امیرن کے کردار کا تجزیاتی و نفسیاتی مطالعہ


قصہ یا کہانی انسانی زندگی کا سب سے اہم پہلو ہے۔ کائنات کے کینوس میں کہانی کے جرثومے اس وقت ظاہر ہوئے جب آدم کو مسجود ملائک ٹھہرایا گیا اور عزازیل نے آدم کو مسند نشین دیکھ کر تکبر کا ورد کیا۔ کہانی کی تخلیق کے بعد انسان نے اس کو بیان کرنے کے کئی ڈھنگ اپنائے۔ کسی نے داستان کو چھیڑا تو کسی نے ناول کے پنوں میں زندگی کی شمع روشن کی۔ کوئی کہانی کا رخ موڑ کر اسے ڈراما کے آنگن میں لے گیا تو کسی نے اسے افسانے کی فضا سے متعارف کروایا۔ ان چار عناصر کے مجموعے کو افسانوی ادب کا نام دیا جاتا ہے، کیونکہ ان سب کا مرکز ایک ہے اور وہ ہے کہانی۔ انسانی زندگی بہت پیچیدہ اور متنوع جہات کا عکس ہوتی ہے اور انسانی زندگی کی انہی متنوع جہات کے عکس کو پیش کرنے کا نام ناول ہے۔

اردو ادب میں ناول کا آغاز تب ہوا جب ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نہیں 1869 ء میں پہلا ناول مراۃ العروس برصغیر میں پیش کیا۔ ناول کی کئی اقسام ہیں اور ہر قسم اپنی جدا اہمیت رکھتی ہے۔ ان میں سے ایک اہم قسم کو نفسیاتی ناول کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اردو ادب میں نفسیاتی ناول کی بنیاد ڈالنے کا سہرا مرزا ہادی رسوا کے سر ہے۔ انہوں نے 1899 ء میں امراؤ جان ادا ناول لکھ کر اردو ناول کو نفسیاتی میدان سے آشنا کیا۔

امراؤ جان ادا میں ایک ایسی لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے جسے ایک شریف خاندان سے اغوا کر کے لکھنؤ کے بازار میں رنڈی کے ہاں سوا سو روپے کے عوض بیچ دیا جاتا ہے۔ وہاں طوائف کا طوق اس کا مقدر قرار پاتا ہے اور وہ تاحیات اسی اسیری میں گزار دیتی ہے۔

امراؤ جان ادا کے مرکزی کردار امراؤ جان کی زندگی کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ امیرن، جب وہ ماں باپ کی دنیا کی شہزادی ہوتی ہے۔ امراؤ، جب وہ لکھنؤ کے بازار میں رنڈی کے ہاں بیچ دی جاتی ہے۔ امراؤ جان، جب وہ رنڈی کے ہاں خاص تعلیم و تربیت کے بعد طوائف کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ اور آخری حصہ وہ، جس میں امراؤ جان طوائف کے ساتھ ساتھ شاعری کے صحن میں قدم رکھتی ہے اور ادا تخلص کرتی ہے۔ اس مضمون میں امراؤ جان ادا کی زندگی کے پہلے حصے ”امیرن“ کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

امیرن جب والدین کی کائنات کی شہزادی تھی، اسے ہر وہ خوشی، جو بچپن میں مسکراہٹ اور کھلکھلاہٹ کا باعث ہوتی ہے، میسر تھی۔ اس کا والد جمعدار تھا اور اسے شدت سے پیار کرتا تھا۔ اس وقت امیرن کی دنیا گڑیا، مٹھائی، نئے کپڑے اور نئے جوتوں تک محدود تھی۔ روایات کی قید ضرور تھی مگر وہ قید، ایسی قید تھی جسے وہ اپنی راحت کا سامان سمجھتی تھی۔ اور وہ قید تھی اس کی منگنی، جو اس کے پھوپھی کے لڑکے کے ساتھ اس وقت طے پائی تھی جب وہ نو برس کی تھی۔

امیرن کی دنیا بہت سادہ اور شاندار تھی اور سب سے اہم بات یہ کہ تب اسے کسی بھی قسم کی گمشدگی کا خوف (FOMO) 1 نہیں تھا۔ گمشدگی کے خوف سے اس کی آشنائی تب ہوئی جب کھلتے وقت اس کا چھلا (انگوٹھی) کہیں گم ہو جاتا ہے اور وہ رو رو کر اپنا برا حال کر لیتی ہے۔ نقصان کا احساس کھو جانے والی چیز کی قیمت سے نہیں بلکہ اس قیامت سے ہوتا ہے جو گمشدہ چیز کے مالک پر ٹوٹتی ہے۔ بچپن میں چھلا گم ہو جانے پر جو اتنا روئے کہ اس کی آنکھیں سوج جائیں، اندازہ کریں اس پر تب کیا قیامت ٹوٹی ہوگی جب اس کی کل کائنات اندھیر نگری میں کہیں کھو گئی اور اسے رسیوں سے جکڑ کر بیل گاڑی میں ڈال دیا گیا۔ امیرن پر ٹوٹنے والی قیامت سے اسے جان کے خوف (Thanatophobia) 2 کا علم ہوا اور وہ خوف اس کا بچپنا تار تار کرتا ہوا ایک ایسے زخم کا باعث بنا جو تاحیات رستہ رہا اور کبھی مندمل نہ ہو سکا۔

نفسیاتی تناظر میں اگر امراؤ جان ادا کے پہلے حصے امیرن کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں دو نفسیاتی اصطلاحیں ملتی ہیں۔

1۔ نرگسیت (Narcissism)
2۔ ایڈی پس الجھاؤ (Oedipus Complex)
نرگسیت نفسیات کی اہم اصطلاح ہے جو الفت ذات اور خودپسندی کے معنوں میں استعمال کی جاتی ہے۔
”تحلیل نفسی کی اصطلاح میں نرگسیت اپنی ذات سے بے انتہا الفت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔“ ۔
نرگسیت کی اہمیت کو فرائڈ یوں بیان کرتا ہے :

”نرگسیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ فرد کا لیبیڈو اپنی انا پر مرکوز ہو کر اپنی ہی ذات میں گم ہو جاتا ہے۔“

امیرن کا کردار جس طرح نرگسی ڈھانچے میں ڈھلا ہوا ہے وہ عورت کی فطرت کا عکاس ہے۔ امراؤ جان ادا جب امیرن کی زندگی زیر بحث لاتی ہے تب وہ امیرن کی نرگسیت کو یوں بیان کرتی ہے۔

”اچھے سے اچھا کھاتی تھی اور بہتر سے بہتر پہنتی تھی۔ کیونکہ ہمجولی لڑکے لڑکیوں میں کوئی مجھے اپنے سے بہتر نظر نہ آتا۔ پاؤں میں لال گل بدن کا پائے جامہ۔ تن زیب کی اوڑھنی، ہاتھوں میں چاندی کی تین تین چوڑیاں، گلے میں طوق، ناک میں سونے کی نتھنی اور سب لڑکیوں کی نتھنیاں چاندی کی۔“

نرگسیت کا تعلق صرف اپنی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ ہر اس چیز سے ہوتا ہے جو ذات سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہوتی ہے، چاہے وہ کھانا ہو، کپڑا ہو یا کوئی رشتہ۔ امیرن کی زندگی میں نرگسیت کے عنصر کا غالب پن دیکھیے کہ وہ احساس برتری کے اظہار کے لیے اپنے ہونے والے شوہر کا تقابل کریمن کی لڑکی سے کرتی ہے اور احساس برتری کو یوں پیش کرتی ہے۔

”واہ! میرے دولہا کی صورت کریمن ( ایک دھینے کی لڑکی کا نام تھا جو میرے ہم سن تھی) کے دولہا سے اچھی ہے۔ وہ کالا کالا ہے میرا دولہا گورا گورا ہے۔ کریمن کے دولہا کے منہ پر کیا بڑی بڑی سی داڑھی ہے، اور میرے دولہا کے ابھی مونچھیں بھی اچھی طرح سے نہیں نکلیں۔“

دوسری اصطلاح ایڈی پس الجھاؤ ہے۔ اس اصطلاح کو فرائڈ نے لڑکوں کی ماں سے محبت اور وابستگی اور باپ سے مخالفت اور اسے رقیب سمجھنا کے لیے استعمال کی ہے۔ یہ عمل الٹ بھی ہوتا ہے یعنی لڑکی کی باپ سے محبت۔ امیرن بھی ایڈی پس الجھاؤ کی شکار ہے۔

”بے شک ابا مجھے اماں سے زیادہ چاہتے تھے۔ ابا نے کبھی پھول کی چھڑی نہیں چھوائی۔ اماں ذرا سی بات پر مار بیٹھی تھیں۔ اماں چھوٹے بھیا کو بہت چاہتی تھیں۔“

المختصر امیرن کی دنیا جو اجڑ گئی تھی وہ بہت سادہ تھی۔ روایات کی قید ضرور تھی مگر امیرن کی زندگی کسی قسم کے خوف سے بالکل ناآشنا تھی۔ اور یہی امیرن کی اجڑی ہوئی کائنات کا حسن تھا، رعنائی تھی۔ اسی رعنائی کی تباہی کا غم تھا جو اسے تاحیات گمشدہ دنیا کی یاد دلاتا رہا اور ناسور بن کر ڈستا رہا۔

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 66 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments