جنوبی پنجاب میں سیلاب۔ ادھوری اور بے سمت امدادی سرگرمیاں


کوہ سلیمان کے دامن میں واقع جنوبی پنجاب کے دو اضلاع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے باسی ہر سال دہری اذیت سے گزرتے ہیں۔ برسات میں سیلاب اور سال کے باقی دنوں میں خشک سالی۔

جب تک ان علاقوں میں بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے جھیلیں اور چھوٹے ڈیمز تعمیر نہیں ہوں گے یہ لوگ کبھی پانی اور کبھی پیاس سے مرتے رہیں گے۔

دونوں اضلاع کی آبادی تقریباً ساٹھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن میں سے تقریباً بیس لاکھ افراد سیلاب سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ سیلابی تباہ کاریوں سے بل واسطہ متاثر ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

یہاں ریسکیو کا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے اور اب امداد کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن یہ سلسلہ جس انداز میں جاری ہے اس سے یہ خدشہ ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ مدد سے مکمل طور پر محروم اور باقی کی زندگی معاشی سماجی اور نفسیاتی مسائل کے بوجھ تلے پستا رہے گا۔

ایسا کیوں ہے۔ آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ شہروں میں امدادی سامان اکٹھا کرنے کا کام پوری نیک نیتی اور جوش و جذبے سے جاری ہے۔ اور اشیائے خوردونوش، ادویات اور راشن سے بھرے ٹرک پنجاب کے مختلف اضلاع سے یہاں پہنچ رہے ہیں۔ لیکن یہ سارا سامان تمام متاثرین تک نہیں پہنچ رہا۔

انڈس ہائی وے کے دونوں اطراف خیمے طویل قطاروں کی صورت نصب ہیں اور ان خیموں میں بہت سے سیلاب زدگان عارضی طور پر رہائش پذیر ہیں۔ امدادی سامان سے لدے ٹرک آتے ہیں اور انہی خیموں میں سامان بانٹ کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان سڑکوں پر تقسیم ہونے والے امدادی سامان سے حقیقی متاثرین کم اور پیشہ ور بھکاری زیادہ فائدہ اٹھا جاتے ہیں۔

عزت نفس، خواتین کے پردے کی سختی، بچ جانے والے مویشیوں کی دیکھ بھال اور اپنی زمینوں پر قبضے کا خوف چند ایسے عوامل ہیں جن کے باعث سیلاب زدگان کی اکثریت امدادی کیمپوں میں جانے سے گریزاں ہے۔

اس حقیقت اور علاقے سے بے خبری کے باعث سوائے چند تجربہ کار غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کے، زیادہ تر امدادی کارکن اور مدد لے کر آنے والے دوسرے لوگ اندر کے علاقوں کا رخ ہی نہیں کرتے اور یوں لاکھوں لوگ بھوک اور بیماری کی حالت میں اپنے گھروں کے ملبے پر بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔

حکمت عملی سے کام لیا جائے تو اس مسئلے کا آسان حل موجود ہے۔ حکومتی یا نجی امداد کو نادرا، ضلعی انتظامیہ اور پٹوار خانے کے ریکارڈ کی روشنی میں تقسیم کرنے کا نظام چند روز میں وضع ہو سکتا ہے۔ بلکہ اگر پی ڈی ایم اے نے اپنا ہوم ورک کیا ہوتا تو یہ نظام پہلے سے ہی موجود ہوتا۔

ضلعی انتظامیہ اور پٹواری کے ریکارڈ میں تمام دیہات، ان دیہات میں قائم مکانات اور ان مکانات میں بسنے والے خاندانوں کی تمام تفصیل موجود ہوتی ہے۔ پٹوار خانے کے کھاتوں میں فصلوں کا اندراج بھی ہوتا ہے۔ اسی ریکارڈ کی روشنی میں تباہ شدہ فصلوں کا ازلہ بھی ممکن ہے اور سرکاری اور غیرسرکاری فلاحی اداروں کی مدد سے بحالی کا سامان متاثرین کی دہلیز تک بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ سیلاب زدگان کو صرف خوراک اور روزمرہ استعمال کی اشیا ہی نہیں چاہیں۔ انہیں اپنے بچوں کا تحفظ اور گھروں کی تعمیر نو بھی درکار ہے۔ وہ بھی ہنگامی بنیادوں پر۔

اب تک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈی جی خان اور راجن پور کی سیلاب زدہ بستیوں میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد مکانات جزوی یا مکمل طور پر منہدم ہو گئے ہیں۔ اور بے گھر ہونے والے افراد اتنی مالی سکت ہی نہیں رکھتے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت پکے نہ سہی کچے گھر ہی دوبارہ تعمیر کرسکیں۔

اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خیموں یا میدانوں میں بے آسرا بیٹھے یہ لوگ ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ یہ مکانوں کھیت اور کھلیانوں کے مالک تھے۔ امداد میں ملنے والی خوراک وقتی طور پر ان کا پیٹ تو بھر دیتی ہے لیکن ان کی بہت بڑی ضرورت اور مطالبہ گر جانے والے گھروں کی پھر سے تعمیر ہے۔ ان کے اپنے گھر جہاں یہ پھر سے ایک باعزت زندگی کا آغاز کرسکیں۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو گھروں اور انفرا سٹرکچر کی از سر نو تعمیر کے لیے عملی اقدامات تو دور کی بات کوئی منصوبہ بندی بھی نظر نہیں آتی۔

اس معاملے میں بھی نادرا اور ضلعی حکومت کے ڈیٹا کو سامنے رکھ کر اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور امدادی فنڈز کو بروئے کار لاتے ہوئے گرنے والے مکانوں کی ازسر نو تعمیر کا آغاز کیا ہو سکتا ہے۔ پختہ نہ سہی کچی ہی سہی۔ لیکن ان بدنصیبوں کو چھت تو مہیا کی جائے۔

جہاں تک سوال ہے میڈیا کی پہنچ کا تو سیلاب کی کوریج کے دوران ڈیرہ غازی خان شہر سے صرف پچیس کلومیٹر دور بستی اہم دانی کے رہائشیوں نے ہمیں بتایا کہ ان پر قیامت گزرے تین ہفتے ہو گئے لیکن اس دن تک کسی اور میڈیا ٹیم نے ان کے قصبے کا دورہ نہیں کیا تھا۔

یہ صورتحال ایک اور المیے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ مقامی نمائندے اور بڑے شہروں سے کوریج کے لیے جانے والی ٹیمیں ڈی جی خان اور راجن پور کے دور افتادہ علاقوں میں سیلاب زدگان کے مسائل کو حتی الا مکان اجاگر کر رہی ہیں لیکن ان کا زیادہ تر وقت بھی سیاست چمکانے کے لیے ان اضلاع کے دورے کرنے والی شخصیات کی کوریج میں ضائع ہوجاتا ہے۔

ریٹنگ کی دوڑ میں کوئی چینل بھی کسی بڑی سیاسی شخصیت کے دورے کی کوریج مس نہیں کرنا چاہتا اور اس دوران سیلاب زدگان کی کہانیاں ان کہی رہ جائیں تو رہ جائیں۔ اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments