”ٹیب سٹی“ ہاؤسنگ سوسائٹی: ایم ٹی جے برانڈ کی ایک اور پیشکش؟


”لوگوں کو اتنا مذہبی بنا دو کہ وہ محرومیوں کو قسمت سمجھیں، ظلم کو آزمائش سمجھ کر صبر کر لیں۔ حق کے لیے آواز اٹھانا گناہ سمجھیں، غلامی کو اللہ کی مصلحت قرار دیں اور قتل کو موت کا معین دن سمجھ کر چپ رہیں“

مجھے ان لائنوں کا ریفرنس نہیں ملا کہ کس دور اندیش نے سمندر کو کوزے میں بند کیا ہے مگر غربت و آزمائش جسے ہم آسمانی رضا سمجھتے ہوئے ساری زندگی صابر و شاکر رہنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں کی اس سے بہتر لفظوں میں شاید کوئی وضاحت نہ ہو سکے، خداوندان دین و سیاست نجانے کب سے ”خدائی مصلحت“ کی آڑ میں لوگوں کے بھڑولے خالی اور اپنے بے فکری سے بھرتے چلے آرہے ہیں۔ جب منی ٹریل کی باتیں چلتی ہیں تو انتہائی ڈھٹائی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو لوگوں کے روحانی رہنما ہیں اور لوگ ہم پر صدقے واری جاتے ہوئے تحفہ تحائف کے نام پر ایک بڑی رقم دان کرنے کے علاوہ زمین و جائیداد بھی ہمارے نام کر دیتے ہیں، ثبوت کے طور پر پیپلز پارٹی دور میں منسٹر آف ریلیجیئس افیئرز حامد سعید کاظمی کا بیان ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ جن دنوں وہ حج اسکینڈل کیس کی آزمائش میں سے گزر رہے تھے عقدہ کھلنے پر سرکار کا فرمانا تھا کہ ”میرے مریدین کی تعداد بہت زیادہ ہے جو محبت میں مجھے نوازتے رہتے ہیں“

ہم کیسے عجیب و غریب معاشرے کے افراد ہیں کہ جہاں دکھ، آزمائش اور تکلیفیں صرف کمزور و ناتواں اور غربت کی دلدل میں دھنسے غربا کا پیچھا کرتی رہتی ہیں جبکہ خداوندان ارض ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں؟ یہ آزمائش کے کیسے پیمانے ہیں اور دکھوں کی کیسی تلوار ہے جو ہمیشہ پسے ہوئے طبقہ کے سروں پر لٹکی رہتی ہے؟ ہمارے مذہبی و روحانی پیشواؤں کے چہروں کی رنگت چٹی سفید اور سرخ ٹماٹر جیسی دمک دیتی ہے جبکہ دوسری طرف مریدین کے مرجھائے چہرے اور ہاتھوں پر محنت مزدوری کرنے کی وجہ سے ابھرے ہوئے چھالے ہوتے ہیں یہ اتنا واضح تضاد کیوں؟ آخر یہ بیٹھے بٹھائے ایسا کون سا دھندا کرتے ہیں جو ان کے چہروں کو تروتازہ اور ہاتھوں کو روئی کی طرح نرم رکھتا ہے؟ اور عوام کو اس قسم کی باتوں کی طرف الجھائے رکھتے ہیں کہ

دنیا کی حیثیت مچھر کے پر جتنی بھی نہیں ہے۔
دنیا جی لگانے کی جگہ نہیں ہے۔
بڑی بڑی عمارتیں بنانے سے بچنا چاہیے۔
سادگی میں خدائی ہے۔
بڑے بڑے محلات میں رہنے والے غافل ہوتے ہیں۔

اس قسم کی باتیں تقریباً سب مولوی ہی کرتے ہیں لیکن خاص طور پر اس قسم کی باتیں بڑے دھڑلے سے مولانا طارق جمیل لاکھوں کے اجتماع میں ایک طویل عرصہ سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ مگر آؤٹ پٹ صفر ہے اور صفر ہی رہے گا، کیونکہ قول و فعل میں بلند و بالا پہاڑ جتنا تضاد ہوتا ہے اور یہ تضاد فطری عمل ہے کیونکہ زندگی میں اکارڈنگ ٹو بک یا لائیو پروگرام کی طرح کا کچھ نہیں ہوتا زندگی کی تلخیاں بڑے بڑے ہارڈ اینڈ فاسٹ قسم کے کھوکھلے اصولوں کو چند سیکنڈز میں اڑا کے رکھ دیتی ہیں۔

اب چاہے تو مذہب کی آڑ میں چھپ کر خود کو دیوتا یا فرشتہ ثابت کرتے پھریں یا پھر سعادت حسن منٹو کی طرح عام انسان کی حیثیت سے ایک چٹی ننگی اور تمام قسم کی مصلحت و منافقت سے آزاد ہو کر ایک نیچرل لائف انجوائے کر لیں۔ لوگوں کو دنیا سے نفرت سکھانے والے طارق جمیل نے پہلے ایم ٹی جے بزنس امپائر کی بنیاد رکھی اور سادگی کا درس دینے والے حضرت جی نے افتتاحی تقریب میں بڑے بڑے اداکاروں کو بلا کر کروڑوں خرچ کر ڈالے اور اب شنید ہے کہ مولانا کے فرزند ارجمند ایک ہاؤسنگ سوسائٹی ٹیب سٹی کے نام سے لانچ کرنے جا رہے ہیں جس کی رسم افتتاح کا فریضہ مولانا خود سرانجام دیں گے۔

اگرچہ اس کے متعلق مولانا کا چند سیکنڈ پر مبنی ایک وضاحتی کلپ فیس بک پر چل رہا ہے مگر اتنا کافی نہیں ہے۔ گزارش یہ ہے کہ اس کے متعلق مولانا کو تفصیلی طور پر کھل کے وضاحت کرنی چاہیے، جب عمران خان کی حمایت ببانگ دہل کی جا سکتی ہے یہ تو پھر ان کی ذات کا مسئلہ ہے کیونکہ دھواں خوامخواہ نہیں اٹھتا بلکہ نیچے کوئی چھوٹی موٹی چنگاری ضرور ہوتی ہے۔ اگر بات نکلی ہے تو کچھ نہ کچھ کنکشن ضرور ہو گا، لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مولانا نے کچھ شیئر کے عوض اپنا نام استعمال کرنے کی اجازت دی ہے؟

اگر دنیا صریحاً ناپاک اور کھیل تماشا ہے تو پھر اس تماشے میں اپنے نام کی صورت میں یا چند پرسنٹ شیئر کی مد میں حصہ ڈالنا یا لینا جائز ہو گا؟ حلال میں ناپاک کا ایک قطرہ ملنے سے اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ امید ہے علمائے دین بخوشی اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں گے اور ہمیں بتائیں گے کہ اگر آخرت ہی سب کچھ ہے تو آپ کے نیچے اتنی مہنگی مہنگی گاڑیوں کا کیا کام ہے؟ اگر دنیا مثل مردار ہے تو یہ خدائی وکیل عیش و عشرت کی زندگیاں پھر کیوں انجوائے کر رہے ہیں؟

اگر موت برحق اور ایک دن متعین ہے تو پھر یہ بزدلی کیسی؟ درجنوں حفاظتی لوگوں کو اپنے ساتھ لیے پھرتے رہنے میں آخر کیا منطق ہو سکتی ہے؟ اگر سادگی شعائر مذہبی کا حصہ ہے تو مذہبی پیشوا ہی اس سے نالاں کیوں؟ اگر دنیا سے جی لگانا ناجائز ہے تو پھر یہ امارت پسندی کیوں؟ اگر دنیا بے وقعت ہے تو پھر بزنس ایمپائر کے جھنجٹ کیسے؟

آ خر میں ادب کے ساتھ ایک گزارش ہے کہ بطور سیکولر انسان دوست ہم دنیا کے تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں اور ہمیں آپ کے ان دنیاوی دھندوں سے کچھ لینا دینا نہیں بلکہ خوشی ہوتی ہے کہ اہل مذہب دنیا کی حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں اور بزنس کی دنیا میں اپنا نام کما رہے ہیں مگر خدارا اپنے مریدین و معتقدین پر سے بھی یہ پابندی اٹھا دیں تاکہ وہ بھی آپ کی طرح زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments