کتابیں، کچھوے اور دوستیاں سفرنامہ کینیڈا (1)


ڈاکٹر سہیل زبیری اور ڈاکٹر خالد سہیل کی مشترکہ کتابی کاوش ”مذہب سائنس اور نفسیات“ کی تقریب رونمائی کے سلسلے میں، 6 اگست سے 14 اگست تک ہم کینیڈا کے صوبے آنتاریو میں تھے۔ مجوزہ تقریب 7 اگست کو بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی تو کینیڈا کی معروف ادبی تنظیم ’فیملی آف دی ہارٹ‘ کے روح رواں ڈاکٹر خالد سہیل کے توسط سے سیر و تفریح اور تنظیم کے احباب کے ساتھ ادبی نشستوں کا سلسلہ چل نکلا، جو پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق تھا۔ اسی دوران 11 اگست کی صبح کو وھٹبی میں ڈاکٹر صاحب کی نفسیاتی علاج گاہ:

Creative Psychotherapy Clinic میں ان کی آفس منیجر مارسلینا نینی کے ساتھ ایک تربیتی نشست تھی۔ میں تراجم کے ساتھ کتابوں کو آن لائن کرنے کا فن سیکھ رہا ہوں۔ میں نے نامور ناول نگار ڈاکٹر رفیع مصطفیٰ کے تعاون سے اردو کی کتب کو آن لائن کرنا سیکھ لیا ہے۔ مگر انگریزی کی کتابیں کیسے آن لائن کی جاتی ہیں؟ یہ سیکھنے کے لیے مارسلینا سے درخواست آنتاریو پہنچنے سے قبل ہی کر رکھی تھی۔ اس کا بندوبست ڈاکٹر خالد سہیل نے کیا تھا کیونکہ وہ ڈاکٹر صاحب کی ساٹھ سے اوپر تصانیف آن لائن کر چکی ہیں۔

پاکستان کے مقابلے میں یورپ اور شمالی امریکہ میں کتابوں اور لکھاریوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں موجود بڑے بڑے اشاعتی ادارے کتابیں علم و ادب کے فروغ کے لیے نہیں بلکہ پیسہ کمانے کے لیے چھاپتے ہیں۔ سب نے اپنے اپنے پینل پر نامور لکھاری رکھ چھوڑے ہیں۔ جن کی کتب چھاپ کر ایک برائے نام رائلٹی ان کو ادا کی جاتی ہے۔ مگر ایسے لکھاری پاکستان میں ایک دو درجن سے زیادہ نہیں ہوں گے ۔ البتہ اگر کوئی ہم جیسا نووارد کتاب لکھنے کی غلطی کر ڈالے۔ تو اس کو رائلٹی ادا کرنے کی بجائے سو پچاس کاپیاں پیش کر دی جاتی ہیں۔ اور پبلشر خود سینکڑوں کے حساب سے کتابیں چھاپ کر لاکھوں روپے کماتے ہیں۔

اس کے برعکس یورپ، جاپان، امریکہ اور کینیڈا میں کتاب مفت چھپتی ہے۔ قاری کتاب کو آئن لائن آرڈر کرتا ہے۔ پبلشر کتاب کو قاری کے پتے پر پہنچاتا ہے۔ گویا پبلشر کتاب کی قیمت قاری کے گھر پہنچا کر وصول کرتا ہے۔ اس میں لکھاری کو بھی معاوضہ ملتا ہے۔ اس کے ساتھ کتاب کی شہرت بھی اشاعتی ادارہ خود کرتا ہے۔

کینیڈا میں کتابوں سے محبت کا یہ عالم ہے کہ ہر یونین میں کم ازکم ایک اور ہر شہر میں متعدد لائبریریوں کے علاوہ جمز اور یوگا سنٹرز میں لائبریریاں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ لائبریریاں مفت ہیں جو لوگوں کی اپنی کتابوں سے چلتی ہیں۔ وہاں پر آپ اپنی کتاب عطیہ بھی کر سکتے ہیں اور وہاں سے کتاب گھر لے جا کر پڑھ بھی سکتے ہیں۔ یہ خود کار اور مفت لائبریریاں روڈ سائیڈ پر اور کمیونٹی سنٹرز میں ملتی ہیں۔

مارسلینا کے ساتھ دو گھنٹے کا سیشن لگانے کے لیے کلینک پہنچے تو کلینک میں ہر طرف چھوٹے بڑے، شیشے کے، دھات کے، ربڑ کے اور چینی کے بنے کچھوے دیکھ کر حیرت ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ کچھوے کو صبر، حوصلے اور مستقل مزاجی کی علامت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس حوالے سے خالد سہیل اپنی کتاب : تخلیقی اقلیت کے باب دوم میں لکھتے ہیں :

” کچھ ہفتے کلینک کی مصروفیت کے ساتھ ایک لگی بندھی زندگی گزارنے کے بعد میں ایک ہفتہ چھٹی کر لیتا ہوں۔ ان تعطیلات کے دوران میں اپنے تخلیقی دوستوں سے ملاقاتیں کرتا ہوں۔ اور اپنے نا مکمل تخلیقی پراجیکٹ مکمل کرتا ہوں۔ گھر سے باہر کا سفر میرے تخلیقی جذبے کو بلند کرتا ہے۔ اور میرے تخلیقی رس ایک نئے جوش کے ساتھ بہنے لگتے ہیں۔ جب میں ائرپورٹ پر، ہوائی جہاز میں یا دور کسی جزیرے کے ساحل پر بیٹھا ہوتا ہوں، یا دور دراز کی نگری میں اپنے دوستوں کے پاس ہوتا ہوں تو فارغ اوقات میں اپنے گزشتہ ہفتے کے کاموں پر نظر ثانی کرتا ہوں۔

اور آنے والے ہفتوں کی منصوبہ بندی کرتا ہوں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک زینہ طے کر کے بیٹھنے کی جگہ بنائی جاتی ہے۔ بلندی کا سفر طے کرنے کے بعد ہمیں کچھ دیر سستانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ ہم اپنی توانائی بحال کر کے اگلے سفر کے لیے تیار ہو جائیں۔ میرا فلسفہ یہ ہے کہ تخلیقی سفر ایک طویل دوڑ ہے۔ اس کے لیے میں کچھوے کا استعارہ استعمال کرتا ہوں۔ میرے کلینک میں چھوٹے بڑے مختلف مصنوعی کچھوے ہیں جن کو میں، صبر، حوصلے اور مستقل مزاجی کی علامت کے طور پر استعمال کرتا ہوں۔

لمبی عمر کے حامل کچھوے سست رفتار تو ہوتے ہیں مگر طویل مسافتیں طے کرتے ہیں اور بالآخر کامیاب ہوتے ہیں۔ جب کہ خر گوش کی طرح تیز دوڑنے والے عموماً سو جاتے ہیں۔ دوڑ میں دلچسپی کھو دیتے ہیں اور بالآخر ہار جاتے ہیں۔ میں ہمیشہ ان فنکاروں سے متاثر ہوتا ہوں جن کو تاحیات بہترین کارکردگی کا ایوارڈ ملتا ہے۔ نا کہ کسی یک وقتی کام کا۔ سنجیدہ لکھاری اپنے پیچھے ایک دو فن پارے نہیں چھوڑتا بلکہ اس کے ہاں کام کا ایک حجم ہوتا ہے۔“

مارسلینا کے ساتھ دو گھنٹے دو پل کی طرح گزر گئے۔ انھوں نے بہت صبر اور حوصلے سے میرے سوالات کے جوابات دیے اور کتاب آن لائن کرنے کا فن مجھے سکھایا۔ مارسلینا فلپائن نژاد ہیں مگر انگریزی بہت روانی سے بولتی اور لکھتی ہیں۔ میرا کینیڈا میں فلپائن نژاد جتنی بھی خواتین سے واسطہ پڑا ہے انھوں نے مجھے متاثر کیا ہے۔ ان خواتین میں خوش مزاجی، انکساری اور تعاون وافر مقدار میں دیکھے ہیں۔

ہماری اگلی منزل جھیل آنتاریو کے شمال مشرقی کنارے پر آباد قصبہ برلنگٹن میں عبدالغفور چوہدری کی رہائش گاہ تھی۔ جھیل آنتاریو کہنے کو تو جھیل ہے مگر حجم میں ایک چھوٹا سا سمندر ہی ہے۔ اس کا شمار دنیا کی چند بڑی جھیلوں میں ہوتا ہے۔ برلنگٹن بھی مسی ساگا کی طرح ایک بڑی میٹرو پولیٹن، ہیملٹن کا حصہ ہے۔ اور بہت ہی خوبصورت، ساحلی اور پر فضا مقام ہے۔ عبدالغفور چوہدری کا کارنر فلیٹ اس فلک بوس عمارت کی گیارہویں منزل پر ہے۔

جس کے دو اطراف میں مکمل شیشے کی کھڑکیاں ہیں۔ گویا آپ گھر میں بیٹھ کر سمندر نما جھیل، پائن کے گھنے درخت، سبزہ زار اور نیچے سوئمنگ پولوں کے نیلے پانیوں میں تیرتی پریوں کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ کاموکی منڈی پنجاب سے تعلق رکھنے والے چوہدری صاحب کی عمر ستاسی برس ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک پروفیشنل سوشل ورکر ہیں۔ نوکری چھوڑے 25 برس اور بیگم کو جدا ہوئے تینتیس برس ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ چوہدری صاحب کے بچے پرندوں کی مانند اپنی اپنی منزلوں کی جانب اڑ گئے۔ گزشتہ کئی برس سے چوہدری صاحب اکیلے رہتے ہیں۔ مگر اپنے آپ کو کبھی

Empty Nest Syndrome کا شکار نہیں ہونے دیا۔ کتابوں سے دلچسپی ہے اور زیادہ وقت اپنی چھوٹی سی خوبصورت لائبریری میں جس کی ایک کھڑکی جھیل کی طرف کھلتی ہے، کتابوں کے مطالعے میں یا سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں۔ مجھے ان کی لائبریری میں ڈاکٹر خالد سہیل کی تمام کی تمام کتابیں دیکھ کر ادبی رشک محسوس ہوا۔

چوہدری صاحب ایک سخی دل کے حامل ہیں۔ اور ان کا فلسفہ ہے کہ وہ نوکری کے دوران سماجی کام کی نسبت ریٹائرمنٹ کے سماجی کام میں زیادہ طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ انھوں نے بھمبر آزاد کشمیر میں اپنے ذاتی بجٹ سے کم وسائل کے حامل طلبا ٔ و طالبات کے لیے ایک ہائی اسکول تعمیر کروایا ہے۔ جس میں بچوں کی تعداد چار سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسکول کی کار کردگی بہت اچھی ہے اور اس کا انتظام و انصرام ایک فلاحی تنظیم Read Foundation کے پاس ہے۔ اسی طرح کا ایک اور ہائی اسکول اسکول ضلع گجرات کے شہر لالہ موسیٰ کے قریب سرمست نامی جگہ پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ جس کی زمین معروف ٹی وی اینکر جاوید چوہدری نے عطیہ کی ہے۔ جب کہ تعمیر کا خرچ عبدالغفور چوہدری برداشت کریں گے۔

انھوں نے مجھے اور ڈاکٹر سہیل کو دوپہر کے کھانے پر دعوت دے رکھی تھی۔ ایک خوشگوار، سدا بہار اور ہنس مکھ طبیعت کے حامل عبدالغفور چوہدری کھانا پکانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور دوسروں کو کھانا کھلا کر خوش ہوتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ مٹن قورمہ، قیمہ، دال سبزی اور لسی کے ساتھ ہماری تواضع کی۔ اس کے بعد میٹھا اور چائے پیش کرنے میں قصداً لمبے لمبے وقفے کرتے رہے۔ تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزار سکیں۔

کھانے کے بعد وہ ہمیں عمارت کی چھت پر بنے پینٹ ہاؤس لے گئے جس کو مکینوں کا کمیونٹی سنٹر بھی کہا جا سکتا ہے۔ جس میں کافی شاپ اور ٹی وی روم موجود ہیں وہاں رہائشیوں کے تعاون سے قائم مفت لائبریری دیکھ کر خوشی ہوئی۔ یہ عمارت اتنی بلند ہے کہ اس کی چھت سے نیاگرا فالز اور سی این ٹاور دیکھے جا سکتے ہیں۔ اور جھیل آنتاریو کا نظارہ بھی ہر دو جانب سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ (جاری ہے )

 

Aerial shots of Oswego Harbor, Fort Ontario, and SUNY Oswego overlooking Lake Ontario


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments