سیلاب ڈائری: ’جمع پونجی سیلاب لے گیا، جو بچ گیا وہ لٹیرے لے گئے‘


خیر پور ناتھن شاہ
پاکستان میں غیرمعمولی طویل مون سون کے دوران شدید بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ حکام کے مطابق اس سیلاب سے سوا تین کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔

بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے کی اگلی قسط میں جانیے کہ فرحت جاوید نے کوئٹہ اور ریاض سہیل نے پانی میں ڈوبے خیر پور ناتھن شاہ میں کیا دیکھا۔


’جمع پونجی سیلاب لے گیا، جو بچ گیا وہ لٹیرے لے گئے‘

فرحت جاوید، بی بی سی اردو، کوئٹہ

‘یہاں میری بیوی کا زیور تھا۔ اور یہاں اس شیلف میں نقدی تھی جس سے میں نے دوسری منزل کی دیوار بنانی تھی۔ سب کچھ چلا گیا۔’ کامران شہزاد نے نچلی منزل کے ملبے تلے دبی الماری کے پاس بیٹھ کر ہمیں بتایا۔

یہ چار دن پہلے کی بات ہے۔ نواں کلی کے علاقے میں رات گئے مقامی پولیس کے کنٹرول روم سے ایک خبر جاری ہوئی کہ کوئٹہ کے قریب موجود ولی تنگی ڈیم میں شگاف پڑ گیا ہے۔ گھروں کے مکین ننگے پاؤں، بے سرو سامانی کے عالم میں جان بچانے نکل پڑے۔

یہ رہائشی اپنی جان بچانے شہر کی جانب آئے تو اس دوران ان میں سے کئی گھر لوٹ لیے گئے۔

نواں کلی حالیہ سیلاب سے کوئٹہ کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہاں آبادی کے قریب ہی پانی کی گزرگاہ ہے جو طویل عرصے سے خشک تھی۔ گزشتہ ہفتے آنے والے سیلاب کے پانی نے اسی راستے پر موجود بیشتر گھروں کو مکمل طور پر زمیں بوس کر دیا۔ جو بچ گئے وہ رہائش کے قابل نہیں رہے۔

کوئٹہ

بی بی سی کی ٹیم یہاں پہنچی تو کامران شہزاد کو اپنے گھر کے ملبے کی جانب جاتا ہوا دیکھا۔

انھوں نے بتایا کہ جب نواں کلی میں خبر پھیلی کہ ولی تنگی ڈیم ٹوٹ رہا ہے تو لوگ گھروں سے بھاگ نکلے۔

‘ہم سب پہلے ہی سیلاب سے تباہ حال تھا۔ یہاں 26 گھر پانی میں بہہ گئے تھے۔ کوئی مدد کو نہیں آیا تھا۔ کئی لوگ ٹوٹے پھوٹے گھروں کے باہر تمبو لگا کر بیٹھے تھے۔ جب ایک اور سیلاب کی خبر آئی تو کسی کو ہوش نہیں رہا۔ ہر کوئی بیوی بچوں سمیت پل کی دوسرے طرف بھاگا۔ کچھ دیر بعد اعلان ہوا کہ یہ خبر غلط ہے۔’

انھوں نے بتایا کہ یہ خبر پولیس کے کنٹرول روم سے شیئر کی گئی تھی۔ کامران کے مطابق ‘لوگ جب اپنے گھر واپس پہنچے تو پتا چلا کہ چور ان کا بچا کھچا سامان بھی چوری کر گئے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم یہ افواہ کیسے اڑی، مگر یہاں سیلاب سے متاثر ہونے والوں کے لیے یہ بھی ایک عذاب تھا۔’

کامران شہزاد

کامران شہزاد

ایسے ہی واقعات 26 اگست کو بھی پیش آئے جب یہاں کے لوگ سیلابی ریلے کی زد میں آ گئے تھے۔ کامران کے مطابق کئی گھروں میں ڈاکہ ڈالا گیا۔

’ہم سیلاب میں پھنسے تھے۔ یہ لوگ کہتے کہ ہم مدد کرنے آئے ہیں۔‘

‘جو قیمتی سامان تھا وہ سیلاب لے گیا، جو بچ گیا وہ مدد کے بہانے لٹیرے لے گئے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ‘ہم اپنی پریشانی میں تھے۔ جب جان کا غم ہو تو مال کا غم نہیں ہوتا۔ وہ کہتے کہ ہم مدد کے لیے آئے ہیں ۔ وہ سامان اپنی گاڑیوں میں رکھتے تھے اور اس کے بعد روانہ ہو جاتے۔ ہم دیکھتے رہ جاتے کہ یہ ہمارے ساتھ ہیں۔ مگر وہ یہ سامان لے گئے اور بیچ دیا۔’

تاہم اس حوالے سے فی الحال پولیس کے پاس کوئی رپورٹ موجود نہیں ہے۔ البتہ پولیس نے ڈیم ٹوٹنے کی افواہ سے متعلق انکوائری کا حکم دیا۔

کوئٹہ

بی بی سی کے پاس موجود دستاویز کے مطابق حکومت بلوچستان نے 27-28 اگست کی درمیانی شب جاری ہونے والی فیک نیوز کی انکوائری کے لیے کمیٹی کی تشکیل کا نوٹی فکیشن جاری کیا ہے، جو یہ تحقیق کرے گی پولیس کے کنٹرول روم سے ایسا پیغام کیوں جاری کیا گیا۔

جب ہم کوئٹہ پہنچے تو جہاز میں، ایئرپورٹ پر، ہوٹل اور پھر نواں کلی میں کئی افراد سے بات ہوئی۔ یہاں ہر کسی کے پاس اس سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے متعلق بتانے کے لیے ایک کہانی تھی۔

ایک شخص نے بتایا کہ ان کے اہلخانہ ژوب میں ہیں اور وہ خود نوکری کی غرض سے کوئٹہ میں موجود ہیں۔ ‘جب سیلاب آیا تو میں پانچ دن تک اپنے اہلخانہ سے رابطہ نہیں کر پایا۔ فون چل نہیں رہا تھا اور سڑکیں اور پل ٹوٹ چکے تھے۔ پانچ دن تک مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ میرے گھر والے زندہ ہیں یا بہہ گئے۔ اور انہیں یہ علم نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں۔ کل میرے بھائی کا فون آیا تو پتا چلا کہ گھر ڈوب گیا ہے مگر جان بچ گئی ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

’مجھے کھانا نہیں خیمہ لے دو، میری بیٹیاں بے پردہ بیٹھی ہیں‘

سیلاب زدگان تک امداد پہنچنے میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟

سیلاب ڈائری: ’میری بیٹیوں کا جہیز بھی بہہ گیا‘

صوبائی دارالخلافہ کوئٹہ میں فون نیٹ ورکس تادم تحریر مکمل طور پر بحال نہیں ہو پائے۔ صوبے کے باقی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بھی مکمل طور پر بند ہیں جبکہ زیادہ تر متاثرہ علاقوں میں ریگولر فون کالز بھی نہیں کی جا سکتیں۔

بلوچستان کے بیشتر علاقوں کا زمینی رابطہ اب بھی ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہے۔ یہاں جھل مگسی، نصیر آباد، جعفر آباد، لسبیلہ، ہرنائی سمیت 32 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ ان علاقوں تک زمینی رسائی تقریبا ناممکن ہے جبکہ امدادی سامان کی ترسیل اور ریلیف ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہو رہی ہیں۔ ایک مقامی شخص نے بتایا کہ یہ سڑکیں اس طرح ختم ہوئی ہیں جیسے کبھی موجود ہی نہ تھیں’۔

‘کسی نے پانی کا گلاس بھی نہیں پوچھا’

کامران شہزاد

کامران شہزاد کا گھر مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے بیمار ہیں اور ان کی مدد کو کوئی نہیں پہنچا۔

’ہمیں ایک گلاس پانی تک نہیں ملا، نہ ٹینٹ ملا، ڈپٹی کمشنر اپنا نمبر دے کر گئے، ہم اس پر کال کرتے ہیں اور کوئی جواب نہیں ملتا۔ اب اوپر اللہ ہے اور نیچے یہ حکومت ہے۔ ‘

یہی شکایت ان سے کچھ ہی فاصلے پر گرے ایک اور گھر کے مکین بھی کر رہے تھے۔

تسلیم اختر نے روتے ہوئے بتایا کہ ان کی تین بہوؤں کا سامان اور زندگی بھر کی جمع پونجی پانی لے گیا ہے۔

‘میرے شوہر کی پینشن سے ہم نے یہ گھر بنایا کہ بڑھاپے کا سہارا ملے گا۔ مگر ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ میں صبح آئی تو یہاں چوکیدار سے پوچھا کہ میرا گھر کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ وہ اوپر جو سریے نظر آ رہے ہیں وہ آپ کا گھر ہے’، تسلیم نے اپنے گھر کی چھت پر بنے سریوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا۔

تسلیم اختر نے بتایا کہ وہ صبح سے شام تک یہاں بیٹھتی ہیں کہ شاید کوئی مدد کو آ جائے مگر ابھی تک کوئی نہیں آیا۔

تسلیم اختر

تسلیم اختر

‘لوگ آتے ہیں فوٹو بناتے اور پھر چلے جاتے ہیں۔ میں ویڈیوز بنا بنا کر تھک گئی ہوں۔ ہم وہ عورتیں ہیں جو کبھی گھر سے نہیں نکلیں اور اب کیمروں کے سامنے منہ دکھا رہے ہیں کہ ہماری مدد کی جائے۔ مگر کسی نے ایک گلاس پانی تک نہیں پوچھا۔’

انھوں نے کہا کہ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ حکومت کس کی ہے، انہیں صرف امداد چاہیئے۔ ‘وزیر اعظم عمران ہے یا شہباز، ہمیں کوئی غرض نہیں، ہمارے مدد کی جائے۔’

یہاں لوگوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں ٹینٹ مہیا کیے جائیں اور حکومت مالی مدد کرے۔

اس مقام سے کچھ فاصلے پر ہم ایک ریلیف کیمپ میں گئے۔ مردوں کے لیے نصب خیمے میں زمین پر درجنوں شہری اپنے ہاتھ میں شناختی کارڈ لیے بیٹھے تھے اور سامنے پولیس کے اہلکار ایک رجسٹر میں ان کی انٹری کر رہے تھے۔

علاقہ مکینوں نے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر کے گھر گرے ہیں۔ جبکہ پولیس اہلکار کے مطابق وہ اب تک 600 سے زائد افراد کے نام درج کر چکے ہیں جن کے گھر سیلاب میں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں۔

کوئٹہ

اسی کیمپ سے چند قدم کے فاصلے پر تین کمروں میں خواتین زمین پر بیٹھی تھیں۔ یہ بھی پولیس کے پاس اپنے کوائف جمع کرانے آئی تھیں تاکہ حکومت کی جانب سے انہیں کچھ امداد مل سکے۔ ان میں سے ایک نے ہمیں بتایا کہ انہیں کچھ نہیں ملا۔

‘ہمیں ایک ٹینٹ نہیں ملا نہ کوئی کیمپ لگا ہے۔ ہم وہیں گھر کے باہر بیٹھے ہیں۔ شام ہوتی ہے تو اندر ملبے میں چلے جاتے ہیں۔ اور کیا کریں؟ حکومت نے ابھی تک تو کچھ نہیں کیا، آگے کا کچھ پتا نہیں۔’

’چور کشتیوں میں آ کر لوگوں کا سامان لے جاتے ہیں‘

ریاض سہیل، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، خیر پور ناتھن شاہ

خیر پور ناتھن شاہ

ہم گاڑی سے جیسے ہی اترے کچھ لوگ نظر آئے جو نیوی والوں کی منت کر رہے تھے کہ پانی میں پھنسی ان کی رشتہ دار خواتین کو نکالنے میں مدد کی جائے۔

سندھ میں انڈس ہائی وے پر خیرپور ناتھن شاہ سے 6 کلومیٹر دور واقع نائچ گاؤں کسی جیٹی کا منظر پیش کر رہا تھا جہاں نجی کشتیوں، پاکستان نیوی اور آرمی کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن کی کشتیوں کی مدد سے خیرپور ناتھن شاہ اور آس پاس کے علاقوں سے لوگوں کو ریسکیو کیا جا رہا تھا۔

اس مقام سے آگے انڈس ہائی وے ایک دریا میں بدل چکی تھی جس نے خیرپور ناتھن شاہ، گوزو اور دیگر علاقوں کو اپنے اندر سمیٹ لیا تھا۔

تین روز قبل ضلعی انتظامیہ نے ایمرجنسی نافذ کر کے لوگوں کو نقل مکانی کے لیے کہا تھا جس کی وجہ سے رات کو جیسے بھگدڑ سی مچ گئی لیکن کئی خاندان ابھی نکلنے نہیں پائے تھے کہ سپڑیو بند سے پانی کی سطح بلند ہوئی اور لوگ پھنس کر رہ گئے۔

سندھ

انور باگڑی نے بتایا کہ وہ صبح سے نیوی والوں کے پاس چکر لگا رہے ہیں۔

’کہتے ہیں کہ ابھی کرتے ہیں، شام کرتے ہیں، وہاں خواتین بھی ہیں پھنسی ہوئی ہیں۔ جب ضلعی انتظامیہ نے اعلان کیا تو کچھ لوگ نکل آئے لیکن ہمارے کچھ لوگ وہاں ہی رہے گئے تھے۔ وہ سامان بھی نہیں نکال سکے تھے۔‘

ایدھی رضاکار اس باگڑی خاندان کو لیکر ان کی نشاندہی کیے گئے مقام پر روانہ ہو گیا۔ اس مقام پر صوبائی حکومت یا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو نکالنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ فشریز محکمے کی دو سفید موٹر بوٹس موجود تھیں لیکن وہ ریسکیو آپریشن میں شریک نہیں ہوئیں۔

ایک کشتی سے نظر ببر اور ان کی بیگم عابدہ ببر اترے جنھوں نے بتایا کہ جب پانی کی سطح بلند ہوئی تو وہ اس وجہ سے بھی نہیں نکل رہے تھے کہ گھر کی نگہبانی کون کرے گا۔

خیر پور ناتھن شاہ

پانی میں پھنسے جاوید سومرو نامی شخص سے ٹیلیفون پر میری بات کرائی گئی جو شہر میں کہیں موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ اس وقت نو افراد شہر کے ایک اونچے ہوٹل میں موجود ہیں اور ان کو ریسکیو کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے فضا میں ہیلی کاپٹر اڑتے دیکھا جو نیچے نہیں آیا۔

شام کے پانچ بجے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے بیٹے سعد ایدھی کشتی پر 10 کے قریب لوگوں کو ریسکیو کرنے کے بعد کنارے پر پہنچے۔

ابھی انھوں نے پانی کے دو گھونٹ ہی پیئے تھے کہ کئی لوگ ان کے پاس پہنچے جو کسی نہ کسی کی مدد کی درخواست کرنے لگے۔

خیر پور ناتھن شاہ

ایک شخص نے کہا کہ کچھ خواتین اور بچے کالج سے آگے پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کی رہنمائی کے لیے ایک نوجوان بھی کشتی میں سوار ہو گیا۔ ہم نے سعد ایدھی سے درخواست کی کہ ہمیں بھی ساتھ لے چلیں۔

کشتی پانی کو چیرتی ہوئی آگے بڑھی تو کچھ مقامات پر بجلی کی تار سے چند فٹ نیچے پانی موجود تھا۔

سعد ایدھی سے، جو اس کشتی کو چلا رہے تھے، میں نے پوچھا کہ ان کو کیا مشکلات پیش آ رہی ہیں تو انھوں نے بتایا کہ ’لوگ بہت ہیں، وسائل کم ہیں۔‘

شہر میں داخل ہوئے تو کچھ لوگ پیٹرول پمپ کی چھت پر موجود تھے۔ کچھ گھروں پر کھڑے تھے۔ سکول، ہسپتال، نادرا کی عمارت کا آدھا حصہ پانی میں گم تھا اور بازار تو مکمل طور پر پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔

خیر پور ناتھن شاہ

باگڑی خاندان کی خواتین تو نہیں ملیں لیکن کالج کے پاس نصف درجن کے قریب لوگ موجود تھے جو کشتی میں سوار ہوئے۔ راستے میں دیگر افراد نے بھی سوار ہونے کی درخواست کی۔ مزید دو افراد کو سوار کر لیا گیا۔ اب کشتی میں مزید لوگوں کی جگہ نہیں تھی۔

کشتی میں سوار ان افراد سے میں نے پوچھا کہ وہ پہلے کیوں نہیں نکلے تو ہر کسی کے پاس اپنی کہانی تھی۔ ایک نے کہا کہ اس کے بہنوئی نے کہا کہ کچھ نہیں ہو گا، پانی نہیں آرہا، اس لیے وہ نہیں نکلے۔ ایک نے کہا کہ مقامی رہنما نے یقین دہانی کرائی کہ خیرپور ناتھن شاہ نہیں ڈوبے گا۔

سعد ایدھی

سعد ایدھی

محمد خان نے بتایا کہ کچھ لوگ گھر میں چوری کے ڈر سے بھی نہیں نکلے۔ ’چور کشتیوں میں آ کر لوگوں کا سامان لے جاتے ہیں۔‘ شہر میں اس وقت کئی لوگ اپنے گھروں کی چوکیداری کر رہے ہیں۔

محمد خان نے بتایا کہ نجی کشتیوں والے 10-15 ہزار روپے لے رہے ہیں۔

خیرپور ناتھن شاہ 2010 کے سیلاب میں بھی متاثر ہوا لیکن حالیہ نقصان کی شدت اور وسعت اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ شہر کی بحالی میں ایک بڑا عرصہ درکار ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments