’‘ اس دنیا میں انسان کی حیثیت ایک ذرے سے بھی کم ہے کہ اس ذرے نے ہمیشہ قائم رہنا ہے۔ جب کہ انسان نے جلد مٹ جانا ہے ”نوجوان وسیم تارڑ کے سفر نامے کے آغاز میں ہی اس فقرے نے مجھے چونکایا۔ یہ 2019 ء کی بات ہے کہ نوجوان وسیم تارڑ کو ترک وزارت خارجہ کی طرف سے ترکی آنے کی دعوت ملی مگر بربنائے تقدیر وہ ترکی جانے والے اس سرکاری وفد میں شامل نہ ہو سکا۔ جب تقدیر کے بکھیڑوں سے کچھ فرصت ملی تو اس نے جانا کہ ویزہ جو لگ چکا تھا اس کی مدت تو چھ ماہ ہے اور اس مدت کے ختم ہونے میں ابھی چند دن باقی ہیں۔

اس نے فوراً کمر کس لی اور یوں وسیم تارڑ عازم ترکی ہوا۔ اس کے سفر کی یہ دستاویز خاموش ہے کہ استنبول میں جا کر وہ کن معاملات میں گم ہو گیا کہ اچانک وہ نیند سے بیدار ہوا اور عین اس وقت اس کے ذہن پر قونیہ سوار تھا۔ وہ دن بھر کے تھکے ہارے رات کے دوسرے پہر نیند سے اچانک کیا جاگا کہ ذہن پر مولانا روم کے مزار پر جانے کی خواہش نے شدت پکڑ لی جب کہ اس کے ویزہ ختم ہونے میں صرف چند گھنٹے باقی رہ گئے تھے۔ بقول وسیم تارڑ کے اس کی یہ دیرینہ خواہش تھی کہ وہ مولانا روم کے مزار پر حاضری دے۔

بقول اس کے کون ہے جو مولانا روم کی شاعری پڑھے اگرچہ سرسری انداز میں ہی کیوں نہ پڑے اور وہ مولانا کے عشق میں گرفتار نہ ہو۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے محبوب کی زیارت کرنا چاہتا ہے، اسے ملنا چاہتا ہے۔ اگر محبوب کا تعلق سرحدوں سے باہر ہو تو ان کی مجبوریاں الگ۔ ہم اپنی بہت سی خواہشات کو اپنے ڈیپ فریزر میں فریز کر دیتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی آنے والے موسموں میں ان خواہشوں کے بیج پھل پھول لائیں گے۔ اگر کوئی شخص استنبول میں ہو اور چلنے کی کچھ نہ کچھ سکت بھی رکھتا ہو اور آنکھوں کی بصارت بھی موجود ہو وہ کیونکر مولانا روم کو بھول سکتا ہے۔

وسیم تارڑ استنبول میں موجود تھا اور یہ کیسے ممکن تھا کہ اسے قونیہ نہ بلائے۔ ترکی میں رہنے کا وقت دو دن سے بھی کم رہ گیا تھا۔ رات کے دوسرے پہر سیلانی کے سر میں قونیہ جانے کا بھوت سوار ہو چکا تھا۔ وسیم تارڑ اپنے میزبانوں کو سوتا چھوڑ کر اپنے سفری بیگ اٹھا کر اپنی رہائش سے باہر آیا اور میٹرو سٹیشن کی طرف چل پڑا۔

’‘ ترکی میں میرا ساتواں روز بھی گزر چکا تھا۔ اندھیرے میں ڈوبے ہوئے استنبول شہر کا منظر میرے کمرے کی کھڑکی سے دکھائی دے رہا تھا ”سفر نامے کا آغاز اس فقرے سے ہوتا ہے۔ گویا جب خدا نے کہا تھا روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی تھی یہ اسی تسلسل کا ساتواں روز تھا کہ وسیم تارڑ کے من بھیتر میں ایک چنگاری پھوٹتی ہے اسے اپنی بوڑھی ماں کی چندھیائی آنکھیں یاد آتی ہیں جو اس کی واپسی کی راہ تک رہی ہے جبکہ دل میں قونیہ جانے کی کسک جاگ اٹھی ہے۔ قونیہ جانے اور آنے کے لیے کم از کم بیس گھنٹے درکار ہیں جبکہ دستاویز ات کی ترکی میں رہنے کی عمر بیس سے کچھ ہی اوپر گھنٹے رہ گئی ہے۔

یہ جانے استنبول کا سحر تھا۔ یا مولانا روم کے قونیہ کی پکار تھی۔ جو وسیم تارڑ کو اپنے وطن سے اتنا دور کھینچ لائی تھی۔ اب رات کے اس پہر مولانا روم کے در پر حاضر ہونے کی خواہش جنون میں بدل چکی تھی۔ ایک سیاح کی نظر میں دن رات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ وہ شب و روز کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ فاصلوں اور طویل مسافتوں کی ایک سیاح کے لیے کوئی اہمیت نہیں ہوتی کہ اس کا جنم ہی سفر کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے مطابق سفر، حیات ہے۔ اور ٹھہراؤ، موت۔ وسیم چل رہا تھا۔

خوش قسمتی سے میٹرو سٹیشن پر آخری ٹرین مل گئی جس نے وسیم تارڑ کو بس اسٹیشن پہنچا دیا لیکن ٹکٹ گھر سے پتا چلا کہ قونیہ جانے والی آخری ٹرین روانہ ہو چکی ہے۔ ذہن کی کھڑکی کھلتی ہے اور ایک جھماکا ہوتا ہے کہ کیوں نہ انقرہ جایا جائے وہاں سے صبح قونیہ جانے والی ریل گاڑی مل جائے گی اور ٹکٹ گھر سے بابو نے نوید سنائی کہ انقرہ جانے والی گاڑی میں ایک آخری نشست ہے جو دست یاب ہے اور یوں قونیہ کی جانب جانے کے لیے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔

وسیم سوچ رہا ہے کہ سوال یہ ہے کہ کیوں ہر سال لاکھوں لوگ مرشد مولانا روم اور تبریز کی دھرتی قونیہ وارد ہوتے ہیں؟ محبت کے سلسلہ سے بندھا زائر سوچ رہا ہوتا ہے کہ وہ تو مولانا روم کی قبر کی مٹی کا ایک کنکر ہے۔ مولانا روم کے مزار کا صحن کی گھاس کا ایک تنکا ہے۔ جو اپنے کل سے ملنے کے لیے عازم سفر ہے۔ یہ سوچ کر مسافر نے انکھیں موند لیں۔ چھ گھنٹے کا یہ سفر نیند میں گزرا جب ایک طرف فسوں خیز سورج طلوع ہو رہا تھا عین اس وقت ایک بوڑھا انسپکٹر اس سے پاسپورٹ طلب کر رہا تھا۔ معمول کی پوچھ تاچھ کے بعد سفر دوبارہ شروع ہوا، انقرہ ایک گھنٹے کی مسافت پہ تھا۔

اس لینڈ سکیپ میں کیا سحر تھا کہ ایچی لیس، ہرکولیس، ہانئی بل اور کلاڈیئس جیسے عظیم جنگجوؤں نے ہزاروں سال قبل مشرق کے اس خطے کی طرف پیش قدمی کی۔ یہیں انسانی تاریخ کی اس وقت کی سب سے بڑی جنگ ٹروجن وار لڑی گئی۔ یونانی بحری بیڑے ایجئین کے راستے اس سر زمین کے ساحلوں پہ لنگر انداز ہوئے۔ یہیں سے چند سو میل کے فاصلے پر وہ تاریخی شہر ٹرائے تھا جس پر مغرب سے انسانی خون کے پیاسے خانہ بدوش یونانی حملہ آور ہوئے۔

دس ہزار سال قبل مسیح میں قدیم یونان کے سخت جان قبیلے اس سر زمین تک کیسے پہنچے ہوں گے۔ اور کیسے انہوں نے ایفی سس جیسے عظیم شہر کی بنیاد رکھی ہو گی۔ جسے دیکھ کر آج بھی دنیا بھر کے سیاح دنگ رہ جاتے ہیں۔ یہ کیسا طلسم ہوش ربا ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح میں حطی بھی اسی سرزمین کے عشق میں گرفتار ہوئے۔ سکندر اعظم بھی اپنی آبائی ریاست مقدونیہ سے اٹھ کر ان میدانوں کی طرف نکلا۔ اور حضرت ایوب انصاری نے بھی انہیں میدانوں کو سر کرنے کا خواب دیکھا۔

شہنشاہان روم، سلجوق، تاتاری اور پھر عثمانی ترک۔ سب کے سب آخر کس لیے اپنی آخری سانس اور خون کے آخری قطروں کہ بہہ جانے تک اس دھرتی کے گرویدہ رہے۔ یقیناً سر زمین روم میں کوئی بہت بڑا راز پوشیدہ ہے۔ جسے تلاش کرنا باقی ہے اور وسیم تارڑ اسی سوال کے جواب کی تلاش اور قونیہ میں مولانا روم کی دربار کی طرف جانے کے لئے انقرہ پہنچا ہے۔ اسے قونیہ پکار رہا ہے اور اسی پکار کی روداد وسیم تارڑ کا سفر نامہ ’‘ قونیہ مجھے بلا رہا تھا ”میں موجود ہے۔