رانگ نمبر


چند سال قبل جارحیت پسند پڑوسی ملک کے اداکار عامر خان کی فلم پی کے بہت مقبول ہوئی تھی, جس کے ایک سین میں اداکارہ مختلف مذاہب کی خواتین کے پاس جاکر موقع محل کے برخلاف باتیں کرتا ہے اور خوب پٹائی کھاتا ہے, خیر جناب وہ تو فلم تھی مگر میرے وطن میں اصل پی کے موجود ہے, جس کا نام عمران خان ہے, ویسے تو موصوف جنازوں میں جانے کو بلیک میلنگ کہتے ہیں, اس حوالے سے آپ کو یاد ہوگا, کوئٹہ کی ہزارہ برداری اپنے پیاروں کے جنازوں کو لیکر انصاف کی متمنی بن کر بیٹھی رہی, سوگوار اس وقت کے حاکم ملک یعنی عمران خان کی آمد کے منتظر  تھے جبکہ عمران خان نے ان کی گذارش کو بلیک میلنگ کا لیبل دیا تھا , بھلا کوئی یتیم, بیوہ, ماں جائے کی لاش لیکر بیٹھنے والا, عمر بھر کی کمائی کے وجود کی گولیوں سے چھنی لاش کو لیکر انصاف متمنی بلیک میلر ہوسکتا ہے?
یقینا ہر گز نہیں, عمران خان کو رات کے بارہ بجے عدالت کھلنے کا عمل ناانصافی لگتا ہے تو پھر کیوں میرے وطن کی ہزارہ برداری کے بین, آہ و فغان, گریہ بلیک میلنگ لگا?, خیر جناب آتے ہیں اصل پی کے یعنی عمران خان کی جانب, موصوف بہت مشکل سے سیلاب زدہ گان کی داد رسی کو گئے, وہ بھی اس لئے کیونکہ انہوں جلسہ کرنا ہے,  چیئرمین پی ٹی آئی نے سیلاب متاثرین کے پاس  جاکر اس انداز میں داد رسی کی مجھ جیسے اہل دل نے برملا ان کے انداز بیان پر چار حرف بھیجے, خان صاحب نے سیلاب متاثرین سے مل کر ہنس ہنس کر سیلاب کے فوائد کا مفصل نوٹ بیان کیا, دل کر رہا ہے کہ یہ دعا دوں کہ خان صاحب اگر سیلاب اتنا اچھا ہوتا ہے تو رب کریم آپ کے بنی گالہ میں ہر ماہ سیلابی صورتحال پیدا کرئے, مگر میں یہ دعا نہیں کرونگی کیونکہ میں بے وقوف نہیں ہوں, اچھا ہی ہے خان صاحب کسی کی موت پر نہیں جاتے ہیں ورنہ عین ممکن ہے وہ وہاں  جاکر  یہ کہہ دیں, مبارک ہو بندہ یا بندی اس دنیا سے چلی گئی, اس مہنگائی میں کچھ خرچا تو کم ہوا, یا پھر موت کے فوائد بھی بتا سکتے ہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ سکون تو صرف قبر میں ہے, کچھ بعید نہیں ہمارے پی کے موت کے گھر میں جاکر کہہ دیں بھائی, مبارک ہو مرنے والے کو سکون مل گیا, بحیثیت انسان خان صاحب کی سیلاب زدگان سے انداز گفتگو سن کر بہت دکھ ہوا, ان کے الفاظ سن کر دل نے پر ملال ہوکر کہا, یار یہ بندہ ہم پر تین سال سے زائد حکمران رہا, پھر تو بھلا ہو رجیم چینچ کرنے والوں (اگر ایسا ہے تو ) کہ ہمیں اس حماقت کے بے تاج بادشاہ سے نجات ملی, شاید وہ پاکستان کی بقا کے لئے غیبی امداد تھی.
ہم نے چند ماہ قبل صوبہ پنجاب کے ایک ہوٹل میں مسلم لیگ نون کی جانب سے حمزہ شہباز کی زبردستی کی حلف برداری کی تقریب دیکھی جس کا سوشل میڈیا پر خوب مذاق بنا, آج اس تخیلاتی دنیا کے راجہ ہمارے پی کے صاحب ہیں, جن کے جلسوں میں پی ایم کے لیبل والی نشست سجائی جاتی ہے, جن کی پریس کانفرنس وزیراعظم کے خطاب کی طرح ہوتی ہیں, مطلب حد ہے خوابوں خیالوں کی بھئی, سچی بات ہے مجھے تو خان صاحب کے اندر الہڑ عمر کی وہ دوشیزہ نظر آتی ہے, جو ولایتی منڈے کے خواب سجا کر اوپلے تھاپ رہی ہوتی ہے, بہرحال اپنے اپنے خواب ہیں, ہم تو بھئی واہ ہی کہہ سکتے ہیں.
ہمارے پی کے صاحب جب وزیراعظم تھے تب بھی غضب کے لاعلم تھے, وہ تو الله بھلا کرئے بشری بی بی کا جو انہیں گاہے بگاہے یاد دلاتی تھیں کہ اجی سنیں آپ ہی وزیراعظم ہیں, جناب نے وہ بات ایسی پلے گرہ باندھی کہ اقتدار جانے کے بعد بھی اپنے آپ وزیراعظم سمجھتے ہیں, مطلب اگر بس چل جائے تو خان صاحب اپنے نام کے سکے بھی بنا ڈالیں, ویسے مجھے یقین ہے رہاست بنی گالہ میں ان کے نام کی کرنسی عام ہوگی, جس سے ستاروں کی چال کا تعین کیا جاتا ہوگا, خان صاحب آج کے پاکستان میں  صحافت کی زبان بندی پر سراپا احتجاج ہیں مگر اپنے تبدیلی زدہ پاکستان میں جب یہ دستور عام تھا تو اس سے نابلد تھے, جس کا اظہار وہ سینئر صحافی حامد میر سے کرچکے ہیں, یعنی اس سادگی پر کون نہ مرمٹے, اف!
خان صاحب کاپی پیسٹ کے بھی بادشاہ ہیں, کہتے ہیں بند کمرے میں مجھے مارنے کی سازش ہوئی ہے میں نے ایک ٹیپ جس میں چار شخصیات کے نام  ہیں وہ بنا کر مقام محفوظ پر رکھ دی ہے, کچھ ایسا ہی بیانیہ محترمہ بے نظیر کا تھا, فرق صرف یہ ہے انہوں نے ای میل کی تھی خان صاحب ویڈیوز والے ہیں.
خان صاحب جب وزیراعظم پاکستان تھے تب انہیں ڈالر کی قمیت کا ٹی وی سے پتہ چلتا تھا, وہ اپنی کابینہ سے کبھی مطمئن نہیں رہے, اپنے دوستوں سے بے وفائی کرنے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ہے جیسا کہ جہانگیر ترین,علیم خان اور دور حاضر میں شہباز گل, جن کی رہائی کا بھی انتظار نہیں کیا اور اپنا چیف آف اسٹاف شبلی فراز کو مقرر کر لیا, میرے دیس کا پی کے, بھنڈ کے میدان کا بھی بے تاج بادشاہ ہے, حضور والا کبھی جرمنی اور جاپان کی سرحدوں کو ملا دیتے ہیں, کبھی پاکستان میں بارہ موسم ہونے کا عندیہ دیتے ہیں, کبھی پیغمبر اسلام کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار بتاتے ہیں, کبھی قیام پاکستان کے وقت کی افرادی قوت کا تناسب چالیس کروڑ بتاتے ہیں, خود نمائی کا یہ عالم ہے کہ وہ دنیا کے ہر ملک و قوم, تہذیب کو اتنا بہتر جانتے ہیں کہ اتنا تو وہاں کے باشندے بھی واقف نہیں ہیں, وہ کہتے ہیں انہوں سب سے زیادہ کرکٹ کھیلی ہے جبکہ اس میں بھی سچائی نہیں ہے,

اپنے تئیں عوامی لیڈر کو سیلاب میں ڈوبے ملک کا ذرا خیال نہیں ہے, ایک کے بعد ایک مجھے اقتدار میں واپس لاو کی ضد لئے مسلسل کنسرٹ جلسے کر رہے ہیں, ملک میں پے در پے اموات ہوگئیں, لوگ بھوک سے بلک رہے ہیں مگر پی ٹی آئی کی شوخیاں عروج پر ہیں, خان صاحب جس فوج کی برائی عوام کے دل میں بیٹھانا چاہتے ہیں, اس ادارے نے سیلاب زدگان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر یوم دفاع کی تقریب ملتوی کردی ہے مگر پی ٹی آئی کی رونقیں مدھم نہیں ہو رہی ہیں, عوام کو سوچنا ہوگا جس کے وہ متوالے ہو رہے ہیں, کہیں وہ رانگ نمبر تو نہیں ہے! رہے الله کا نام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments