آئین سب سے زیادہ مظلوم ہے


ظلم ظالم اور مظلوم ایسی تکون ہے جس کا ہر زاویہ دوسرے سے الگ کرنا ناممکن ہے۔ ظالم ہو تو ظلم ہو گا ظلم ہو گا تو لازم ہے کہ کوئی مظلوم بھی ہو گا اس تکون کا کوئی زاویہ ختم کر دیا جائے تو باقی دو زاویئے بھی ختم ہوجائیں گے۔ دنیا میں ظلم کا آغاز کیسے کب اور کیوں کر ہوا اس کا تو علم نہیں لیکن یونانی دیوی دیوتاؤں کی داستانوں میں عشق و محبت دیوتاؤں کی فتوحات کے ساتھ ساتھ ظلم کی کہانیاں بھی ملتی ہیں۔ آسمانی مذہبی کتابوں میں فرعون نمرود ہامان شداد کے مظالم کی خبریں ملتی ہیں۔

حیرت تو اس بات پر ہے کہ اگر ظلم انسانی تاریخ کے غیر تہذیب یافتہ دور کی یادگار ہے تو آج کی تہذیب یافتہ دنیا میں اس کا خاتمہ کیوں نہیں ہو گیا؟ دنیا بھر میں ہر ملک ہر خطے اور ہر مقام پر ظلم کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ بچوں پر ظلم خواتین پر ظلم گھر کے خادموں پر ظلم مالک کا مزدور پر ظلم آجر کا اجیر پر ظلم کمزور اقلیتوں پر ظلم ملکوں کا کمزور ملکوں پر ظلم غرض ظلم مختلف شکلوں میں موجود ہے۔

امریکا میں جانوروں پر ظلم کے خلاف ایک تنظیم اے ایس پی سی اے کے نام سے کام کرتی ہے بڑی فعال اور بہت بڑی تنظیم ہے۔ جس کے سی ای او کو لاکھوں ڈالر سالانہ تنخواہ ملتی ہے لیکن اس میں اکثر کام کرنے والے رضاکار ہیں۔ یہ تنظیم ریس میں معذور ہو جانے والے، فارم ہاؤسز پر بوڑھے اور بیمار ہو جانے والے گھوڑوں کو گولی مار کر ختم کرنے کے خلاف ہے ایسے گھوڑوں کو خدا ترس لوگ اپنا لیتے ہیں اور ان کی طبعی موت تک ان کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔

کہا نہیں جاسکتا کہ اب جب کہ طویل بیماری سے تنگ آئے ہوئے انسان خود کشی کرنے کے حق کے لئے لڑ رہے ہیں ان معذور اور بیمار گھوڑوں کو زندہ رکھنا ظلم ہے یا انھیں گولی مار کر عذاب حیات سے چھٹکارا دلانا ظلم ہے۔ پاکستان میں اس انجمن کو انجمن انسداد بے رحمی حیوانات کہا جاتا ہے۔ عام لوگ اس محکمے والوں کو بے رحمی والے کہتے ہیں، یہ بے رحمی والے جب کسی مریل بیمار لاغر اور زخمی گھوڑے کو تانگے یا ریڑھے میں جتا ہوا دیکھتے ہیں تو کوچوان کو روک لیتے ہیں۔

کوچوان کو رکنے میں تاخیر پر اسی کے سانٹے سے رحم کا سبق سکھاتے ہیں اس کے بعد اس کا چالان کر دیتے ہیں یا بے رحمی کا معاوضہ وصول کر کے جانے دیتے ہیں کبھی کبھار گھوڑے کو کھول کر ہسپتال بھی لے جاتے ہیں جہاں کوچوان کو گھوڑے کے راتب کا خرچہ جرمانہ اور کچھ ”خرچی“ دینے پر گھوڑا ظلم سہنے کے لئے واپس مل جاتا ہے۔

لیکن ہمارے ہاں اس مظلوم گھوڑے، اور بیک وقت ظالم بھی اور مظلوم کوچوان سے بھی زیادہ مظلوم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین ہے۔ جس کے لئے کوئی اے ایس پی سی اے ہے نہ کوئی بے رحمی والے۔ وردی اور بندوق کے آگے اس آئین کی کوئی حیثیت نہیں اگر کچھ خوش فہم ترازو کو انسداد بے رحمی سمجھ کر فریاد لے جائیں تو ترازو میں ہمیشہ بندوق اور وردی کا پلڑا بھاری رہتا ہے آئین تو چند صفحات ہی ہیں کتنا وزن ہو گا؟ جن کے ہاتھ میں بندوق ہو وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کتابچے کی کیا حیثیت ہے وہ جب چاہیں اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال سکتے ہیں۔ ردی کی ٹوکری میں نہ بھی ڈالیں تو وہ اس پر اپنی من مانی کے ایسے ردے لگاتے ہیں کی یہ مرے ہوئے کیچوے کی طرح ایک طرف پڑا رہتا ہے۔ ترازو والوں نے اس کا وزن تو بندوق اور وردی سے کم کر ہی دیا تھا۔ ایک غضب اور ڈھایا کہ اس کی تشریح کو بھی الجھا دیا جب چاہا ایک تشریح کردی جب چاہا دوسری تشریح کردی۔ گویا

قرآن ترا حق ہے مگر اپنے مفسر
تفسیر سے قرآن کو بنا دیتے ہیں پاژند

یہ مظلوم شمع معموں کے چلیپائی اشاروں کا مجموعہ بن گیا ہے۔ خالی جگہ پر اپنی پسند کا لفظ لگا کر مرضی کے معنی نکال لیں۔

امریکا میں بھی سب کچھ مثالی نہیں ہے۔ معاشرے کی ناہمواریاں بھی موجود ہیں مظالم بھی ہیں۔ کبھی کبھار آئین کو بھی تختۂ مشق بنایا جاتا ہے لیکن امریکا میں اس کی شرح بہت کم ہے بالخصوص آئین کے معاملے میں عوام بیدار بھی ہیں اور حساس بھی۔ عوام آئین کی خلاف ورزی پر خاموش نہیں بیٹھتے اس کے لئے خواہ کتنی طویل جدوجہد کرنا پڑے اس سے گریز نہیں کرتے۔ حال ہی میں ٹیکساس کی ایک عدالت نے عدالت کے سابق فیصلے کو کالعدم قرار دے کر اسقاط حمل پر پابندی لگا دی۔

اسقاط حمل کے حامیوں کا خیال ہے کہ عورت کو اپنے پیٹ میں پلنے والے بچے کو رکھنے یا ضائع کرنے کا اختیار حاصل ہے اس کے اس اختیار پر پابندی غیر آئینی ہے۔ اسقاط حمل کے مخالفین بھی آئین کا حوالہ دیتے ہیں ان کا خیال ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں ایک جنین میں زندگی کے آثار پیدا ہو جاتے ہی تو وہ ایک زندہ انسان سمجھا جاتا ہے اور آئین اسے زندہ رہنے کا حق دیتا ہے جسے کوئی بھی چھین نہیں سکتا۔

ڈیموکریٹس کو عوام مزدوروں اور مزدور یونینز کی حمایت حاصل ہے جبکہ ریپبلیکن ہمیشہ بڑے تجارتی اداروں اور صنعت کاروں پر ٹیکس لگانے کے مخالف ہیں۔ اس لئے انھیں بڑی کارپوریشنز کی حمایت حاصل ہے۔ ڈیموکریٹس کو عام لوگ چندہ دیتے ہیں جبکہ ریپبلیکنز کو بڑے بڑے صنعت کار چندہ دیتے ہیں۔ ڈیموکریٹ کا موقف ہے کہ کارپوریشنز سیاسی جماعتوں کو چندہ نہ دیں۔ ڈیموکریٹس کو یہ فیصلہ پسند نہیں لیکن فیصلہ دینے والے جج کے خلاف کبھی کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالا جب کوئی موقع آتا ہے تو پورے زور و شور سے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور اس امید پر اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں کہ کسی موافق موقع پر اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ جیسے اسقاط حمل کے قانون میں ہوئی ہے۔ یہ اس لئے کہ امریکن اپنے آئینی حقوق سے دست بردار نہیں ہوتے۔ ووٹ دیتے وقت اس بات کو بھی مد نظر رکھتے ہیں کہ کس امیدوار نے کس قانون کے حق میں ووٹ دیا تھا اور کس نے مخالفت میں۔

امریکہ میں آئین کو بہت اہمیت دی جاتی ہے امریکی آئین پر اتنی کتابیں ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔ یہ زیادہ مہنگی بھی نہیں دو چار ڈالر میں کتاب مل جاتی ہے، جو کچھ مہنگی ہیں تو امریکا میں پبلک لائیبریری کا ایسا وسیع نظام ہے کہ یہ ہر محلے میں موجود ہیں ان میں بیٹھ کر ہر کتاب پڑھ سکتے ہیں بغیر کسی کرائے کے گھر بھی لے جا سکتے ہیں۔ آئین پر پانچویں گریڈ سے گیارہ ویں گریڈ تک کے لئے کتابیں بے شمار کتابیں ہیں۔ چھوٹے بچوں کی کتابوں میں آئین کے بارے میں کارٹونز اور تصاویر سے مدد لی گئی ہے۔

کچھ کالج آئین کی مفت تعلیم کے کورسز کراتے ہیں۔ 17 ستمبر، سارے امریکا میں یوم آئین کے طور پر منایا جاتا ہے۔ وفاق سے مالی امداد حاصل کرنے والے تمام سکولوں پر لازم ہے کہ وہ اس موقع پر طلبہ کی آئین سے آگاہی کا کوئی پروگرام ضرور رکھیں۔ ان پروگراموں میں باہر سے کسی مقرر کو بھی خطاب کے لئے بلایا جاتا ہے طلبہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک آئین لکھیں۔ آئین کی خاص خاص باتیں اجاگر کریں وہ آئین لکھیں گے تو اس میں کن چیزوں کا خیال رکھیں گے ان کے آئین کا مقدمہ کیسا ہو گا۔

ان مشقوں سے طلبہ آئین اور اس کی اہمیت کے ساتھ ساتھ امریکی آئین کی خاص خاص باتوں کو سمجھ جاتے ہیں۔ امریکی آئین میں بنیادی حقوق کے سلسلے میں پہلی دس ترامیم کو خاص اہمیت حاصل ہے انہیں قوانین حقوق کہا جاتا ہے طلبہ کو انھیں ازبر کرایا جا تا ہے۔ سکولوں میں اس سارے عمل کو یقینی بنانے کے لئے سکول کا پرنسپل تمام ٹیچروں کو یوم آئین سے پہلے ای میل بھیج کر انھیں یوم آئین کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں یاد دلاتا ہے۔ اگر ٹیچر ان ہدایات پر عمل نہیں کریں گے تو وہ وفاق کے قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار پائیں گے۔ امریکا میں یوں تو ہر ریاست کا اپنا اپنا قانون ہے لیکن وفاقی قانون کو تفوق حاصل ہے۔

امریکا میں غیرملکیوں کو گرین کارڈ کے بعد جب شہریت دی جاتی ہے تو ان کا ایک زبانی اور تحریری ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ زبانی ٹیسٹ میں سب سے پہلے ایک ہی سوال ہوتا ہے۔ امریکا کا اعلیٰ ترین قانون کون سا ہے؟ اس کا جواب ایک ہی ہے کہ امریکی آئین۔ اس کے بعد دوسرا سوال ہوتا ہے امریکی آئین کن الفاظ سے شروع ہوتا ہے؟ جواب ہے، ”ہم لوگ“ ۔ انگریزی میں یہ تین لفظ بنتے ہیں۔ طلبہ کو یوم آئین کی سرگرمیوں کے دوران یہ ٹیسٹ بھی دینا ہوتا ہے۔

ان سے پوچھا جاتا کہ وہ کن سوالوں کو اہم اور کن کو غیر اہم سمجھتے ہیں؟ تعلیمی میدان میں آئین کی تعلیم کے علاوہ عوام نے آئین پر عمل درآمد کے لئے تنظیمیں بنا رکھی ہیں ان میں سے ایک سینٹر فار کانسٹیٹیوشن کی مجھے روزانہ ایک میل آئی ہوتی ہے جس میں آئینی مسائل اور عدالتی فیصلوں کی خبریں ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایل ایل بی میں ایک پرچہ آئین کا ہوتا ہے جسے کم ہی اہمیت دی جاتی ہے اس کے بعد تعلیمی سطح پر یا دوسرے اداروں بشمول پارلیمنٹ آئین کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ اور تو اور وکلاء تنظیمیں بھی آئین کی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دیتیں آئین کی دہائی دینے والوں نے آئین پر عمل درآمد اور اس کا پہرہ دینے کے لئے تنظیمیں ہی نہیں بنائی۔ اسی لئے وردی بندوق اور ترازو نے آئین کو بازیچۂ اطفال بنا رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments