خان عبد الو لی خان: زندگی اور جدوجہد


خان عبد الو لی خان کی زندگی اور جدوجہد کسی شخص کی انفرادی زندگی اور جدوجہد نہیں بلکہ ان کے سات دہائیوں پر محیط مبارزے میں پوری پختون قوم کی زندگی جھلکتی ہے، اور ان کا مبارزہ اگر ایک طرف ہمارے ماضی کی محرومیوں کے خلاف خدائی خدمت گار تحریک، آل انڈیا کانگریس، نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی جدوجہد کی ایک تاریخ ہے تو دوسری جانب یہ پختون قوم کے لئے مستقبل کا لائحہ عمل بھی ہے۔

خان صاحب صاف گو اور شفاف دل کی مالک تھے، نہ کسی کے لیے حسد کا جذبہ رکھتے تھے نہ کسی سے کینہ رکھا۔ آپ ایک تحمل مزاج، خوددار، با اصول انسان اور بالغ نظر سیاستدان تھے۔ ولی خان کا سب سے بڑا وصف ان کے لہجے میں اپنے سیاسی مخالفین کے لیے بھی احترام کا جذبہ تھا۔ وہ اپنے سخت دشمن کے بارے میں بھی کبھی کوئی ایسا منفی تاثر قائم یا جملہ منہ سے نہیں نکالتے تھے جس کو اخلاقی پستی کے زمرے میں شامل کیا جا سکے۔ ایم آر ڈی تحریک کے دوران سبی میں آپ جلسہ سے خطاب کر رہے تھے کہ ایک کارکن نے جذباتی ہو کر جنرل ضیاء الحق کو گالی دی۔ آپ نے اسے سختی سے منع کیا اور اس کا برا منایا اور کہا کہ ضیاء سے ہمارا جنگ سیاسی ہے اور ہمیں سیاست ہی کے ذریعے یہ جنگ لڑنی ہوگی۔

پہلی مرتبہ 1943 ء انگریز سرکار کے خلاف ”ہندوستان چھوڑ دوں“ تحریک میں جدوجہد کرنے کی پاداش میں ایف سی آر کے تحت خان صاحب کو گرفتار کر دیا گیا۔ عدالت نے تین سال کی سزا سنائی۔ قیام پاکستان کے بعد 4 جولائی 1948 ء کو سرحد حکومت کے ایک آرڈیننس جس کے تحت خدائی خدمت گاروں کی تنظیم کو خلاف قانون، حکومتی مخالفین کو پاکستان اور اسلام دشمن قرار دے کر خان صاحب کو دوسرے خدائی خدمت گاروں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔

14 نومبر 1953 ء کو تقریباً پانچ سال پانچ مہینے اور پانچ دن مسلسل بغیر کسی مقدمے اور جرم کے قید میں رہنے کے بعد اپ کو رہا کیا گیا۔ حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے بعد 9 فروری 1975 ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) پر پابندی لگا دی اور خان صاحب جو اس وقت نیپ کی مرکزی صدر تھے گرفتار کر لیا گیا۔ اپ کو ساتھیوں سمیت پہلے پنڈی سے سکھر جیل اور پھر حیدرآباد جیل منتقل کیا گیا۔ حکومت نے اپ اور نیپ پر غداری اور ملک توڑنے کے سازش کا مقدمہ بنایا جو پھر حیدرآباد سازش کیس کے حوالے سے مشہور ہوا۔ آزاد قانونی حلقوں نے اس مقدمے پر شدید تنقید کی۔ جمہوری اور قانونی حلقوں نے اسے ولی خان اور نیپ پر ظلم کے مترادف قرار دیا۔

دسمبر 1977 ء کو ضیاء نے مارشل لاء میں اس نام نہاد مقدمے سے اپ کو رہائی ملی۔ خان صاحب کے الفاظ میں جیل کی زندگی ”حساس لوگوں کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اپ ان کو قید تنہائی میں ڈال دیں۔ کوشش ان کی یہ ہے کہ اپ کے حوصلے کو توڑ دیں، آپ کے جذبے کو توڑ دیں، آپ کی قوت ارادی کو توڑیں لیکن اگر مقصد نیک ہو تو پھر دوزخ کی آگ کو بھی پار کر لیا جاتا ہے۔ جیل میں اپ کی کمر ٹوٹ جاتی ہے ختم ہو جاتے ہیں۔ جب اپ جل کر نکلتے ہیں تو پھر دنیا کی کوئی چیز آپ کو روک نہیں سکتی یا تو اپ پھسل جاتے ہیں، اگر پھسلتے نہیں تو واقعی لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ جیل جانے کا فائدہ ہے۔ “

اقتدار نے خان صاحب سے بھیک مانگی۔ محمد علی بوگرہ نے کہا اؤ ہمارے ساتھ مل کر قوم اور ملک کی خدمت کروں۔ سکندر مرزا نے کابینہ میں، ایوب نے پہلے وزیر پھر سفیر، بھٹو نے پی این اے تحریک کے دوران مرکز میں وزارتیں اور ضیاء نے وزیراعظم کا عہدہ دینے تک کوشش کی لیکن آپ نے ہمیشہ یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ تمہارا نام اقتدار ہے تم قومی امانت ہو، تمہیں قوم کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تم کوئی کیسی نہیں کہ رات کے تاریکی میں چند لوگوں سے جوڑ توڑ کر کے تمہیں حاصل کیا جا سکے۔

تم بھی اپنے وقار کو برقرار رکھو۔ اس قدر پست نہ ہو جاؤ کہ لچے تمہیں تاریکی میں اغوا کرتے پھریں۔ اتنے سخت بنو کہ قوم کے فیصلے کے بغیر کوئی تمہارا قرب حاصل کر نے کے با رے میں سوچ بھی نہ سکے۔ ہم ہر وقت ہر حال میں اپنی قوم کے خدمت کے لیے تیار ہیں۔ لیکن خدمت کے لیے ہمیں قوم کہیں۔ حکومت کے ارکان یا حکومت کے کسی سربراہ کو ہم یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ نامزدگیوں کے ذریعے لوگوں کو اقتدار میں شامل کریں۔ یہ قوم کا حق ہے جسے قوم ہی استعمال کر سکتی ہے۔

خان صاحب پاکستان کے خلاف کسی بھی سازش میں شریک نہیں ہوئے بلکہ ہر موقع پر ملکی سالمیت کو پیش نظر رکھا۔ ایک موقع پر جنرل ایوب نے کہا ”ولی خان یاد رکھو ہم جب تک مشرقی پاکستان سے جان نہیں چھڑاتے ملک ترقی نہیں کر سکتا، ہمیں یہ کام کرنا پڑے گا“ ۔ اپ نے جواب میں کہا ”اپ اس لیے ملک کے ایک حصے کو الگ کرنا چاہتے ہیں کہ جن قوتوں کو پاکستان کے سالمیت عزیز نہیں وہ اپ کے اقتدار کا سہارا بن جائیں اور آپ مزید چند سال تک اس قوم پر مسلط رہیں۔

ہم آپ کو ایسا نہیں کرنے دیں گے اور جو شخص اپ کے بعد چور دروازے سے اگر یہ اقدام کرنا چاہیے گا ہم حتی الامکان اسے بھی روکیں گے۔ پاکستان ہمارا ہے ہم اس کے سالمیت کی حفاظت کریں گے۔ ہم اس کے حفاظت کے لیے خون بھی دیں گے۔ جان بھی دیں گے“ ۔ خان صاحب پھر بھی غدار ٹھہرے ملک دشمن ٹھہرے اور جس نے یہ سب کچھ کیا سب وفادار رہے، محب وطن رہے۔

1971 ء کے جنگ میں ہتھیار ڈالنے والے پاکستانی فوج کی ہندوستانی قید سے رہائی اور باقی ماندہ پاکستان کے کچھ علاقوں پر قابض ہندوستانی فوج کی واپسی جیسے گمبھیر مسائل پر نئی دہلی کے حکمرانوں سے مذاکرات کے لیے بھٹو صاحب نے شملہ روانگی سے قبل قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ قومی اسمبلی میں اظہار اعتماد کی قرارداد پر تقریر کا آغاز کرتے ہوئے آپ نے بھٹو صاحب کو براہ راست مخاطب کیا اور کہا ”اگر چہ مجھے اپ پر اعتماد نہیں لیکن پھر بھی اپنے اعتماد کا ووٹ دے رہا ہوں تاکہ شملہ میں مذاکرات کے دوران اپ جو موقف اختیار کریں اسے پاکستان کا متفقہ آواز سمجھا جائے۔

شملہ سے مذاکرات میں تعطل کی خبر آئی تو اپ نے مسز اندرا گاندھی اور کانگریس کے کئی لیڈروں کو ذاتی پیغام بھیجے تھے جن کے ذریعے اپیل کی گئی تھی کہ“ دو پاکستانیوں جنرل یحیٰی اور بھٹو کی غلطیوں کی پاکستان کو مزید سزا نہ دی جائے ”۔ یہ اپیل اس قدر کارگر ہوئی تھی کہ بھٹو سے اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ پاکستان واپس جاکر خان صاحب کا شکریہ ادا کریں۔

شروع میں جب 1947 ء میں آئین ساز اسمبلی بیٹھی تو انہیں احساس ہوا کہ اگر یہاں پر جمہوریت اتی ہے ایک فرد ایک ووٹ آتا ہے تو اقتدار فوراً مشرقی پاکستان کو منتقل ہو جائے گا۔ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ آئین کیوں نہیں بنا؟ بنتا تو کیسے بنتا؟ کیونکہ آئین آتا تو جمہوریت آتی۔ جمہوریت اتی تو الیکشن ہوتے تو اقتدار مشرقی پاکستان کے پاس چلا جاتا۔ اس لیے انہوں نے اس وقت تک الیکشن نہیں کرائے جب تک یہ فیصلہ نہیں کر لیا کہ پاکستان کو توڑ دیا جائے۔

1973 ء کے آئین کی منظوری میں بھی سب سے اہم کردار خان صاحب کا تھا جو اس وقت قائد حزب اختلاف تھے۔ اگر اپ صوبائی خودمختاری کی تعین میں تعاون نہ کرتے جو نیپ کے منشور میں تھا تو متفقہ دستور وجود میں نہ آ سکتا تھا۔ پاکستان کے وسیع تر مفاد کا یہی تقاضا تھا۔ پاکستان کسی سیاسی تصادم کا نہ اس وقت متحمل تھا اور نہ آج ہے۔

خان صاحب 1990 ء کے عام انتخابات میں اپنے آبائی حلقے این اے پانچ چارسدہ سے جے یو آئی کے مولانا حسن جان صاحب کے مقابلے میں ہار گئے اور اپنے جمہوریت پسندی کے عظمت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو تسلیم کر لیا اور کسی پر الزام تک نہیں لگایا۔ الیکشن ہارنے کے بعد اے این پی کے مرکزی صدر کے حیثیت سے فوری طور پر استعفیٰ دے دیا اور عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔

خان عبد الو لی خان کافی عرصہ سے عارضہ قلب کے بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد دماغ کے شریان پھٹ جانے سے 25 جنوری 2006 ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ پاکستانی جمہوریت اپنے پشتون مجاہد، مدبر اور اصول پرست سیاستدان سے محروم ہو گئے۔ ایٔر مارشل محمد اصغر خان کے الفاظ میں ”ولی خان کی رحلت ان تمام لوگوں نے محسوس کی ہوگی جو قانون کی حکمرانی کی قدر کرتے ہیں اور امن اور آزادی کے ساتھ لوگوں کے رہنے کے حق کے بات کرتے ہیں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments