنیا بھر کے شہروں میں موجود ہیں تو ایسا اس وقت ہوا جب تیس برس پہلے چینی حکومت نے انگریزی سیکھنے بولنے اور اپنی مصنوعات کا لٹریچر انگریزی میں ترجمہ کرنے کی اجازت دی۔ اب چینی مصنوعات کے ساتھ لٹریچر، انگریزی کے ساتھ ہر اس زبان میں دستیاب ہے جس ملک میں چین وہ اشیا ٔ برآمد کرتا ہے۔ یہی صورت حال ہندوستان، جاپان، کوریا، بنگلہ دیشی اور ویتنام کی مصنوعات کی ہے۔ اس کے انفارمیشن ٹیکنالوجی غیر ادبی ترجمے کا ایک موثر ذریعہ بن چکی ہے۔

اسی دور میں ادب کے فروغ کے حوالے سے تراجم نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ روسی، جرمن، عربی، فارسی، چینی، جاپانی، انگریزی اور ہندی ادب کے تراجم نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ پڑھنے والے کا دنیا کو دیکھنے کا نقطہ نظر تبدیل کرتے ہیں۔ انسان یہ جان کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک، معاشروں اور تہذیبوں میں تفاوت ہونے کے باوجود انسانوں کے دکھ اور سکھ، خوشی اور غم کے مآخذ، جذبہ محبت و ایثار اور احساس و ہمدردی کے جذبات کس قدر یکساں ہیں۔

اس سے زیادہ تراجم کی اہمیت کیا ہوگی کہ تراجم کے بغیر الہامی مذاہب مقامی رہتے، نگر نگر میں وسعت پذیر نہیں ہو سکتے تھے اور دنیا کی آبادی کا 80 فی صد حصہ آج کسی نہ کسی مذہب کا پیروکار ہے، الہامی کتب کے تراجم کے بغیر ایسا ممکن نہ ہوتا۔ چین میں آج بھی جب تک کسی لکھاری کو سات زبانوں پر عبور حاصل نہ ترجمہ نہیں کر سکتا۔ مگر اس سب کے باوجود مترجم کو آج بھی وہ اہمیت حاصل نہیں جس کا وہ حقدار ہے۔ مترجم نہ صرف دو تہذیبوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ بلکہ ایک نئی زبان میں نیا ادب بھی تخلیق کرتا ہے۔ اس حوالے سے مترجم کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔

اکادمی ادبیات پاکستان مختلف زبانوں کے تراجم کے فروغ کے لیے گزشتہ چند برس سے کام کر رہی ہے۔ جس کے لیے چیئرمین اکادمی ادبیات اسلام آباد مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اکیڈمی اپنی تنظیم میں ترجمے کا ایک علیحدہ شعبہ کھولے جہاں پر تراجم پر مشتمل ادب تخلیق ہو۔ یہ یقیناً پاکستان کی ادبی فضا میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments