”طاقت اور سماج“ :ایک تعارف


معاصر فکری منظر نامے میں قاسم یعقوب کا نام ان لکھاریوں میں شامل ہوتا ہے جنھیں قلم و قرطاس سے رشتہ استوار کیے ابھی طویل عرصہ نہیں گزرا۔ قلیل وقت میں تخلیقی اور تنقیدی سطح پر انھوں نے کئی اہم کتب دنیائے علم و ادب کو دان کی ہیں جن میں ”اردو شاعری پر جنگوں کے اثرات“ ، ”تنقید کی شعریات“ ، ”دیکھ چکا میں موج موج“ ، ”ریت پر بہتا پانی“ اور ایک ناول ”خلط ملط“ خاص طور پر نمایاں ہیں۔ ”طاقت اور سماج“ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

مذکورہ کتاب 2021 ء میں مثال پبلشرز، فیصل آباد سے اشاعت پذیر ہوئی ہے۔ یہ کتاب ان کالموں کا مجموعہ ہے جو گاہ بہ گاہ دانش ویب سائٹ کے لیے قلم بند کیے گئے ہیں۔ ان کالموں کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو انھوں نے طاقت اور سماج کے مابین رشتے کو مترشح کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے طاقت کے مروجہ تصور کو الٹ دیا ہے جو صدیوں سے ہمارے ہاں رائج ہے۔ وہ طاقت کو ایسی قدر خیال کرتے ہیں جو سماج کے افراد پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

وہ طاقت کو تعمیری اور تخریبی زمروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ تخریبی طاقت سے مراد وہ طاقت ہے جو دوسروں کو نقصان پہنچانے کی قدر رکھتی ہے اور تعمیری طاقت سے مراد وہ طاقت ہے جو دیگر افراد معاشرہ کو فائدہ پہنچانے کے قابل ہو۔ تعمیری طاقت عموماً علمی، فکری، جمالیاتی یا ذہنی ہوتی ہے۔ فرد کا سماج سے چوں کہ مضبوط اور مستحکم تعلق موجود ہوتا ہے اس لیے ناممکن ہے کہ وہ طاقت سے مرعوب نہ ہو۔ فرد ایسا اس لیے بھی کرتا ہے کہ اس سے اس کے لیے خواہشات کا حصول آسان اور سہل ہوجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ معاشرے کا ہر فرد ہمہ وقت طاقت کے حصول میں مصروف عمل دکھائی دیتا ہے۔ طاقت کے حصول کو عام طور پر معیشت سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے لیکن مصنف کے خیال میں، انسانی انا کی تسکین بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔ غور کریں تو ماضی میں کئی ایسی جنگیں ہو چکی ہیں جن کا مقصد محض دوسروں کو غلام بنانا یا اپنی طاقت کو ظاہر کرنا تھا۔ میکاولی سے لے کر مشل فوکو اور گرامچی تک کئی مفکرین نے اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جن کی تھیوریوں کا ذکر قاسم یعقوب نے مذکورہ کتاب کے کالموں میں کئی بار کیا ہے۔

پاکستانی سماج کے حوالے سے دیکھیں تو اس میں طاقت کی شکلیں خاصی پیچیدہ ہیں۔ یہاں جاگیرداری، سرمایہ داری اور مذہبی گروہوں کے مابین نہ نظر آنے والا گٹھ جوڑ موجود ہے، جس کا مشاہدہ کرنے کے لیے گہرے تنقیدی اور سماجی شعور کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں طاقت کا وہی روایتی تصور موجود ہے جس میں طاقت ور، وہ ہی سمجھا جاتا ہے جو دوسروں کو نقصان پہنچانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت رکھتا ہو۔ دوسروں کو نقصان پہنچا کر، ڈرا دھمکا کر ، املاک پر قبضہ کر کے اور اس طرح کی دیگر سر گرمیوں سے مسرت کشید کرنے والی طاقت، پاکستانی سماج میں زیادہ معروف ہے۔

سماج میں اخلاق، احترام اور محبت جیسی اعلا اقدار، پر امن اور منظم معاشروں میں پروان چڑھتی ہیں۔ منتشر اور خلفشار زدہ معاشروں میں طاقت کے منفی تصور سے مرعوب ہونے کی روایات عام ہوتی ہیں۔ انتونیو گرامچی کے نزدیک اس طاقت کو بورژوائی طاقت کہا گیا ہے جو ہر صورت میں غالب رہنے کی خواہاں ہوتی ہے اور دوسروں کو روند کر اپنا تسلط قائم کرتی ہے۔ پاکستانی سماج میں چوں کہ عدم اطمینان، عدم تحفظ، انتشار اور لالچ نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں اس لیے ہمارے سماج میں زیادہ تر افراد غیر معیاری تصور زندگی پر یقین رکھنا شروع ہو گئے ہیں۔

دنیا کی قدیم تہذیبوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سماج ہمیشہ دو طبقوں میں تقسیم رہا ہے، ایک اشرافیہ کا طبقہ اور دوسرا محکوم طبقہ۔ سماج کی مجموعی تخلیق ان ہی دو طبقات کی جدلیت پر منحصر رہی ہے۔ اول الذکر اپنی اشرافی اقدار کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ مؤخر الذکر اپنی موجودہ حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہزاروں سال کی جد و جہد کے بعد بھی ہم ابھی تک ذہنی طور پر طاقت اور اشرافیائی اقدار کو ترک کرنے تیار نہیں ہیں۔

جدید دور میں طاقت بذات خود کوئی حیثیت نہیں رکھتی اسے اپنے ساتھ سماج میں موجود دیگر طاقتوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو اس کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ ان دیگر طاقتوں میں مذہبی رہنما، وکیل، صحافی، جاگیردار، سرمایہ دار اور بیوروکریٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ان طاقتوں میں مذہبی طاقت خوفناک ترین ہوتی ہے۔ ان کے پاس ہزاروں کی تعداد میں پیروکار ہوتے ہیں جو سیاستدانوں کے لیے ووٹ کے حوالے سے اہم ہوتے ہیں۔

ان کی طاقت میں اس وقت اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے جب مذہبی علما ان پیروکاروں سے کسی سماجی بیانیے کی تشکیل میں بھی مدد لیتے ہیں اسی لیے سیاسی پارٹیوں کے سر براہ خانقاہوں اور درباروں پرگاہ بہ گاہ حاضری دیتے رہتے ہیں تاکہ ان پر اقتدار اور اختیار کے دروازے کھل سکیں۔ مذہب کا اس طرح سے منفی استعمال حقیقت میں مذہب کی توہین ہے جس سے گریز ضروری ہے۔

قاسم یعقوب کا خیال ہے کہ سماج کی ”سماجیت“ کو معرض تفہیم میں لانے کے لیے سماج میں اثر انداز ہونے والی قوتوں کو پہچاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔ اسی لیے انھوں نے مذکورہ کتاب میں طاقت کی ماہیت کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ طاقت سے جڑے بیانیوں کو بھی بحث کا موضوع بنایا ہے۔ پاکستانی سماج میں طاقت کی کون کون سی شکلیں موجود ہیں اور وہ کس طرح افراد معاشرہ پر اثر انداز ہوتی ہیں، ان کا جواب انھوں نے اس کتاب میں دینے کی کوشش کی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ سب سے طاقتور سماجی بیانیہ مذہب کا ہوتا ہے جس کے نام پر ملا عوام کا استحصال کر رہا ہوتا ہے۔ ہمیں مذہب کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے تا کہ مذہب کی پاکیزگی اور تطہیر برقرار رہے۔ صدیوں سے چلے آرہے مذہبی معاشرے میں ذہن کی فکری ساخت اس طرح سے تشکیل پذیر ہو گئی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طاقت کے زیر اثر چیزوں کو سوچتی، سمجھتی اور نظریوں کو تشکیل دیتی ہے۔ ہم معاشرے میں موجود طاقت کے بیانیوں سے سے جان نہیں چھڑا سکتے لیکن ان کے اثر کو کم کیا جا سکتا ہے۔

نسلی تفاخر اور ذات پات کا نظام بھی پاکستانی سماج میں طاقت کی ایک صورت بن کر سامنے آیا ہے۔ یہ برائی نو آبادیاتی دور کی پیداوار ہے حالاں کہ مسلمان جس نظریے کو ماننے والے ہیں اس میں ذات پات کی سختی سے ممانعت موجود ہے۔ مختصراً ”طاقت اور سماج“ میں قاسم یعقوب نے طاقت کی متنوع جہات کو زیر بحث لا کر ان کی ماہیت کو سمجھا نے کی کوشش کی ہے اور یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ طاقت سے نہیں محبت سے مغلوب کرنے کا راستہ اختیار کیا جائے تو معاشرہ پر امن ہو سکتا ہے۔

نوٹ: ڈاکٹر عبدالعزیز ملک، شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اردو افسانے میں جادوئی حقیقت نگاری (تحقیق) ، تعبیر و تفہیم ( تنقیدی مضامین) ، پنجابی کہانیاں ( انگریزی سے تراجم ) ، فسانہ عجائب:تحقیق و تنقید (تالیف) اور تین تماثیل ( تدوین) ان کی معروف کتب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments