عمران خان توہین عدالت کیس: معاملہ بگڑ گیا، عدالت، 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کرے گی

شیما صدیقی - صحافی، کراچی


شہزاد ملک، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ وہ توہین عدالت کیس میں عمران خان کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب سے مطمئن نہیں ہے۔ عدالت اب 22 ستمبر کو عمران خان پر فرد جرم عائد کرے گی۔

ضمنی جواب میں بھی مشروط معافی تک نہیں مانگی گئی: عدالتی معاون اختر حسین

اس سے پہلے عدالتی معاون اختر حسین نے دلائل میں کہا کہ ’جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں وہاں اب بھی جاگیردارانہ نظام چل رہا ہے۔‘

’جرگہ سسٹم کے خلاف کئی فیصلے ہیں مگر جرگہ سسٹم آج بھی ہے۔ ضمنی جواب میں بھی مشروط معافی تک نہیں مانگی گئی۔ ‘

عدالتی معاون اختر حسین کا کہنا تھا کہ ’پارٹی رہنما کو گرفتار کیا گیا اور اس پر ٹارچر کیا گیا، سخت ترین حالات میں غیر ارادی الفاظ کہے گئے۔اختر حسین نے شوکاز نوٹس کی حمایت کی۔

عمران خان نے عدالت سے کہا کہ عدالت نے ان کا موقف نہیں سنا جس ہر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکلا کا موقف سن لیا ہے اور اس کے بعد عمران خان کو بولنے کی اجازت نہیں دی۔

کیا کسی کی انا عدلیہ کے وقار سے زیادہ اہم ہے؟: چیف جسٹس اطہر من اللہ

عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے کیس چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا ’میں یا کسی کی انا عدلیہ کے وقار سے زیادہ اہم ہے؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’غیر مشروط معافی کی بات بھی نہیں کی گئی۔‘

اس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ’پچھتاوے کا اظہار اس کیس میں کیا جا چکا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’عدالت اس اظہار کے لیے کوئی اور ایکسپریشن چاہتی ہو تو بھی بتا سکتی ہے‘۔

مخدوم علی خان نے بھی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی مخالفت کر دی

عدالتی معاون مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ’عوامی اجتماع سے جوش و خطابت میں جو کہا گیا اس سے شاید عدالتی انتظام متاثر ہو،عوامی فلاح صرف انصاف کی فراہمی میں ہے۔ آپ نے خود کہا کہ آزادی اظہارِ رائے پر کوئی قدغن نہیں ہونا چاہیے۔‘

منیر اے ملک کے بعد مخدوم علی خان نے بھی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی مخالفت کردی۔

عدالتی معاون مخدوم علی خان کا بھی کہنا تھا کہ ’عدالت بڑے پن کا مظاہرہ کر کے عمران خان کو معاف کردے‘۔

مخدوم علی خان کا مزید کہنا تھا ’اعلیٰ عدلیہ اور ماتحت عدلیہ کے احترام میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔‘

پہلے بھی کہا تھا ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے: چیف جسٹس

عمران خان کے خلاف توہین عداکت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ’کیا آپ یقین کریں گے کہ ماتحت عدلیہ کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ جیسا سلوک ہوگا، آخری سماعت پر ، ایک خاتون جج کا نام لیا گیا، شیم کیا گیا، کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کو صاف کیا جائے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کیا آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ میں ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل ہے۔ کیا بیان دینے اور اشتعال دلانے میں فرق نہیں ہے؟

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہؤئے کہا کہ ’عوامی اجتماع سے جوش و خطابت میں جو کہا گیا اس سے شاید جوڈیشل ایڈمنسٹریشن متاثر ہو، آپ نے خود کہا کہ آزادی اظہارِ رائے پر کوئی قدغن نہیں ہونا چاہیے۔‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا ’لیڈر کا رول معاشرے میں اہم ہے جو معاشرے کو بدل سکتا ہے۔ ‘

اس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ’مفاد عامہ انصاف کی فراہمی میں ہے تو اظہار رائے کی آزادی میں بھی، امریکہ میں صدر نے عدالتی فیصلے کو بدترین کہا تھا۔ وہاں عدلیہ نے گریز کا مظاہرہ کیا دوسرا راستہ نکالا وہ نکالتے ہیں۔‘

اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا ’امریکہ میں ہی مگر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاونٹ معطل ہوا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاونٹ پیروکاروں کو اشتعال دلانے پر معطل ہوا تھا۔‘

توہین عدالت کا قانون استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے: منیر اے ملک

منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان پر جوڈیشل اور کریمنل توہین عدالت کا الزام ہے، عدالتیں توہین عدالت کیسز میں بہت تحمل کا مظاہرہ کرتی ہیں، شوکاز نوٹس میں تین قسم کے الزامات لگائے گئے۔‘

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد ہائیکورٹ کا جو معیار ہے کوئی اس پر اثرانداز نہیں ہوسکتا، توہین عدالت کا قانون عدلیہ کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، توہین عدالت کا قانون استعمال کرتے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ درست ہے کہ توہین عدالت میں سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، یہ بات بھی مگر اپنی جگہ ہے کہ توہین عدالت کا قانون مسلسل نمُو پذیر ہے، عدالت سے باہر کہی گئی کوئی بات اسلام آباد ہائیکورٹ پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔‘

منیر اے ملک کا کہنا تھا ’میں آخری شخص ہوں گا جو مانوں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر تقریر کااثر پڑا۔‘

عدالتی معاون ، سینئر قانون دان منیر اے ملک نے عمران خان کیخلاف توہین عدالت کارروائی کی مخالفت کر دی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’الفاظ افسوسناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔‘

عمران خان کے جواب میں اظہار افسوس ہے مگر کوئی پچھتاوا نہیں: اٹارنی جنرل

عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں اٹارنی جنرل کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا ’ماضی میں بھی اور آج بھی سیاسی جلسے میں جج کے حوالے سے لفظ شرمناک استعمال کیا گیا، جواب میں اظہار افسوس کیا گیا مگر کوئی پچھتاوا نہیں‘۔

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں جمع کردہ عمران خان کا جواب عدالت کو پڑھ کر سنایا۔

اٹارنی جنرل کا دلائل میں کہنا تھا ’عمران خان کی تقریر کا مقصد اور اثرات بہت اہم ہیں‘۔

اٹارنی جنرل نے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔ ان کے بعد عدالتی معاون منیر اے ملک نے دلائل شروع کیے ہیں۔

عدالت بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیس ختم کرے: حامد خان

عدالت نے کچھ گذشتہ مقدمات کا ذکر بھی کیا تاہم چیف جسٹس اطہر من اللہ نے واضح کیا کہ ’ہمارے سامنے جوڈیشل اور کریمنل توہین ہے جو بہت حساس معاملہ ہے۔‘

حامد خان نے عدالت سے کہا کہ ’عدالت بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیس ختم کرے۔‘

انھوں نے سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا تھا اس عدالت سے بھی وہی توقع ہے۔’

عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔

اٹارنی جنرل کی جانب سے دلائل جاری ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا ’’سپریم کورٹ نے معاف کیا یہ سمجھتے ہیں بار بار وہی کریں بار بار معافی ہو۔ عمران خان کو اس بار صرف نوٹس نہیں شوکاز نوٹس ہوا تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’شوکاز نوٹس کا جواب بیان حلفی کے ساتھ آجانا چاہیے تھا، جواب کے ساتھ کوئی بیان حلفی موجود نہیں ہے۔‘

سوشل میڈیا پر جھوٹے الزامات کا سب سے بڑا شکار عدلیہ ہوتی ہے: چیف جسٹس اطہر من اللہ

عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے موقعے پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا ’شہباز گل کیلئے 6 میڈیکل بورڈز بنائے گئے، 14 ڈاکٹرز نے انہیں چیک کیا، کسی نے نہیں کہا کہ شہباز گل پر تشدد ہوا، کیا آپ نے یہ بات اپنے موکل عمران خان کو نہیں بتائی؟

چیف جسٹس نے اس موقعے پر کہا کہ ’فی الحال اس کیس کو چھوڑ دیتے ہیں۔‘

اس موقعے پر عمران خان کے دوسرے وکیل شعیب شاہین ایڈووکیٹ ’آپ اسی عدالت کا آرڈر دیکھ لیں جس میں سپرٹنڈنٹ جیل نے کہا کہ تشدد ہوا۔‘

شعیب شاہین ایڈووکیٹ روسٹرم پر آ ئے اور کہا ’جیل سپرنٹنڈنٹ کے میڈیکل افسر نے کنفرم کیا تھا کہ جسم پر نشانات تھے۔‘

اس پر چیف جسٹس نے کہا ’آپ اپنے لیے چیزوں کو مشکل نہ بنائیں، آپ کی پوری لیگل ٹیم سماعت کے موقع پر موجود تھی، اب آپ کا تاثر معنی رکھتا ہے یا جوڈیشل آرڈر؟

اس پر حامد خان ’میں اس طرف نہیں جا رہا بلکہ کیس ختم کرنے کی بات کر رہا ہوں، خاتون جج کو دھمکی دینے کی کوئی نیت نہیں تھی۔ اگر خاتون جج کو دھمکی لگی تو ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’ہم نے جلوسوں میں کہا کہ عدلیہ قابل احترام ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔‘

چیف جسٹس نے اس پر کہا ’سوشل میڈیا کو جھوٹے پروپیگنڈا کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور عدلیہ اس کا نشانہ ہے، سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے ذمہ دار سیاسی جماعتوں کے لیڈرز ہیں۔ کیا کسی لیڈر نے کہا کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال نہ کریں۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا ’بدقسمتی سے جھوٹے الزامات کا سب سے بڑا شکارعدلیہ ہوتی ہے۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا ’یا تو ہم اس نظام پر اعتماد کریں یا سب چیزیں جلسے میں طے کریں۔‘

حامد خان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کو معلوم نہ تھا کہ اپیل ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، یہ معلوم تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر ہو سکتی ہے۔‘

اس پر جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ ’تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپیل دائر ہونے کی صورت میں کیس پر اثرانداز ہونا چاہ رہے تھے؟‘

اگر اس پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ پسند نہ آیا تو وہ اس کے خلاف بھی کھڑے ہو کر وہی بات کریں گے: عدالت کا استفسار

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا ’نہال ہاشمی کیس میں کسی جج کا نام نہیں تھا معافی بھی مانگی گئی لیکن پھر بھی معافی نہیں ملی‘

اس پر حامد خان کا کہنا تھا ’عمران خان کی تقریر یکسر مختلف ہے۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا ’ضلعی عدلیہ کی جج کو دھمکی سپریم کورٹ جج سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ آپ توجیہات پیش کرکے مقدمہ لڑنا چاہتے ہیں؟

اس پر حامد خان کا کہنا تھا ’نہیں ہم توجیہات پیش نہیں کررہے صرف وضاحت کررہے ہیں۔‘

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا ’ہمارے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے کبھی توہین عدالت کیس نہیں بناتے، ہمارے بارے میں ’شرمناک‘ لفظ کہہ دیتے تو ہم کبھی برا نہ مناتے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’یہاں معاملہ مختلف ہے، سپریم کورٹ کے جج کیخلاف توہین سے زیادہ سنگین ہے۔ یہاں خاتون جج کو دھمکی دی گئی اور مقدمہ عدالت میں زیرالتوا تھا۔‘

اس موقعے پر جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا ’ہماری عدالت کسی کے خلاف حکم دے اور وہ باہر کھڑا ہو کر کہے کہ میں جج کو نہیں چھوڑوں گا، کیا یہ ٹھیک ہوگا؟‘

انھوں نے استفسار کیا کہ ’اگر اس پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ پسند نہ آیا تو وہ اس کے خلاف بھی کھڑے ہو کر وہی بات کریں گے؟ کیا جس کو فیصلہ پسند نہ آئے وہ ایسا رویہ اختیار کر سکتا ہے؟‘

جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا ’آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عمران خان نے جو کہا وہ ٹھیک تھا، دنیا نے غلط مطلب لیا؟ ‘

اس موقعے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوال کیا ’مدینہ منورہ میں کیا ہوا تھا ؟ وہاں اشتعال دلوایا گیا ؟‘

’سیاسی لیڈر کی بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، لوگ فالو کرتے ہیں، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے سیکھنا چاہیے، مدینہ منورہ میں جو کچھ ہوا وہ بھی اشتعال دلانے کا نتیجہ تھا‘

ان کا مزید کہنا تھا ’آپ کو بار بار یہ چیز سمجھا رہے ہیں کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے، پولیٹیکل لیڈر پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کیا الفاظ استعمال کرے، ہمیں حضور کی ذات اور فتح مکہ سے سیکھنا چاہیے۔ ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں جس طرح کی لینگوئج استعمال کی گئی وہ انتہائی نامناسب تھی۔ ‘

چیف جسٹس نے حامد خان کو ہدایت ’آپ اپنے دلائل مکمل کرلیں‘۔

عمران خان نے رویے سے بھی ظاہر نہیں کیا کہ انھیں افسوس ہے: عدالت

سماعت کے دوران جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ’عمران خان نے اپنے رویے سے بھی یہ نہیں ظاہر کیا کہ انھیں افسوس ہے، تقریر اور توہین عدالت کیس کے بعد بھی تقریروں میں توجیہات پیش کی جاتی رہی۔‘

اس موقعے پر اسلام آباد کے چیف جسٹس کا کہنا تھا ’حامد صاحب ججز کی فیلنگز چھوڑ دے آپ، کسی جج کی فیلنگز نہیں ہے‘

حامد خان کا کہنا تھا ’آپ نے خود کہا کہ خاتون جج کے ساتھ کچھ ہو سکتا ہے، پشاور جلسے میں بھی کہا گیا کہ آزاد اور خود مختیار عدلیہ چاہتے ہیں، تمام پارٹی کارکنان کو منع کیا گیا کہ خاتون جج کے حوالے کوئی سخت الفاظ نہ کہیں‘

اس موقعے پر جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا ’کیا آپ کا موکل اپنے بیان کو جسٹیفائی کرنا چاہتے ہیں؟ جسٹیفائی کرنا بھی تو ایک قسم کی دھمکی ہے،جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ دھمکی آمیز تھے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا ’عوامی جلسے میں جو کچھ کہا گیا وہ آپ چاہیں تو ہم اسے یہاں چلا سکتے ہیں۔‘

اس دوران عمران خان کے روسڑرم پر آنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ دوران سماعت تسبیح پڑھ رہے تھے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ نے بھی عمران خان کو توہین عدالت کے حوالے سے تنبیہ کی تھی، آپ اب پھر کہہ رہے ہیں کہ آئندہ نہیں کروں گا، آپ بہت خطرناک موڑ کی ظرف جا رہے ہیں۔‘

حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان بیان پر کچھ وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔

عمران خان نے کوئی دھمکی نہیں دی شاید محسوس زیادہ کرلی گئی: حامد خان

توہین عدالت کے مقدمے کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ’یہ صرف خاتون جج کے خلاف بیان نہیں اشتعال دلانے کا کیس ہے۔ اگر خاتون جج لاہور جائیں اور کوئی اس بیان کے بعد انہیں نقصان پہنچائے تو کون ذمہ ہوگا؟‘

جسٹس بابر ستار نے کہا ’کیا ایک رہنما ایک جج کے خلاف قانونی کارروائی کی بات عوامی جلسے میں کرسکتا ہے؟‘

اس پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ’قانونی کارروائی کرنا تو ہر کسی کا حق ہے، خاتون جج کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا مقصد نہیں تھا۔‘

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ’جج کے کوئی جذبات نہیں ہوتے، عدالت اور قانون کا احترام ہوتا ہے۔‘

جسٹس بابر ستار نے اس موقعے پر کہا کہ ’کیا عوام مقام پر کھڑے ہوکر آپ قانونی ایکشن کا اعلان بھی کرسکتے ہیں؟ ‘

عدالت کا کہنا تھا ’آپ کے جواب کے بعد بھی خاتون جج کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر موجود ہے، کل وہ کہیں موٹر وے پر جاتے رکیں گی اور کوئی نقصان ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی وہاں ان کے ساتھ نامناسب سلوک کر رہا ہو گا۔‘

جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا ’سیاسی لیڈر پبلک میں کھڑا ہو کر لیگل ایکشن کی دھمکی بھی کیسے دے سکتا ہے؟ سیکشن نائن پڑھیں آپ اس میں لیگل ایکشن کا طریقہ دیا گیا ہے، فورمز قانون میں بتائے گئے ہیں ، فورم پبلک میٹنگ نہیں ہے۔‘

اس پر حامد خان کا کہنا تھا ’ہم نے قانونی کارروائی قانون کے دائرے سے باہر جا کر تو نہیں کرنا تھی، عمران خان نے کوئی دھمکی نہیں دی شاید محسوس زیادہ کرلی گئی۔‘

اگر یہی الفاظ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں ادا کرتے تو یہی جواب ہوتا آپ کا؟: عدالت کا استفسار

عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں جسٹس بابر ستار نے کہا ’ آپ نے کہا کریمنل توہین کا ذکر نہیں، شوکاز میں صاف لکھا ہے عمران خان نے کریمنل اور جوڈیشل توہین کی۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ’آپ نے جواب میں شہباز گل پر تشدد کو ’مبینہ‘ نہیں لکھا، معاملہ ابھی بھی عدالت میں ہے،۔ آپ اپنے جوابات میں توہین عدالت کو جسٹیفائی کر رہے ہیں۔‘

اس پر عمران خان کے وکیل ’جسٹیفائی اور وضاحت دینے میں فرق ہوتا ہے، میں وضاحت دے رہا ہوں۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا ’کیا سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے جج کیخلاف بات کی گئی ہوتی تو کیا آپ کا یہی جواب ہوتا؟ یہ بتائیں کہ یا تو فیصلے جلسوں میں ہوں گے اور یا عدالتوں میں۔‘

عدالت کا کہنا تھا ’ ستر سالوں میں جو ہوا اچھا نہیں ہوا، یہ عدالت بہت ہی محتاط رہتی ہے، اگر سپریم کورٹ کے جج کے لیے اسی آواز میں وہی الفاظ کا استعمال ہوتا تو یہی جواب آتا۔‘

حامد خان کا کہنا تھا ’ہمارے لیے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابل عزت ہے، مجھے نہیں معلوم کہ تب الزام کیا ہوتا۔‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا ’عدالت کے گذشتہ آرڈر کے بعد بھی یہ ریپلائی فائل کیا گیا، آپ یہ کیس لڑنا کرنا چاہتے ہیں؟‘

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا ’ضلعی عدلیہ کے ججز بہت مشکلات کا شکار ہیں۔ اگر یہی الفاظ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں ادا کرتے تو یہی جواب ہوتا آپ کا؟‘

اس پر عمران خان کے وکیل حامد خان ’ہم نے لکھا کہ جج کے احساسات کو ٹھیس پہنچی تو اس پر شرمندگی ہے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا ’ججز کے کوئی احساسات نہیں ہوتے، جج کے بارے میں اشتعال انگیزی پھیلائی گئی، وہ جج کہیں جا رہی ہوں تو ان کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آ سکتا ہے۔‘ اس کورٹ نے آپ کو طریقے سے معاملات کی سنگینی سمجھا دی ہے‘۔

عدالت نے استفسار کیا ’یہ الفاظ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے لیے استعمال ہوتے تو کیا یہی آپ کا یہ جواب ہوتا‘۔ اس پر حامد خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا ’وہ تو حالات کے مطابق جواب ہوتا‘

کیا ایک سابق وزیراعظم کا یہ موقف درست ہے کہ قانون کے بارے میں علم نہیں تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیا کوئی سابق وزیر اعظم توجیہ پیش کرسکتا ہے کہ مجھے قانون کا پتہ نہیں تھا۔

خاتون جج کو دھمکی دینے کے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کے وکیل حامد خان سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیے کہ پچھلی دفعہ بھی آپ کو سمجھایا تھا کہ ایک شخص کا سٹیٹس بھی جرم کی نوعیت کا اندازہ لگانے کیلئے اہم ہوتا ہے۔

’آپ بتائیں کہ کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق درست ہے؟ آپ نے اپنے جواب میں جسٹیفیکیشن دینے کی کوشش کی۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ایک سابق وزیراعظم کا یہ موقف درست ہے کہ قانون کے بارے میں علم نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی توہین کرنے والا بیان دینا، موقع و محل بہت اہم ہوتا ہے۔

انھوں نے ریمارکس دیے کہ بہت بڑا جرم کیا گیا لیکن احساس نہیں ہے۔ ’عوامی مقامات پر کسی کی بھی بے عزتی کردی جاتی ہے۔‘

بنچ میں شامل جسٹس بابر ستار نے حامد خان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ ایک شوکاز نوٹس کا جواب دے رہے ہیں۔ ’اسی شوکاز نوٹس کا پیرا پانچ پڑھیں۔‘

توہین عدالت کیس: فوجداری توہین پر صرف نظر نہیں کر سکتے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ میں خاتون جج کو دھمکی دینے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو بنچ کے سربراہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کے وکیل حامد خان کو دلائل دینے کی دعوت دی۔

حامد خان نے موقف اختیار کیا کہ عمران خان کے نئے جواب کی روشنی میں توہین عدالت کا مقدمہ بند کر دیا جائے۔

حامد خان نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے سپریم کورٹ کے توہین عدالت کیسز کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ طلال چوہدری اور دانیال عزیز کیسز عمران خان کیس سے بہت مختلف ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ ہم اس معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے حامد خان کو دلائل سے روک کر کہا کہ یہ کریمینل توہین ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت تین طرح کی ہوتی ہے۔ دانیال عزیز اور طلال چودھری کے خلاف کریمنل توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی، ان کے خلاف عدالت کو سکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا۔

چیف جستس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کی کریمنل توہین ہے۔ آپ کا جواب پڑھ لیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے ہم پر بائنڈنگ ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ فوجداری توہین پر صرف نظر نہیں کر سکتے، فوجداری توہین بڑی سنگین ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماتحت عدلیہ کا وقار ضروری ہے، مجروح کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

انھوں نے ریمارکس دیے کہ کریمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس میں آپ کوئی توجیہ پیش نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ ہم اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

جیل جا کر اور خطرناک ہو جاؤں گا، عمران خان

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ ’میں جیل جا کر اور خطرناک ہو جاؤں گا۔‘

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کمرہ عدالت کی جانب جاتے ہوئے صحافیوں کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ حکومت ان کو گرفتار کرنے کا پلان بنا رہی ہے تو انھوں نے کہا کہ ’وہ تو بہت دیر سے کوشش کر رہے ہیں۔‘

ان سے دو بار سوال کیا گیا کہ کیا آپ عدالت سے معافی مانگیں گے تو عمران خان خاموش رہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’میں جیل میں جا کر اور خطرناک ہو جاؤں گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments