وزیرستان کی داستان


کہاں جاتا ہے کہ ریاست ماں ہوتی ہے لیکن یہ ہمارے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتے ہیں جنوبی وزیرستان ہو یا شمالی وزیرستان جہاں لوگ زندگی کے لیے ترس رہے ہیں جہاں بیس سال سے لوگ در بدر کے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اچھا تو یہ ہوتا کہ اتنے سال جنگ ہونے کے بعد ، معدنیات اور وسائل سے مالامال ہونے کی باوجود یہ علاقے اب جنت نظیر ہوتے۔ لیکن الٹا جنوبی وزیرستان کے منتخب ایم این اے علی وزیر کو دو سال سے جیل میں بند کیا ہوا ہے قصور صرف یہ ہے کہ اس کی بیان میں سختی ہے کیونکہ سچ کڑوا ہوتا ہے جو سننے والے کو برا لگتا ہے اسی طرح سخت الفاظ عمران خان اور نواز شریف سے لے کر ہر سیاست دان استعمال کرتے ہیں لیکن کچھ ہی دنوں میں ضمانت منظور ہوجاتی ہے اور علی وزیر کو پیشی پہ پیشی دیتے ہیں۔

وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کا ڈومیسائل پنجاب کا نہیں ورنہ اتنا عرصہ جیل میں نہ ہوتا۔ پاکستان کی عدالتیں مکڑی کا جالا ہیں جس میں کمزور پھنس جاتے ہیں اور طاقتور جالا کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ سیاست دان جب جیل جاتے ہیں تو وہاں بیماری کا بہانہ بناتے ہیں لیکن علی وزیر ایک ایسا قیدی ہے جس سے جج بیماری کا بہانا بنا کر اگلا تاریخ دیتے ہیں۔ دنیا کہاں تک پہنچ گئی لیکن ابھی تک ہم اندھیرے میں رہتے ہیں جہاں دنیا فائیو جی متعارف کروانے جا رہا ہے اور یہاں انٹرنیٹ تو دور کی بات جاز سگنل کئی مہینوں سے بند ہے۔

ہائیکورٹ میں کیس جیتنے کے باوجود اور وزیراعظم کے اعلانات کے باوجود انٹرنیٹ کو بند کر دیا گیا ہے جو سکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا رہی ہے کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے؟ ابھی تو جنوبی وزیرستان کو دو اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اپر وزیرستان اور لوئر وزیرستان لیکن ابھی تک عملی جامہ نہیں پہنایا گیا ہے بدقسمتی سے سارے دفاتر ایک سو بیس کلومیٹر دور ٹانک میں واقع ہیں۔ ڈی سی اور ڈی پی او ٹانک میں بیٹھ کر وزیر ستان کو کنٹرول کرتے ہیں۔

عدالتیں ٹانک میں موجود ہیں جو پیشی کے لیے وہاں جانا پڑتا ہے۔ ایک بوائز کالج اور ایک گرلز کالج صرف بلڈنگ کے شکل میں موجود ہیں اسی طرح سینکڑوں ہائی اسکول جو غیر آباد ہیں اور ٹیچر حضرات گھروں میں تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ یہاں کے ڈی ایچ کیو اسپتال ویران پڑا ہے سٹاف فری میں تنخواہیں لیتے ہیں۔ اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ وانا سب ڈویژن پانچ تحصیلوں پر صرف ایک نادرہ ہے جو لوگ رات وہاں گزار کر نمبر کا انتظار کرتے ہیں۔

اب کئی تحصیل کے لیے نادرا سسٹم منظور کیا گیا ہے اللہ کرے کہ صرف کاغذات میں نہ رہ جائے۔ کئی مہینوں سے انگور اڈا گیٹ بند ہے جو لوگوں کو شدید مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ جنوبی وزیرستان ایک وسیع علاقہ ہے جہاں میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج بنانے کی ضرورت ہے۔ پانی کی سطح دن بدن نیچے جا رہی ہے بڑے بڑے باغات خشک ہونے کی خدشات ہیں اور اربوں روپے کی نقصان کا اندیشہ ہے۔ جس کے لیے سمال ڈیمز بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ بد امنی اور ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنا چاہیے بدامنی کی وجہ سے کئی پولیس اور ایس ایچ او کو نشانہ بنایا گیا اور بدقسمتی سے ڈی پی او نے شہداء کے جنازے کو کندھا دینے کی زحمت نہیں کی کہ اس کے اہل عیال کو دلاسا دے سکے۔

گومل زام روڈ کئی مہینوں سے بند ہے جو عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے عوام جنڈولہ کے راستے چلنے پر مجبور ہیں۔ جو راستہ لمبا اور خرچہ زیادہ ہیں۔ ہمارے ہی اپنے گومل زام ڈیم سے بجلی نہ ہونے کے برابر ہیں چوبیس گھنٹوں میں صرف پانچ یا چھ گھنٹے آتے ہیں۔ ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس علاقے کی بہتری کے لیے کچھ کریں یہ علاقے بیس سال سے سخت مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں آئین اور قانون کے تحت اپنی حقوق دی جائیں جو ہم کسی سے بھیک نہیں مانگتے یہ سب مطالبات ہمارا آئینی حق ہیں ہم آخری سانس تک اپنے حقوق کے لیے لڑتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments