گھنشام داس کی دکان، میلے کچیلے بچے اور صاحب خان!


جیلس بازار لاڑکانہ میں اسکول کے بچے نعرہ حیدری یا علی کی صدائیں بلند کرتے ہوئے، پہلوان کی دی مفت تلوں کی پٹی کھاتے جا رہے تھے یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ ان اسکول کے بچوں کے پاس کچھ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس بچے آئے اور ان سے پوچھنے لگے کہ کیا ہمیں بھی یہ پٹی مفت میں یہ پہلوان دے گا یا صرف اسکول کے بچوں کو دیتا ہے۔ بچوں نے معصومیت سے جواب دیا نہیں چھٹی کے دن بھی بس یہ نعرہ لگاؤ تو پہلوان پٹیاں دیتا ہے یہ ساری گفتگو پہلوان سن رہا تھا اس نے ان میلے کچیلے بچوں کو اپنے پاس بلایا اور ان کو مسکرا کر بولا ایسی کوئی بات نہیں بچو بغیر نعرہ لگائے بھی یہ پٹیاں سب کے لیے ہیں۔

آپ سب بچے کہاں سے آئے ہو پہلے کبھی دکھائی نہیں دیے یہاں۔ بچوں نے جواب دیا کہ چاچا ہم کچے کے علاقے سے آئے ہیں ہمارا سب کچھ سیلاب بہا کر لے گیا اور ساتھ اسکول میں ہم نے پناہ لی ہوئی ہے۔ تلوں کی دکان تو گھنشام داس کی ہے مگر پہلوان اس کے مال کو مال مفت کی طرح بانٹتا پھر رہا تھا۔ پہلوان نے بتایا کہ میں بچپن سے اس دکان پر اپنے باپ کے ساتھ کام کر رہا ہوں میرا باپ بھی اسی طرح لوگوں میں مفت پٹیاں تقسیم کرتا تھا نہ کبھی گھنشام کے باپ نے میرے باپ کو منع کیا اور نہ ہی گھنشام نے کبھی مجھے۔ سیلاب سے متاثرہ یہ بچے جب واپس اپنے اسکول (پناہ گاہ) پہنچے تو وہاں موجود دوسرے بچوں کو بھی کہنے لگے کہ آؤ مفت کی پٹی کھانے پہلوان کے پاس چلو۔

حالیہ سیلاب نے ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور ہزاروں خاندانوں نے اسکولوں، سڑکوں، مزاروں، مسجدوں مندروں میں پناہ لی ہوئی ہے۔

اسکول میں رہنے والے سیلاب زدگان نہایت خستہ حالی کا شکار تھے یہاں چھت تو میسر تھی مگر کھانے کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ یہ اسکول بھی آپا خورشید کی مہربانی کا نتیجہ تھا جو دن میں ایک دو بار چائے بسکٹ بھی بھیج رہی تھیں مگر کھانے کی بہت تنگی تھی۔

چیزوں کے دام آسمانوں پر تھے۔ ٹپکتی چھتوں کے لیے پلاسٹک کے داموں کا تو نہ پوچھو بس۔ ہر شخص بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ علاقے کے ہندو باشندے بھی ان سیلاب زدگان کی مدد کرنے میں بڑھ چڑھ کر اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈال رہے تھے۔ ان سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے لیے ملک بھر سے خیراتی ادارے، سماجی تنظیمیں، اور کچھ انفرادی بنیادوں پر چندہ اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں۔ تمام دوسرے سیلاب زدگان کی طرح اس اسکول میں پناہ لیے متاثرین بھی بس اسی سوچ میں گم تھے کہ کیا یہ امداد انصاف کے ساتھ ان تک پہنچ پائے گی؟

کیونکہ گاؤں فقیر آباد کے صاحب خان جو ایک سیاسی کارکن ہیں اور ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں ان کے مطابق الیکشن 2018 کے دوران ایک ایم پی اے کو الیکشن جتوانے کے لیے ہم سیاسی طور پر اتنے جذباتی ہو گئے تھے کہ بھائی بھائی کا دشمن بن گیا تھا اور انتخاب کے بعد ہم گاؤں والے ایک دوسرے کے مخالفت میں اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ ایک دوسرے کی شادی تو دور کی بات ہم نے جنازوں پر بھی جانا چھوڑ دیا تھا۔ ایک دن جب ایم پی اے کے بیٹے کی خاص دعوت پر صاحب خان کراچی گئے تو کیا دیکھتے ہیں ایم پی اے صاحب اور ان کے مخالف امیدوار محفل موسیقی سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ شہد بھی نوش فرما رہے تھے۔ یہ دیکھ کر صاحب خان گاؤں واپس آئے اور تمام مخالفین سے معافی مانگ کر ساری روداد ان کو سنائی۔

ملک کا جو سیاسی منظر نامہ ہے اس سے ان متاثرین کو کچھ بے یقینی کی سی صورتحال کا سامنا ہے کہ اقتدار کے حصول کی جنگ میں مصروف ان لڑتے جھگڑتے سیاسی قائدین کی وجہ سے ان کو ملنے والی امداد بھی کہیں سیاست کی نذر نہ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments