جنگ ستمبر 1965 کے کم ذکر ہونے والے چند ہیروز



1965 کی جنگ میں جن جرنیلوں اور افسران نے انتہائی بہادری اور جرات کا مظاہرہ کیا اور اپنی اعلیٰ ترین کارکردگی سے زبردست کامیابیاں حاصل کر کے پاکستان کی تاریخ کا ایک عظیم اور روشن باب لکھا ان ہیروز میں سے پانچ کا ، جن کا ذکر بوجوہ کم کم ہوتا ہے، کچھ حال درج ذیل ہے۔

بریگیڈئیر افتخار خان جنجوعہ

ہیرو آف رن کچھ:1965 ء کی جنگ کا ابتدائی مرحلہ آغاز اپریل میں ہندوستان کی رن کچھ کے علاقے میں پیش قدمی تھی۔ بریگیڈئیر افتخار جنجوعہ نے نہ صرف اس کی روک تھام کی بلکہ آگے بڑھ کر 26 اپریل کو چھ میل اندر ہندوستانی چوکی بیر بیٹ پر پاکستانی پرچم لہرا دیا اور ہیرو آف آف رن کچھ کہلائے۔

انتہائی اہم کامیابی: بریگیڈئیر افتخار جنجوعہ کی یہ کامیابی انتہائی اہمیت کی حامل تھی جیسا کہ اس وقت کے پاک فوج کے ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل گل حسن خان نے بعد میں اپنی یاد داشتوں میں یوں بیان کیا:

The setback at Kutch was immeasurably disconcerting for the Indian army. As a result, the government of India was in a quandary. On the other hand, ours was in a state of euphoria. The high command of our army was intoxicated by our demonstration and our morale could not have been higher. We were prepared for any task that could be entrusted to us without any doubt. ’ (Quoted by Altaf Gauhar in‘ 1965 War: Boomering ’)

ترجمہ: کچھ کی پسپائی بھارتی فوج کے لئے بے حد پریشان کن تھی۔ اس کی وجہ سے حکومت ہند ایک مخمصہ میں پڑ گئی۔ دوسری طرف ہم جوش سے بھرے ہوئے تھے۔ ہماری فوج کی ہائی کمان ہمارے اس مظاہرے سے گویا حالت نشہ میں تھی۔ ہمارے حوصلے اس سے اور بلند نہیں ہو سکتے تھے۔ ہم بلا شک اپنے سپرد کیے جانے والے کسی بھی کام کے لئے تیار تھے۔

اس تجزیہ کے عین مطابق یہ کامیابی چند ماہ بعد ستمبر کی جنگ میں اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد بنی۔

محاذ لاہور پر بالواسطہ مدد: پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کے ترجمان ماہنامہ ہلال کے ستمبر 2010 ء کے شمارے میں لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان کا ایک مضمون بعنوان ’پاک بھارت جنگ 1965‘ شائع ہوا جس سے پتہ لگا کہ کس طرح بریگیڈئیر افتخار جنجوعہ کی غیر معمولی فوجی سمجھ بوجھ نے دو دہائیوں بعد ہونے والی جنگ کی پیش بندی کی اور وطن عزیز کی حفاظت کے لئے ایک ایسا عملی قدم اٹھایا جس نے وقت پڑنے پر فی الواقعی دشمن کی پیش قدمی روک لیا۔ یہ ان کی محاذ لاہور پر بالواسطہ حیرت انگیز مدد تھی۔ مضمون میں لکھا گیا

’تقسیم کے فوراً بعد پاک فوج کے ایک افسر نے لاہور کے اس اہم ترین علاقے میں ایک آبی رکاوٹ تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس افسر کا نام بریگیڈیئر افتخار جنجوعہ تھا۔ جو اس وقت لاہور میں 10 ڈویژن ایک بریگیڈ کا بریگیڈ کمانڈر تھا۔

اس آبی رکاوٹ کا نام بی آر بی کینال رکھا گیا جبکہ بھارت اسے اچھو گل کینال کا نام دیتا ہے۔ یہ نہر لاہور کے مشرق میں بین الاقوامی سرحد کے متوازی تعمیر کی گئی اور سرحد سے اس کا فاصلہ کم سے کم تین کلو میٹر اور زیادہ سے زیادہ 15 کلو میٹر تھا۔ اس کی چوڑائی 50 فٹ اور گہرائی 15 فٹ رکھی گئی۔

جنرل گل حسن نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ لاہور کے سویلین حکام نے اصرار کیا تھا کہ نہر کو لاہور شہر کے عین بیچوں بیچ تعمیر کیا جائے تاکہ شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہو۔ جبکہ بریگیڈئیر افتخار نے دفاعی ضروریات کی ترجیح پر زور دیا۔

1965 کی پاک بھارت جنگ میں داتا کی نگری لاہور کو اگر کسی ایک چیز نے بھارتی حملے کے خلاف تحفظ دیا تو وہ خدا کے بعد بی آر بی نہر تھی! 6ستمبر 1965ء کو بھارت کی وار مشین اس نہر کے دائیں (مشرقی) کناروں پر آ کر رک کے رہ گئی تھی ’۔ ( ماہنامہ ہلال ستمبر 2010 ء صفحہ 41۔ 42)

بہادروں میں سے بہادر ترین: بریگیڈئیر افتخار کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے جنرل علی قلی خاں نے لکھا:

’unafraid of any thing quite literally the bravest of the brave‘ .
(http://baithak.blogspot.com/2008/12/bravest-of-brave-ali-kuli-khan.html)
ترجمہ: کسی بھی چیز سے خوف کھائے بغیر وہ حرف بہ حرف بہادروں میں سے بہادر ترین تھے۔

میدان جنگ میں شہید ہونے والے واحد جنرل: بریگیڈئیر افتخار اپنی جرات و بہادری اور شدت جنگ میں سب سے آگے رہ کر اپنے لوگوں کو پر جوش رکھنے کے لئے مشہور تھے۔ بعد میں جب وہ بطور میجر جنرل 1971ء کی جنگ میں چھمب کے محاذ کی کمان کر رہے تھے تو اسی جذبہ کے ساتھ وہ نڈر ہو کر اگلے مورچوں پر موجود رہتے۔ اس شجاعانہ کمانڈ کے نتیجہ میں 9دسمبر 1971 ء کو چھمب دوسری بار ایک احمدی کے ہاتھوں فتح ہو گیا۔ بعد میں محاذ کا فضائی جائزہ لیتے ہوئے آپ کا ہیلی کا پٹر دشمن کی حملہ کا نشانہ بنا جس کے نتیجہ میں اس بہادروں کے بہادر پاسبان وطن نے اپنی جان وطن پر قربان کر دی۔ اور یوں آپ کو میدان جنگ میں شہید ہونے والے پاکستانی فوج کے پہلے اور اب تک آخری جنرل ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔

ہلال جرات: اس شجاعت و جرات کے اعتراف میں آپ کو پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہلال جرات دیا گیا۔ اس کے علاوہ آپ کو ستارہ ٔ پاکستان اور ستارۂ قائد اعظم کے اعزاز بھی دیے گئے۔

افتخار خان جنجوعہ روڈ: راولپنڈی کینٹ میں ایک سڑک افتخار خان جنجوعہ روڈ آپ کے نام پر ہے۔ پاکستانی فوج کا عجائب گھر اسی سڑک پر ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک

فاتح چھمب: محاذ کشمیر پر چھمب کی فتح ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ یہ کارنامہ لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک کا تھا۔ جس کے صلے میں آپ کو دوران جنگ سب سے پہلے دوسرا سب سے بڑا اعزاز ہلال جرات دیا گیا۔ قرائن کے مطابق آپ اکھنور بھی فتح کر سکتے تھے لیکن کمانڈ میں تبدیلی کے سبب یہ ممکن نہ ہو سکا۔ جنرل اختر حسین کی اس شجاعت اور دلیری کو بار بار دہرایا گیا ہے۔ ایسی چند تحریریں تاریخ وار درج ذیل ہیں :

مشہور صحافی شورش کاشمیری نے دوران جنگ ہی جنرل اختر حسین ملک کی یوں مدح سرائی کی:
؂ دہلی کی سرزمین نے پکارا ہے ساتھیو اختر ملک کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے چلو
اس کے سوا جہاد کے معنی ہیں او ر کیا اسلام کا وقار بڑھاتے ہوئے چلو (ہفت روزہ چٹان 13 ستمبر 1965 ء)
مشہور دانشور، شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی نے لکھا:

قوم کے ہیرو: ’لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک قوم کے ایک ایسے ہیرو تھے جن کا نام پاکستانی بچوں کو بھی یاد ہے۔ وہ بہادری اور استقامت اور اولوالعزمی کی ایک مجسم تصویر بن کر ابھرے اور اہل پاکستان کے ذہنوں پر چھا گئے‘ ۔ (روزنامہ جنگ 9 ستمبر 1969 ء صفحہ 4 )

روزنامہ امروز لاہور نے لکھا:

پر عزم اور ولولہ انگیز قیادت: ’میجر جنرل اختر حسین ملک نے ناکافی فوج اور مشکل حالات کے باوجود بھارتی فوج کا بری طرح قلع قمع کر دیا۔ میجر جنرل اختر حسین کی ذہانت، اعلیٰ منصوبہ بندی، پر عزم اور ولولہ انگیز قیادت نے اس علاقہ میں بھارتی فوج کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا۔ صدر مملکت نے میجر جنرل اختر حسین کو ان کے عظیم کارنامے پر ہلال جرات کا اعزاز دیا‘ ۔ (روزنامہ امروز لاہور 25 ستمبر 1965 ء)

جنرل سرفراز خان ہلال جرات نے روزنامہ جنگ میں لکھا:

شاندار فتح: ’جس ہنر مندی سے اختر ملک نے چھمب پر اٹیک کیا اسے شاندار فتح کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ وہ اس پوزیشن میں تھے کہ آگے بڑھ کر جوڑیاں پر قبضہ کر لیں کیونکہ چھمب کے بعد یہاں دشمن کے قدم اکھڑ چکے تھے‘ ۔ ( اخبار جنگ لاہور 6 ستمبر 84 19 ء)

میجر جنرل محمد شفیق نے نوائے وقت میں لکھا:

اچانک حملہ: ’فوجی دستہ کی کمان جنرل اختر حسین ملک کر رہے تھے۔ یہ حملہ اتنا اچانک کیا گیا کہ ہندوستانی افواج اپنے مورچے چھوڑ کر بھاگ نکلیں اور اکھنور پر قبضہ کے امکانات روشن ہو گئے تھے‘ ۔ ( نوائے وقت سنڈے میگزین 7 ستمبر 2003 ء صفحہ نمبر 17 )

ایک کتاب میں لکھا گیا:

کامیاب منصوبہ بندی: ’چھمب جوڑیاں سیکٹر کی منصوبہ بندی جنرل اختر حسین ملک نے کی تھی۔ یہ اسی کامیاب منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا کہ پاک فوج بڑی آسانی اور نہایت کامیابی کے ساتھ اکھنور کے اطراف میں پہنچ گئی۔ اور اس نے بھارت کی دو ڈویژن فوج کو گھیرے میں لے لیا۔ عین اس وقت جب پاک فوج اکھنور پر قبضہ کرنے کی تیاری میں مصروف تھی پاک فوج کی ہائی کمان نے جنرل اختر حسین ملک کو واپس بلا لیا اور ان کی جگہ یحییٰ خان کو سیکٹر کمانڈر بنا کر بھیج دیا۔ اس طرح اکھنور پر قبضہ کرنے کے منصوبے کو خاک میں ملا دیا گیا۔ بقول شاعر

دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا۔ ؂ قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند

جنرل اختر حسین ملک کو چھمب جوڑیاں سیکٹر سے صرف اس لئے ہٹایا گیا کہ آپ کا تعلق قادیانی جماعت سے تھا اور پاک فوج کے جنرل اتنی بڑی کامیابی کا کریڈٹ ایک قادیانی جرنیل کو نہیں دینا چاہتے تھے ’۔ (آمریت کے سائے از ممتاز حسین ایڈوکیٹ صفحہ نمبر 88 )

جنرل اختر حسین 1969 ء میں ایک حادثہ میں ترکی میں وفات پا گئے۔ آپ کی تدفین پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ربوہ میں ہوئی۔ مشہور شاعر ضمیر جعفری نے انقرہ سے چک لالہ کے ہوئی اڈے پر آپ کے تابوت کی آمد پر جو ’آخری سلام‘ لکھا۔ اس کا بند نمبر یہ تھا

جیالا، جری، نام آور، دلاور، بہادر سپاہی!
؂ چمکتی ہوئی توپ گاڑی کے اوپر
جو تابوت ہے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹا ہوا
اک جیالا، جری، نام آور، دلاور، بہادر سپاہی!
ابد کی خموشی میں کھویا ہوا
اپنی شفاف وردی میں سویا ہوا (ماہنامہ نیا زمانہ لاہور جنوری 2005ء)

بریگیڈئیر عبدالعلی ملک:

چونڈہ کا اہم محاذ: بھارتی فوج کے حملہ کا ہدف جی ٹی روڈ کو کاٹنا اور سیالکوٹ پر قبضہ تھا۔ اس راستہ میں چونڈہ کے قریب پاک فوج نے اس کا راستہ روک لیا۔ اور یہاں کئی دنوں تک جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی ہوئی۔ اس محاذ کی اہمیت کے بارے میں لکھا گیا:

جنرل گل حسن نے لکھا:

’چونڈہ ہمارے دفاع کا بنیادی اور فیصلہ کن مقام تھا‘ ۔ ( یادداشتیں صفحہ نمبر 193 ناشر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس)

ایک صحافی نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا:

سیالکوٹ بلکہ پاکستان کی سلامتی کا دار و مدار اس جنگ کی ہار جیت پر تھا ’۔ ( بد ر سے باٹا پور تک از عنائیت اللہ صفحہ نمبر 194 )

چونڈہ کا کامیاب دفاع:پاک فوج کے جوانو ں اور افسروں نے جرات اور بہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور دشمن کے حملہ کو ناکام بنایا دیا۔ اس اہم ترین محاذ پر چونڈہ کے کامیاب دفاع کا فریضہ بریگیڈئیر عبدالعلی ملک نے انجام دیا۔ اس بڑی لڑائی اور اس میں ان کی اس عظیم کامیابی کو بہت سراہا گیا۔ ایسی چند تحریریں درج ذیل ہیں :

ماہرین حیران و ششدر: ’عبدالعلی نے چونڈہ کے محاذ پر ٹینکوں کی عظیم جنگ میں پاکستانی فوج کی کمان کی اور ایسے کارنامے سر انجام دیے کہ تاریخ حرب کے ماہرین حیران و ششد رہ گئے۔ اس وقت موصوف بریگیڈئیر تھے‘ ۔ ( روزنامہ امروز لاہور 23 اگست 1969 ء)

پورے آرمرڈ ڈویژن کا مقابلہ: ’سیالکوٹ چونڈہ سیکٹر پر بھارت نے پورے آرمرڈ ڈویژن سے حملہ کیا تھا اور اس حملے کو ایک قادیانی بریگیڈئیر نے صرف ایک ٹینک رجمنٹ اور دو انفنٹری پلٹنوں سے روکا تھا۔ اس بریگیڈئیر کو اس کے ڈویژن کمانڈر نے حکم دیا کہ سیالکوٹ خالی کر دو ۔ ہم پیچھے ہٹ کر لڑیں گے۔ اس قادیانی بریگیڈئیر نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا اور حملہ روک لیا تھا اس بریگیڈئیر کا نام عبدالعلی ملک تھا۔ (ماہنامہ حکایت نومبر 1984 ء صفحہ نمبر 114 )

قبرستان میں تبدیل: بریگیڈئیر عبدالعلی ملک ’نے چونڈہ کے محاذ پر بھارتی ٹینکوں کے حملہ کو قبرستان میں تبدیل کر دیا‘ ۔ (پاکستان میدان جنگ میں از شریف فاروق صفحہ 244 )

جنرل ٹکا خان نے ایک انٹرویو میں کہا:

دشمن کے دانت کھٹے : ’جب میں نے سیالکوٹ میں کنٹرول سنبھالا تو اس وقت جنرل عبد العلی ملک چونڈہ کے محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے کر رہے تھے‘ ۔ (مضمون مطبوعہ روزنامہ خبریں 6 ستمبر 1993ء )

علی موجود تھا: فیلڈ مارشل ایوب خاں نے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

Referring to battle of Chawinda FM Ayub Khan said…Look what happened here in Chawinda, the Indians attacked but Ali was there.

ترجمہ: چونڈہ کے معرکہ میں کیا ہوا۔ ہندوستان نے زبردست حملہ کیا۔ مگر علی وہاں موجود تھا۔ (مضمون مطبوعہ روزنامہ جنگ 12 مئی 1997ء)

ہلال جرات کا اعزاز:انہیں اس عظیم بہادرانہ کارنامے پر ملک کا دوسرا بڑا فوجی اعزاز ہلال جرات دیا گیا۔ خبر شائع ہوئی:

’دشمن نے چونڈہ پر قبضے کے لئے ہر طرح حربے استعمال کیے ۔ بے تحاشا گولہ باری اور بمباری کی اور ہر طرف سے یلغار کر کے قبضہ جمانے کی کوشش کی لیکن فرض شناس اور پر عزم عبد العلی ملک کی قیادت میں پاکستانی جانبازوں نے دشمن کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔

بریگیڈئیر عبدالعلی ملک کی دلاوری، ہمت اور سوجھ بوجھ نے دشمن کی ایک نہ چلنے دی۔ دشمن کو سخت نقصان اٹھا کر پسپا ہو نا پڑا۔ بریگیڈئیر عبد العلی ملک کو ان کی عظیم خدمات کے سلسلے میں ہلال جرات کا اعزاز دیا گیا ’۔ (روزنامہ امروز 25 ستمبر 1965ء‘

قابل افسر اور اچھا انسان: ’راقم جہلم میں۔ جنرل عبدالعلی کا چیف اسٹاف افسر تھا۔ میرا مشاہدہ ہے کہ میں نے جنرل علی جیسا قابل اور بیدار مغز افسر اور اچھا انسان نہیں دیکھا۔ راقم کی ان سے دلی محبت رہی ہے اور اب بھی ہے‘ ۔ ( مضمون بریگیڈئیر شمس الحق قاضی مطبوعہ نوائے وقت 21 فروری 2008ء) )

میجر قاضی بشیر احمد شہید

میجر قاضی بشیر احمد مردان کے رہنے والے تھے۔ جوڑ یاں کے محاذ پر داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے۔ ان کے بارے میں لکھا ہے :

’میجر مرحوم نے زندگی کے آخری تین دن اس طرح گزارے کہ کھانے پینے اور آرام کرنے کی مہلت بھی ان کو نہ ملی۔ وہ مسلسل لڑتے رہے۔ جب ان کی لاش محاذ سے گاڑی پر لائی گئی تو سپاہی اور افسر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے‘ ۔ ( حق کے پرستار از نسیم کاشمیری صفحہ نمبر 296 )

اسکوارڈن لیڈر خلیفہ منیر الدین شہید:
بہادر افسر اسکوارڈن لیڈر خلیفہ منیر الدین امرتسر کے راڈار اسٹیشن کو تباہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
ان کے بارے میں ’ناقابل تقلید ہوا باز، کے زیر عنوان لکھا گیا:

ذہین اور نڈر ہوا باز: ’36 سالہ منیر بڑا ذہین اور نڈر ہوا باز تھا۔ ہماری ائر فورس میں وہ بڑی مقبول اور ہر دلعزیز شخصیت کا مالک تھا۔ اس کے جوہر فضائے آسمان پر کھلتے تھے‘ ۔ ( ہمارے غازی اور ہمارے شہید از آغا اشرف 770۔ 771)

ستارہ ٔ جرات : بہادری پر ستارہ ٔ جرات کا اعزاز پایا۔

جنگ ستمبر کے ہیروز کے یہ کارنامے تاریخ پاکستان کا ایک روشن باب اور سب پاکستانیوں کے لئے قابل فخر ہیں اور رہیں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments