ملکی تاریخ کی شدید بارشوں کے سندھ پر اثرات اور حکومتی ناکامیاں


اس مرتبہ مون سون کی بارشوں نے سندھ بلوچستان سمیت پورے ملک میں ملکی تاریخ کے تمام رکارڈ توڑ دیے ہیں۔ لیکن ماہر موسمیات کے مطابق دنیا کے 195 زیادہ بارشی ممالک میں پاکستان کا نمبر 145 واں ہے۔ مطلب جہاں کم بارشیں ہوتی ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کے سب سے زیادہ بارشیں 144 ممالک میں ہوتی ہیں اور وہ ممالک بخوبی ان بارشوں کا سامنا کرتے ہیں اور نکاسی آب کا نظام بہتر موجود ہے۔ ملک میں حالیہ بارشوں کی پیشگوئی وفاقی محکمہ موسمیات نے کم و بیش تین ماہ قبل ہی کردی تھی اور واضح کر دیا تھا کہ اس مرتبہ بارشیں انتہائی شدید ہوں گی جبکہ دریائے سندھ پر سیلاب کا شدید دباؤ ہو گا اور 2010 سے بھی زیادہ خطرات کے متعلق آگاہ کر دیا تھا۔

ساری صورتحال واضح ہونے کے باوجود بھی کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی صوبے سندھ پر تیسری مرتبہ 14 سالوں سے حکومت بشمول وفاقی حکومت میں حصہ رکھتی ہے۔ سیاست اور انتظامی تجربہ رکھنے کا دعوی کرنے والی پیپلز پارٹی کے حکمران مکمل طور پر ناکام ہو گئے۔ اندازہ ہوا کہ سندھ پر حکمران جماعت کے سارے دعوے سیلاب کے پانی میں ڈوب اور بارشوں میں پگھل گئے۔ ملک کے سب سے بڑے معاشی شہر کراچی کو ملانے والا ریلوے ٹریک اور تین اہم شاہراہ نیشنل ہائی وے، مہران اور انڈس ہائی وے معطل رہے۔ کہیں کہیں بند ہونے کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

حالیہ بارشوں سے سندھ کی زراعت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ جس میں کپاس، ٹماٹر، پیاز، کھجور، چاول کی کاشت بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔ جس سے ملک کی معیشت اور ملک میں خوراک کی قلت پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ ساتھ ہی لاکھوں گھر، بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئے۔ لاکھوں ایکڑ کاشت زمین پانی میں ڈوب گئی، اور ہزاروں کی تعداد میں بے زبان مویشیوں کو بھی حکومتی اشرف المخلوقات نے اذیتوں میں ڈال دیا اور انہیں خدا کے رحم و کرم پر روڈوں سڑکوں اور سکولوں میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ متاثرین آئے روز سراپا احتجاج ہیں کہ انہیں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے اور جلد کے امراض بچوں خواتین اور بزرگ شہریوں کو طبی امداد کی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔ ساری صورتحال سندھ پنجاب کے بارڈر سے لے کر کراچی کے علاقے ملیر تک کی ہیں۔

محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے فوراً بعد کیا مقامی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کے لیے اتنا مشکل تھا کے تمام تر سرکاری مشینری کو پہلے ہی استعمال کرتے ہوئے انتظامات کیے جاتے اور محفوظ مقامات پر خیمہ بستیوں کے قیام کا انتظام ہوجاتا۔ ندی، نالوں، گٹروں کی صفائی، تمام پانی نکالنے والی موٹر، راشن کا انتظام، سیلابی صورتحال کے باوجود بھی لوگوں کو گھروں سے باہر نکالنا حکومت کے لیے کون سا بڑا مسئلہ تھا؟ اب وہی کام قابل عزت سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کے فیصلے کے بعد سکھر اور شہید بے نظیر آباد نوابشاہ ڈویژن میں عمل میں لایا جا رہا ہے، جس کے تحت کمشنر سکھر اور شہید بے نظیر آباد نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اور تحصیل کے سول جج کی زیرنگرانی میں کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے اور خیمہ بستی کا قیام اور تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی کی جائے گی۔

حکومت سندھ کے لیے کیا جو افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ سارا نظام کرپشن کے نئے راستے ہموار کرنے اور بیرون ممالک سے فنڈز لینے کے لیے کیا گیا؟ خدا نا کرے ایسا ہو! ، اب جبکہ امریکا، چائنا، خلیجی ممالک فنڈز فراہم کر رہے ہیں تو امید ہے کہ اس کا استعمال منصفانہ ہو گا اور تمام متاثر خاندانوں کو معمول زندگی پر واپس لانے میں مدد کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments