سری لنکا کے ہاتھوں بھارتی کرکٹ ٹیم کی شکست


بہت غرور ہے تجھ کو اے سر پھرے طوفاں
مجھے بھی ضد ہے کہ دریا کو پار کرنا ہے

جب آپ پاکستان جیسے حریف سے بدترین شکست کا سامنا کر چکے ہوں مگر اس کے باوجود آپ کی اکڑی گردنوں سے سریا نہ نکلے، آپ دوسروں پر طنز و تشنیع سے باز نہ آئیں، آپ پیسے، طاقت اور دھونس کے ذریعے اپنے سارے ہی میچز اپنے پسندیدہ میدان میں رکھوا لیں تو بھی نتیجہ آپ کی مرضی کا نہیں نکلتا صاحب! اس لیے کہ تکبر کے موسم میں سازگار ہوائیں نہیں چلا کرتیں۔

سپر فور کا یہ اہم ترین مقابلہ بھارت کے لیے ”کرو یا مرو“ میچ تھا جس میں ٹیم انڈیا نے مرنا منتخب کیا اور بڑے بڑے ستاروں سے مزین یہ ٹیم منہ کی کھانے کے بعد شکست اور ذلت کی عمیق گھاٹی میں اتر گئی، اللہ بخشے ہمارے ”کپتان“ صاحب کو جو آج کل سیاسی جلسوں میں کہا کرتے ہیں کہ

”پاکستان بہت جلد سری لنکا بن جائے گا اگر یہ نہ کیا گیا، اگر وہ نہ کیا گیا تو“

ان کو کوئی خبر کر دے کہ پاکستان تو سری لنکا نہ بن سکا، البتہ سری لنکا، پاکستان بن گیا، جو کام پاکستان نے کیا تھا وہی کام آئی لینڈرز نے بھی کیا۔

اس کہانی کا آغاز ہوا تو ٹاس کا سکہ اچھلا اور گرا، سنگاکارا اور جے وردنے کے روحانی بیٹوں کے حق میں اور حسب معمول انہوں نے پہلے گیند بازی کا فیصلہ کیا، روہت شرما کا چہرہ تو ٹاس ہارتے ہی اتر گیا تھا، لیکن پھر وہی تھے جنہوں نے ٹیم کو مشکل صورت حال سے نکالا، دوسرے ہی اوور میں لوکیش راہول کو ”تھرڈ ایمپائر“ کی مدد سے میدان سے چلتا کیا تو ان فارم بلے باز کوہلی کی آمد ہوئی جو صرف پچ پر اپنا دیدار کروانے آئے تھے، جو یہ بتلا رہے تھے کہ میں وہی کوہلی ہوں جو گزشتہ ایک ہزار سے زائد دن ہو گئے ہیں سنچری نہیں بنا سکا، مدھو شنکا کے اندر شاہین شاہ کی روح حلول کر چکی تھی اور وکٹوں کی کلیاں روشن ہوئیں تو بلیو شرٹس کے چہرے بجھ گئے، چار گیندوں پر صرف ایک انڈا کمایا اور یہ جا وہ جا۔

روہت اور سوریا کمار نے مزاحمت کرتے ہوئے روایتی مار دھاڑ جاری رکھی مگر پھر یکے بعد دیگرے آؤٹ ہونے سے چراغوں میں روشنی نہ رہی کیونکہ کپتان صاحب 72 رنز بنا کر واپس لوٹے تو سبھی نے یہ مناسب سمجھا کہ کپتان ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سکور بورڈ کو متحرک ہرگز نہ رکھا جائے۔

پانڈیا ہو یا پنت، بھووی ہو یا ہودا۔ سب ہی نے ٹیم انڈیا کی رسوائی میں بھرپور کردار ادا کیا اور جب بیس اوورز مکمل ہوئے تو بورڈ پر 173 رنز موجود تھے۔

یہاں یہ بات ذہن میں رکھیے کہ روہت نے ایک بڑے ٹوٹل کے لیے زمین ہموار کر دی تھی، جسے سوریا، پنت اور پانڈیا بہترین مجموعے تک لے جا سکتے تھے مگر ایسا نہ ہوا۔ داد دینی ہو گی سری لنکا کی معمولی درجے کی باؤلنگ کو جنہوں نے دنیا کے ورلڈ کلاس بیٹنگ یونٹ کو تہس نہس کر دیا۔

آئی لینڈرز نے کھیلنا شروع کیا تو مینڈس اور نسانکا نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بھارت کی ”سو کالڈ ورلڈ بیسٹ باؤلنگ“ کی درگت بنانا شروع کی اور پاور پلے میں 57 رنز بنائے تو اسی وقت سے میچ سری لنکا کی جانب جھک رہا تھا، 97 رنز کی اوپننگ شراکت داری جس میں بہترین پل شاٹ، عمدہ ہک، شاندار کور ڈرائیو اور جاندار چھکے سبھی شامل تھے، اس دوران بھونیشور آیا رگڑا گیا، ارشدیپ نے گیند تھامی تو منہ کی کھائی، پانڈیا کچھ کرنے کا عزم کے کر سامنے آیا تو اس کی بج گئی، ایشون آیا تو اسے بھی پٹائی برداشت کرنا پڑی اور پھر جب چاہل نے ایک ہی اوور میں اوپر تلے دو وکٹیں لیں تو بھارت نے سکھ کا سانس لیا اور کچھ دیر کے لیے لگا کہ میچ میں بھارت ”بھی“ کھیل رہا ہے۔

ابھی سری لنکا والے اس صدمے سے نکلنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ دو اوورز بعد تین گیندوں پر دو اور کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے، خاص کر ان فارم مینڈس کی وکٹ نہایت ضرورت تھی بھارت کے لیے۔

تھوڑی دیر قبل سٹیڈیم سے سیدھا نیپال پہنچ جانے والے بھارت کے متعصب شائقین پھر سے زندہ ہو چکے تھے اور میدان میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔

110۔ 4 سکور تھا کہ کپتان شناکا نے بلا تھاما اور اپنی ٹیم کو بیچ منجدھار سے نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن شروع کیا، ان کو ساتھ حاصل تھا اپنے ہی قابل اعتماد ساتھی راجا پکسا کا، سری لنکن بیڑے کا کپتان اپنی کارکردگی سے سر جھٹکتے ہوئے ببانگ دہل یہ اعلان کر رہا تھا کہ

جب کچھ نہ بن سکا تو ڈبو دیں گے سفینہ
ساحل کی قسم، منت طوفاں ہم نہ کریں گے

جب کچھ کر دکھانے کا عزم کر لیا جائے تو کوہ گراں بھی سامنے نہیں ٹھہر پاتا اور پھر یہی کچھ ہوا، سری لنکا کو آخری پانچ اوورز میں 54 رنز درکار تھے اور عالم یہ تھا کہ اس سے پچھلے پانچ اوورز میں محض 26 رنز بنے تھے، اب باری کو گیئر لگانے کی ضرورت تھی بلکہ تمام قوتیں جمع کر کے مرتے ہوئے گھوڑے کی آخری کوشش کے طور پر فنشنگ لائن عبور کرنی تھی۔

ان دونوں نے پانڈیا اور بھووی کے اوورز میں 26 رنز بٹورے تو سری لنکا کو آخری اوور میں محض سات رنز چاہیے تھے اور ایشیا کپ کا یہ میچ ڈرامہ، سسپنس اور تھرل کے اعتبار سے عروج پر تھا، ارشدیپ نے ٹائٹ لائن اینڈ لینتھ پر گیند بازی کی مگر صرف سات رنز کا دفاع نہایت مشکل ہو جاتا ہے جب آپ کا کپتان ہی حوصلہ ہار جائے اور آپ بار بار تقاضا بھی کریں اپنے لیے فیلڈنگ کا اور کپتان سننے سے انکار کر دے تو اس صورتحال میں اکیلا ارشدیپ کیا کرے؟

روہت شرما پچھلے میچ میں بھی کیچ چھوٹنے پر بے طرح سے چیختے ہوئے نظر آئے اور آج بھی ارشدیپ کا حوصلہ توڑ رہے تھے، حالانکہ قصور آپ کے اہم گیند باز بھونیشور کا ہے جس نے پاکستان کے خلاف 19 رنز کھائے اور سری لنکا کے خلاف 14، ایک ایسے نوجوان کھلاڑی جو ابھی کیریئر کے آغاز میں ہے اس کے ساتھ اس طرح کا رویہ ناقابل فہم ہے۔

آپ اپنی فطرتوں تو چالاک ہیں مگر
حکمت کی اک نظر سے کوسوں ابھی ہیں دور
کاش کہ بابر اعظم بھارت کا کوچ بنے تو روہت بے شرما کو جا کر سکھائے کہ کپتانی کرنا کسے کہتے ہیں!

سری لنکا نے چھوٹے سے ڈرامے کے بعد بھارت کو کک آؤٹ کرتے ہوئے تقریباً فائنل کے لیے جگہ پکی کر لی ہے اور بھارت نے دہلی ائرپورٹ کے لیے۔

#یادش۔ بخیر۔ کہ۔ یہ۔ وہی سری لنکا ہے جو افتتاحی میچ میں افغانستان کے ہاتھوں بری طرح پٹی تھی مگر بعد ازاں بنگال ٹائیگرز کو شکست دی، افغانستان کو رگڑا اور آج وہ ایشیا کپ کے فائنل میں پہنچ ہی گئے ہیں۔

ویل پلیڈ سری لنکا!

میری رائے میں ایشیا کپ اس سے قبل کبھی اتنا جاندار اور مزیدار نہیں ہوا تھا کہ سپر فور میں ہر ہی میچ آخری اوور تک جاتا نظر آ رہا ہے۔

فائنل کون کھیلے گا؟ بظاہر تو پاکستان اور سری لنکا مضبوط امیدوار ہیں اگر مزید کوئی ڈرامہ یا سسپنس نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments