لندن سے ’چوری شدہ‘ گاڑی کراچی میں ضبط اور دو افراد گرفتار، مگر ’یہ کار یہاں پہنچی کیسے؟‘

محمد صہیب - بی بی سی اردو ڈاٹ کام


پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی جائیں تو وہاں آپ کو یوں تو ہر طرح کی گاڑی سڑکوں پر چلتی دکھائی دے گی لیکن گذشتہ کئی روز سے جس گاڑی کے سوشل میڈیا پر چرچے ہیں اس کی کہانی خاصی انوکھی ہے۔

کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے سے گذشتہ مہینے کی 30 تاریخ کو ایک غیر ملکی خفیہ ایجنسی کی اطلاع پر کسٹمز کے اہلکار ایک گاڑی کی تلاش میں تھے۔

اس حوالے سے کسٹمز میں درج ایف آئی آر کے مطابق انھیں ملنے والی اطلاع یہ تھی کہ گاڑی مبینہ طور پر لندن سے چوری ہونے کے بعد پاکستان لائی گئی۔

یہ کوئی عام کار نہیں بلکہ بینٹلے ملسین وی ایٹ آٹومیٹک ہے۔ کسٹمز کے مطابق اس وقت اس کی قیمت 30 کروڑ سے زیادہ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

اس گاڑی کی خفیہ نگرانی تو کافی عرصے سے جاری تھی تاہم جب 30 اگست کو اس گھر پر چھاپہ مارا گیا جہاں یہ گاڑی کھڑی تھی تو اس پر موجود سرمئی کپڑا اتارنے کے بعد علم ہوا کہ اس پر تو مقامی نمبر پلیٹ بھی لگی ہوئی ہے۔

’ایکسائز کے عملے کی ملی بھگت سے رجسٹریشن ہوئی‘

ایف آئی آر کے مطابق گاڑی کے چیسی نمبر کے ذریعے اس کی شناخت کی گئی اور اسے خفیہ اطلاع میں دیے گئے نمبر سے ملا کر اس کی تصدیق کی گئی جس کے بعد اسے ضبط کر لیا گیا۔

کسٹمز نے اس کار کی چوری کے الزام میں دو افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق کراچی میں کار کے مالک کا دعویٰ ہے کہ انھیں ایک دوسرے شخص نے یہ کار اس شرط پر فروخت کی تھی کہ وہ نومبر 2022 تک اس کے تمام قانونی دستاویزات پورے کروائیں گے۔

کسٹمز کا مزید کہنا ہے کہ کار کی چابی موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسے کار کیریئر کے ذریعے لفٹ کیا گیا۔

اس پورے واقعے میں شاید سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ کار قانونی دستاویزات نہ ہونے کے باوجود سندھ میں رجسٹر ہوئی۔ ایف آئی آر میں اس قانون کا حوالہ بھی دیا گیا جس کے مطابق ایسی کسی کار کی رجسٹریشن کے لیے وزارت خارجہ اور کسٹمز سے اجازت کے علاوہ تمام ڈیوٹی اور ٹیکسز کی ادائیگی درکار ہوتی ہے۔

ایف آئی آر میں یہاں تک کہا گیا کہ موٹر رجسٹریشن ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کی ملی بھگت کے ساتھ ایسا ممکن ہوا۔

اس گاڑی کی چھوٹی سی ویڈیو سوشل میڈیا پر خاصی مقبول ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں طرح طرح کے تبصرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس گاڑی کے برطانیہ سے پاکستان منتقل ہونے کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ اس پر نمبر پلیٹ کیسے لگی۔

’چوری کی کار‘ لندن سے کراچی کیسے پہنچی؟

اس حوالے سے حتمی تفصیلات تو تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی سامنے آئیں گی، لیکن ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ لندن سے چوری ہونے والی گاڑیاں پاکستان آ کیسے سکتی ہیں۔

اس حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاک وہیلز کے شریک بانی سنیل منج نے کچھ دلچسپ تفصیلات بتائی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ گینگ‘ کچھ اس طرح کام کرتا ہے کہ جہاں سے بھی گاڑی آتی ہے وہاں پہلے چوری رپورٹ نہیں کی جاتی کیونکہ جس ملک سے گاڑی نکل رہی ہے اور جس ملک میں آ رہی ہے دونوں میں اس کا سٹیٹس چیک کیا جاتا ہے کہ آیا اس کے کاغذات پورے ہیں اور کہیں یہ اُس ملک میں چوری شدہ تو نہیں ہے۔

ان کا خیال ہے کہ اگر یہ کار واقعی چوری کی ہوتی تو سسٹم میں درج ہونے کے باعث یہ بندرگاہ پر ہی ضبط کر لی جاتی۔

سنیل کے مطابق ’کار لندن میں تھی، جب تک یہاں (پاکستان میں) شفٹ ہوئی تو کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ چوری کی ہے۔ یہاں جب کار کلیئر ہوگئی تو لندن میں چوری کی اطلاع دی گئی تاکہ انشورنس کا دعویٰ ہوسکے۔‘

انھوں نے کہا کہ جو بھی گروہ یہ کام کرتا ہے وہ عام طور پر پہلے گاڑی دوسرے ملک منتقل کرتا ہے اور پھر جب اس ملک کی بندرگاہ پر گاڑی کلیئر ہو جائے تو اس کے بعد وہ اس ملک میں چوری رپورٹ کر دیتے ہیں اور پھر وہ ملک اس کی کھوج شروع کرتا ہے۔

سنیل منج کے مطابق یہ کوئی پہلا کیس نہیں بلکہ ایسی کئی گاڑیاں پاکستان میں رجسٹر ہوئی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ کار نان کسٹم نہیں تھی بلکہ کسی سفارتخانے کے کاغذات پر کلیئر ہوئی تھی۔ ’سفارتکاروں کو ڈیوٹی فری کار کی اجازت ہوتی ہے کہ جتنے برسوں کے لیے وہ قیام کریں گے اس کے لیے ڈیوٹی فری کار کی اجازت ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے حالات کے پیش نظر یہ بہت خطرناک بات ہے کیونکہ ان کاروں کے ذریعے کسی اصل مجرم تک پہنچنا بہت مشکل ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی میں سٹریٹ کرائم کی بڑھتی وارداتیں: ’کہاں سے 90 ہزار لائیں اور نئی بائیک خریدیں‘

آپ اپنی گاڑی کو چوری ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں؟

فلم کی شوٹنگ کے دوران چور ٹام کروز کی بی ایم ڈبلیو لے اڑے

جدید گاڑیاں صرف 10 سیکنڈ میں چوری کرنا ممکن

کسٹمز کی جانب سے پاکستان میں منتقل ہوتے وقت اس گاڑی کی قیمت چار کروڑ 14 لاکھ روپے سے زیادہ بتائی گئی ہے جبکہ موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق اس کی قیمت پانچ کروڑ 85 لاکھ روپے سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس پر عائد ڈیوٹی اور ٹیکسز کے بعد اس کار کی قیمت 30 کروڑ 74 لاکھ روپے سے زیادہ بنتی ہے۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پاکستانی ایک طرف اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، وہیں طنز و مزاح میں بھی اکثر پیش پیش ہیں۔

ایک صارف شمس خان نے لکھا کہ ’انھوں نے برطانیہ سے کیسے گاڑی پاکستان پہنچائی انھیں جواب دینا پڑے گا۔‘ عملقہ نامی صارف کا کہنا ہے کہ ’سوال یہ ہے کہ گاڑی لندن سے پاکستان آئی کیسے؟‘

ایک صارف نے کہا کہ ’پہلا پاکستانی ہے جو لندن سے چوری کر کے پاکستان لایا ہے، اس کو انعام دیا جائے ذلیل نہ کریں اس کو۔‘

اس ویڈیو میں لوگوں کو گاڑی کو دھکے دیتے دیکھا جا سکتا ہے جس پر صارفین یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ اسے دھکے کیوں دیے جا رہے ہیں۔

ایک اور صارف نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’لندن والے پورا برصغیر چوری کر کے لے گئے بھائی، یہ تو ایک گاڑی ہی لایا تھا۔‘

مگر اس پوری خبر کا خلاصہ ثاقب نے کچھ یوں کیا: ’کمال نہیں کے بینٹلے کار کوئی لندن سے اپنی پاکٹ میں ڈال کر پاکستان کا بارڈر کراس کر کے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں لے آتا ہے اور وہ گاڑی رجسٹر بھی ہو جاتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments