نیدر لینڈز میں سیلاب سے نمٹنے کا بہترین نظام


برمنگھم سے ہماری پرواز ایمسٹرڈیم کے اسکپول ائرپورٹ پر اتری۔ یہ ائرپورٹ سطح سمندر سے سوا تین میٹر نیچے ہے۔ اس کا شمار دنیا کے ایک درجن مصروف ترین ائرپورٹس میں ہوتا ہے۔ ایمسٹرڈیم دارالحکومت ہے لیکن دفاتر سرکار یہاں سے 65 کلومیٹر دور شہر دی ہیگ میں واقع ہیں جہاں اقوام متحدہ کی عالمی عدالت اور عالمی ثالثی کے مراکز بھی ہیں ہیگ کا اپنا ائرپورٹ روٹرڈییم تو سطح سمندر سے ساڑھے چار میٹر نیچے ہے۔

ایمسٹرڈیم کی وجۂ تسمیہ وہ ڈیم ہے جو دریائے ایمسٹیل پر تیرہویں صدی میں بنایا گیا تب ہی سے یہ پر رونق اور زندگی سے بھرپور شہر آباد ہو گیا جو ڈچ عہد زریں میں دنیا کے اہم ترین شہروں میں گنا جاتا تھا۔ تاریخ میں یہ نہیں مذکور کہ اس ڈیم کی تعمیر پر کتنی سیاست کی گئی اور کس نے ڈیم فنڈ کے نام پر عوام کی جیبوں میں نقب لگائی۔

سرینامی باشندے

ایمسٹرڈیم میں ہمارے میزبان نے مہربانی کر کے ائرپورٹ پر ٹیکسی بھجوا دی تھی۔ جس کے ڈرائیور ادھیڑ عمر باریش ناصر علی تھے۔ ان کا لہجہ سن کر ہمارے منہ سے بے اختیار نکل گیا ”بہاری ہیں کیا؟“ نہیں ہم سری نامی ہیں ہمارے پر دادا بہاری تھے۔ ناصر صاحب سے ہمیں پتہ چلا کہ انیسویں صدی کے وسط میں جب لاطینی امریکہ میں غلامی کا خاتمہ ہونے لگا تو برطانیہ، ہالینڈ وغیرہ نے ہندوستان سمیت مختلف کالونیوں سے انڈینچرڈ یا معاہداتی مزدور منگوا لئے۔ ویسے تو ان مزدوروں کو جھوٹے سپنے دکھا کر کافی، گنے، کپاس اور کوکوا کی زراعت میں سخت مشقت کے لئے لایا گیا تھا لیکن کم از کم یہ ہندوستان کی قحط سالی سے مرنے سے بچ گئے۔ ان کی کئی نسلیں سری نام میں ہی پلی بڑھیں پھر جب 1975 ء میں سری نام آزاد ہوا تو نیدرلینڈز نے اختیار دیا کہ جو افراد چاہیں ڈچ شہریت اختیار کر سکتے ہیں اس طرح یہ مختلف النسل، مختلف اللسان اور متفرق عقائد کے حامل افراد یہاں آ کر بس گئے اور اب ہر جگہ بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔


سمندر سے زمین چھین کر بنایا ہوا ملک

اس ملک کا ایک تہائی رقبہ سمندر کی زمین حاصل (ری کلیم) کر کے آباد کیا گیا ہے۔ لینڈ گریبنگ کا یہ سلسلہ چودھویں صدی سے مسلسل جاری ہے۔ اگر آپ لندن یا ڈبلن میں بار بار پڑنے والی بارش سے تنگ رہتے ہیں تو خبردار! ایمسٹرڈیم میں ان دونوں شہروں سے زیادہ بارش پڑتی ہے۔

میوزیم

ایمسٹرڈیم میں اتنے سارے عجائب خانے قریب قریب واقع ہیں کہ ان کی تفصیل بیان کرنے کے لئے کئی کتب لکھی جا سکتی ہیں۔ عظیم مصور وان گاف کا گھر بھی شائقین کے لئے دلچسپی کا باعث بنتا ہے۔ یہودی بچی این فرینک جس کی لکھی ہوئی ڈائری بہت مشہور ہے کا گھر بھی اسی محلے میں ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جب نازی جرمنی نے نیدرلینڈز پر قبضہ کر لیا تھا تو یہودیوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گئے جس کی کئی یادیں یہاں نمائش پر رکھی گئی ہیں۔ ہمیں میری ٹائم میوزیم اور ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا سابقہ دفتر بالخصوص مزیدار لگے۔ یہاں آ کر معلومات حاصل ہوئیں کہ جس وقت انگلستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا بھر کی تجارت اور معیشت پر قابض ہوتی جا رہی تھی اسی وقت اس کا مقابلہ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی سے تھا۔


پھولوں کے باغات

پھولوں کی عالمی تجارت میں ساٹھ فیصد حصے کے ساتھ نیدرلینڈز برآمد گل میں نمبر ایک ہے۔ ہم جون میں گئے تھے جب ٹیولپ کے مشہور باغات بند ہوتے ہیں یہ وہی جگہ ہے جہاں بھارتی فلم سلسلہ کا گانا دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے اور ہیلو برادر کا تیری چنریا دل لے گئی فلمائے گئے۔

سائیکلوں اور سائیکل چوروں کا ملک

اس ملک کی جتنی آبادی ہے اس سے کہیں زیادہ بائی سائیکلیں ہیں۔ سڑکوں پر تمام حقوق سائیکل سواروں کے لئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گھروں کے ساتھ عموماً کار کی پارکنگ نہیں ہوتی بلکہ علیحدہ سے خریدنی پڑتی ہے۔ کار رکھنا اور چلانا دونوں مشکل اور مہنگے شوق ہیں۔

یہاں کی آبادی سائیکل چوری کرنے میں بھی نمبر ایک ہے۔ روزانہ کئی سو سائیکلیں چوری ہوجاتی ہیں۔ یہ اس قدر عام جرم ہے کہ پولیس اس کی رپورٹ بھی نہیں کاٹتی۔ بازار میں کہیں بیٹھیں تو کوئی اجنبی شخص پاس آ کر کئی سو یورو مالیت کی سپورٹس بائیک صرف دس بیس یورو کی بیچنے کی کوشش کرتا ہے۔

بالغ تفریحات

اگلے زمانوں میں دبستان لکھنؤ کے وابستگان بازار حسن سے پھوٹتی اپنی تہذیب پر جس طرح نازاں ہوا کرتے تھے کچھ یہی حال باشندگان نیدرلینڈز کا بھی ہے بس یہ کوٹھوں کو اپنی ثقافتی جنم گاہ قرار نہیں دیتے بس جسم فروشوں کو تحفظ، توقیر اور صحت دینے کے دعویدار ہیں۔ کھلی چھت والی سیاحتی بسوں میں عربی سمیت اٹھارہ زبانوں میں جاری کمنٹری میں اس ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ کا ذکر ضرور ہوتا ہے جس کی حدود غیر واضح سی ہیں۔ میوزیم سے نکل کر کینال کی طرف بڑھتے ہوئے اچانک کسی بھی گلی میں انتہائی دبیز شیشوں کے اس طرف سر تا پا امراؤ جان ادا آپ کی نگاہوں سے ٹکراتی ہیں۔ اس موقع پر شیر خوار یا عنفوان شباب عمر کے بچوں کا ساتھ خوامخواہ خجالت کا باعث بن سکتا ہے۔


یہاں بھنگ، ماروانا قسم کی ہلکی نوعیت کی نشہ آور اشیاء صرف لائسنس شدہ مقامات پر جنہیں کافی شاپ کہتے ہیں استعمال کرنے کی اجازت ہے جس سے سیاحت کو بہت فروغ ملتا ہے۔ اس اجازت کا دائرہ اب تنگ سے تنگ ہوتا جا رہا ہے۔

مرکز شہر میں دنیا کی مقبول بیئر ہائینیکن کی بڑی سی بھٹی لگی ہے جس کا ٹور پہلے سے بک کرنا پڑتا ہے جو ہم نہیں کر سکے یقیناً ڈبلن میں گنس کے ٹور جیسا دلچسپ ہو گا ویسے ہم نے گنس کے درشن بھی اب تک نہیں کیے۔ ایمسٹرڈیم بیئر کی برآمد میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ ایک انتہائی تیز شراب ”جن“ جس کے متوالوں میں عمر رسیدہ انگریز خواتین سب سے پیش پیش ہیں کی دریافت اسی سرزمین پر ہوئی۔ ڈچ کریج (شجاعت) کے انگریزی محاورے کا مطلب بہادری کی وہ لہر ہے جو عالم کیف میں بدن میں دوڑ جاتی ہے۔ ڈچ ٹریٹ (دعوت) جسے پاکستان میں عموماً امریکن دعوت کہتے ہیں سے مراد وہ ضیافت ہے جس میں میزبان اور مہمان دونوں اپنے بل خوشی خوشی خود ادا کرتے ہیں۔

جہاں اتنے سارے عجائب گھر ہیں وہیں تین میوزیم جنس یعنی سیکس سے متعلق ہیں۔ ہم نے ان میں سے سب سے نرم والے جس میں داخلے کے لئے عمر کا بہت زیادہ ہونا ضروری نہیں تھا قدم رکھا۔ جنسی معاملات میں انسانی قوت متخیلہ کے بے مثال ثبوت یہاں قدم قدم پر حتی کہ بیت الخلاء میں بھی بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر بہت تسلی ہوئی کہ عربوں نے صرف سائنس اور فلسفے میں ہی اقوام مغرب کی قیادت نہیں کی بلکہ اور بھی میدان ہیں جن سے وابستہ نشانات قلم سے کشیدہ تصویروں، مجسموں اور طویل مخطوطات میں اب تک محفوظ ہیں۔

نیدر لینڈز اور سیلاب روکنے کا نظام

طوفانوں کے بیچوں بیچ بسی ڈچ قوم کو پانیوں سے لڑنے کا ایک ہزار سالہ تجربہ ہے۔ پچھلی نصف صدی میں اس مہارت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھتا گیا ہے۔ اب اس ڈچ نظام کو باقاعدہ دوسرے ممالک کو فروخت کیا جاتا ہے جن میں امریکہ، چین اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔

کچھ بورنگ اعداد و شمار

اپنی پونے دو کروڑ آبادی کو دریا برد ہونے سے بچانے کے لئے ڈیم، حفاظتی بند، پانی کے ذخائر اور دلدلی زمین کی صرف دیکھ بھال کے لئے نیدرلینڈز ایک ارب یورو سالانہ خرچ کرتا ہے۔ ملکی دفاع پر 2020ء تک کوئی سوا بارہ ارب لاگت آجاتی تھی جو مجموعی قومی آمدنی کے ڈیڑھ فیصد سے کم تھا لیکن یوکرین میں روسی جارحیت کے بعد یہ رقم بڑھ کر بیس ارب ہو چکی ہے۔ ترجیحات دیکھئے کہ تعلیم پر بیالیس، چوالیس ارب پھونک دیے جاتے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق یہ دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ملک ہے۔ کورونا کی وبا سے پہلے تک ڈچ اپنی 800 ارب ڈالر کی قومی آمدنی کا دس فیصد یعنی 80 ارب عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں جھونک دیتے تھے۔

نیدرلینڈز کی سیاحت سے یہ بات واضح ہوئی کہ سیلاب کو انسانی کاوشوں سے روکا جا سکتا ہے۔ اسے آفت زدہ لوگوں کے اعمال کی سزا قرار دینا سنگدلی، گھٹیا پن اور ظلم کی انتہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments