ٹوٹے ہوئے پر والی چڑیا


شام کے سات بجے ہوں گے جب ڈور بیل بجی۔ میں اس وقت ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ پاکستان اور انڈیا کا کرکٹ میچ چل رہا تھا۔ بڑی دلچسپ صورت حال تھی۔ اس موقع پر دروازے کی گھنٹی نے مجھے بے مزہ کر دیا۔ ابھی میں اٹھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ بیل دوبارہ بجی۔ بادل نخواستہ میں گیٹ کی طرف بڑھا۔ گیٹ کا چھوٹا دروازہ کھولا تو ایک اجنبی چہرہ دکھائی دیا۔ وہ ایک لڑکی تھی جس کی عمر بیس اکیس برس رہی ہو گی۔ اس کے تراشیدہ بال کندھوں پر لہرا رہے تھے۔ چند لمحوں کے لیے میں اس کے دلکش چہرے کو دیکھ کر کھو سا گیا۔

”میں آپ کی نئی ہمسائی ہوں۔“ اس سے پہلے کہ میں اس سے کوئی سوال کرتا، اس نے خود ہی اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ میں سر ہلا کر رہ گیا۔

”آج میں نے بریانی بنائی تھی۔ پڑوسیوں سے تعارف کے لیے مجھے یہی طریقہ اچھا لگا کہ کچھ پکا کر انہیں پیش کر دیا جائے۔“ اس نے خوشگوار لہجے میں کہا۔

”شاید یہ بہتر نہیں ہے۔ اچھا ہوتا اگر آپ کو خوش آمدید کہتے ہوئے ہماری طرف سے کچھ پیش کیا جاتا۔“

”خیر کوئی بات نہیں، کسی نہ کسی نے پہل تو کرنی تھی۔“ وہ بولی اور پلاسٹک کا فوڈ کنٹینر میری طرف بڑھا دیا۔ پھر وہ مڑی اور سامنے اپنے مکان کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ دروازہ بند کرنے سے پہلے اس نے سرسری انداز میں مجھے دیکھا اور دروازہ بند کر دیا۔ مجھے یک دم احساس ہوا کہ میں نے اس کا شکریہ تک ادا نہیں کیا۔ پتا نہیں کیا بات تھی کہ میں کچھ کہہ نہ سکا تھا۔ شاید کچھ دیر کے لیے میرے حواس جواب دے گئے تھے۔ دروازہ بند کر کے میں اپنی جگہ بیٹھ کر پھر میچ دیکھنے لگا مگر میری آنکھوں کے سامنے بار بار اس کا چہرہ آ رہا تھا۔

سامنے والا مکان چند مہینوں سے خالی تھا۔ شاید مالک مکان کسی اور جگہ منتقل ہو گیا تھا۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ کون ان کی خبر رکھتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ اس گلی میں کون کون رہتا ہے۔ میں نو سے پانچ والی ایک جاب کرتا تھا۔ دفتر سے گھر آنے کے بعد باہر بھی کم ہی نکلتا تھا۔

اس لڑکی نے مجھے تجسس میں ڈال دیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس کے گھر میں کتنے لوگ ہوں گے۔ شاید مختصر سی فیملی ہو گی۔ ماں باپ اور ان کی بیٹی یا پھر ایک بڑی فیملی ہو گی۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ شادی شدہ ہو اور اپنے خاوند کے ساتھ رہنے آئی ہو۔ بہر حال اگلے روز دفتر سے واپسی پر میں نے اس کے لیے مرغ پلاؤ خرید لیا۔ جب میں اپنی گلی میں پہنچا تو حسب معمول گلی تقریباً ً سنسان تھی۔ کار روک کر میں نے گیٹ کھولا۔

اس دوران سامنے کے مکان پر ایک نظر ڈالی۔ دروازہ بند تھا اور خاموشی تھی۔ کار گیراج میں پارک کر کے میں اندر آ گیا۔ چائے کی طلب تھی۔ چائے کا کپ لے کر میں ٹیرس پر آ گیا اور ایک ایک گھونٹ چائے پینے لگا۔ میری نگاہ سامنے والے مکان پر تھی۔ کھڑکیاں بند تھیں اور عجیب سی ویرانی کا احساس ہو رہا تھا۔ چائے ختم کرنے کے بعد میں نے سوچا کہ نئی ہمسائی کو پلاؤ پیش کر دیا جائے۔

ڈور بیل بجائی اور انتظار کرنے لگا۔ کئی لمحے گزر گئے کوئی آہٹ سنائی نہ دی۔ دوسری بار بیل بجائی کوئی جواب نہ ملا اس کے بعد تیسری بار بیل کا بٹن دبایا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد میں جب واپس جانے کے لیے مڑا تو اچانک آہٹ سی ہوئی اور دروازہ کھل گیا۔ وہ سامنے موجود تھی۔ عام سا لباس پہنے ہوئے تھی مگر اس میں بلا کی کشش تھی۔ پھر میں نے خود کو سنبھالا۔

”میں آپ کا فوڈ کنٹینر واپس کرنے آیا ہوں، اس میں پلاؤ ہے ؛ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔“
اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ”اس کی کیا ضرورت تھی۔“

”جی ضرورت تو نہیں تھی لیکن میں لے آیا ہوں تو قبول کیجیے۔“ میں نے فوراً کہا۔ اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔

”بہت شکریہ۔“ اس نے ڈبا پکڑتے ہوئے کہا اور ایک قدم پیچھے ہٹی۔ میں نے بھی رخ موڑتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور قدم بڑھا دیے۔ اسی دوران مجھے دروازہ بند ہونے کی آواز سنائی دی لیکن میں نے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہ کی۔ گھر آ کر لیٹا تو نہ جانے کیوں اس کے بارے میں سوچنے لگا۔ کوئی تو ایسی بات تھی جو مجھے بے چین کر رہی تھی مگر اس وقت میں ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے سے قاصر تھا۔

زندگی معمول کے مطابق جاری تھی۔ میں دفتر جاتا اور پھر واپس آ کر اپنے روز مرہ کے کام کرتا۔ شب و روز گزرتے رہے۔ پھر ایک شام جب میں ٹی وی دیکھ رہا تھا ڈور بیل بجی۔ آٹھ بجے کا وقت تھا۔ گلی میں کچھ اندھیرا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا تو نئی ہمسائی کا ہیولا دکھائی دیا۔ وہ کچھ پریشان دکھائی دیتی تھی۔

”میں معذرت خواہ ہوں اس وقت آپ کو تکلیف دی لیکن ایک مسئلہ ہے۔ ہمارے گھر کی لائٹ بند ہو گئی ہے، نہ جانے کیا مسئلہ ہے۔ اگر آپ کے پاس کسی الیکٹریشن کا نمبر ہو تو براہ کرم اسے بلا دیں۔“ اس نے کہا۔

ایک الیکٹریشن کا نمبر تو تھا۔ میں نے فوراً موبائل فون نکالا اور نمبر ملایا۔ الیکٹریشن کو مسئلہ بتایا تو اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے آبائی گاؤں میں ہے اور آ نہیں سکتا۔

”اب کیا ہو سکتا ہے؟“ وہ اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔
”چلیے میں دیکھ لیتا ہوں، شاید کوئی چھوٹا سا مسئلہ ہو۔“

”پلیز“ وہ اپنے دروازے کی طرف بڑھی، میں اس کے ساتھ پہلی بار اس کے گھر میں داخل ہوا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا۔ موبائل فون کی ٹارچ آن کر کے میں اس کے ساتھ آگے بڑھا۔ گھر کی فضا خاموش تھی۔

”مین سوئچ کہاں ہے؟“ میں نے سوال کیا۔

”شاید اس طرف ہے۔ میں نے کبھی غور نہیں کیا۔“ اس نے ایک طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ میں نے ٹارچ کی روشنی دیوار پر ڈالی۔ مخصوص ڈبا وہیں پر تھا۔ اس کا ڈھکن ہٹا کر دیکھا، پھر سوئچ کو اوپر کیا تو بلب روشن ہو گئے۔

”لیجیے آپ کا مسئلہ حل ہوا۔ سرکٹ بریکر ٹرپ کر گیا تھا۔“
”اوہ! شکر ہے یہ ٹھیک ہو گیا ورنہ بڑی مشکل ہو جاتی۔“
”تو مجھے اجازت ہے“
”چائے تو پی لیں“
”آپ کو زحمت ہو گی“
”زحمت کیسی، آپ کو بھی تو میں نے زحمت دی“
”نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔“
”چلیں پھر میں آپ کے لیے چائے بناتی ہوں۔“

ڈرائنگ روم میں بٹھانے کے بعد اس نے ٹی وی آن کر دیا تھا۔ اس کے باوجود مجھے خاموشی کا احساس ہو رہا تھا ایسا لگتا تھا جیسے خالی گھر میں صرف ٹی وی کی آواز ہو۔ ڈرائنگ روم کی کھڑکیوں پر دبیز پردے تھے۔ کمرے کا سامان ایسی ترتیب میں تھا کہ کہیں بھی کوئی بے ترتیبی دکھائی نہ دیتی تھی۔ چند منٹ اسی کیفیت میں گزر گئے۔ پھر اندرونی دروازے کا پردہ ہلا اور وہ چائے لے کر اندر آئی۔

چائے کا کپ اور ایک پلیٹ میرے سامنے رکھ دی جس میں بسکٹ تھے۔ میں نے کپ اٹھا کر سپ لیا تو اس نے بھی اپنا کپ اٹھا لیا۔

”کیسی ہے چائے اور بسکٹ بھی لیجیے ناں سرفراز صاحب۔“

”بہت عمدہ ہے لیکن آپ نے میرا نام لیا۔ میں نے آج تک آپ کو اپنا نام تو کبھی بتایا ہی نہیں۔“ میں نے چونک کر کہا۔

”آپ کے گھر کے دروازے پر نیم پلیٹ لگی ہے“ وہ مسکرا اٹھی۔

”اوہ! مگر آپ کے گھر کے دروازے پر نیم پلیٹ مالک مکان کے نام کی ہے لہٰذا آپ اپنا تعارف خود ہی کروا دیں تو مہربانی ہو گی میں کب تک آپ کو نئی ہمسائی کہتا رہوں گا۔“

”جی ضرور، میرا نام شبانہ ہے اور میں یہاں قریب ہی ایک دفتر میں کام کرتی ہوں۔ اسی لیے یہاں گھر لیا ہے۔“

”کیا آپ اکیلی رہتی ہیں؟“
”جی نہیں ہم تین ہیں۔“
”تو ان سے بھی ملوائیں ناں“

”آج نہیں پھر کبھی۔“ اس نے کہا۔ میں سمجھا کہ شاید یہ رخصت ہونے کا اشارہ ہے۔ چناں چہ اٹھ کھڑا ہوا۔ بیرونی دروازے کے پاس وہ رکی اور بولی۔

”براہ کرم اپنا فون نمبر دے دیں کبھی کوئی ضرورت ہی پڑ جاتی ہے۔“

میں نے اسے فون نمبر نوٹ کروا دیا پھر گھر چلا آیا۔ رات کو دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ کیا واقعی اس کے گھر کا سرکٹ بریکر ٹرپ کر گیا تھا یا یہ محض بہانہ تھا۔ دوسرے دن جب میں ابھی دفتر سے نکلنے ہی والا تھا تو میرے موبائل فون کی رنگ ٹون بجنے لگی۔ میں نے دیکھا ایک انجانا نمبر تھا۔ فون پک کیا تو دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ وہ شبانہ تھی۔ سلام و دعا کے بعد اس نے ایک دوا بتائی جو اسے چاہیے تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ دوا اعصاب کو سکون دینے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

”کوئی مسئلہ ہے کیا؟ کیا ڈاکٹر نے آپ کے لیے یہ دوا تجویز کی ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”میں آپ کو بعد میں بتاؤں گی۔ پلیز آپ یہ دوا لے کر آئیے گا۔“

واپسی پر میں نے گھر جانے سے پہلے اس کے گھر کی بیل بجائی۔ اس نے دروازہ کھولا تو میں نے بلا تاخیر دوا اس کے حوالے کر دی۔ اس نے چائے کی دعوت دی لیکن میں شکریہ ادا کر کے اپنے گھر آ گیا۔ اس کے بعد اکثر ایسا ہونے لگا۔ اس کا فون میرے دفتر سے چھٹی کے وقت آتا اور کوئی نہ کوئی چیز منگوانے کے لیے ہوتا۔ پیسے نہ کبھی میں نے مانگے تھے اور نہ کبھی اس نے دیے تھے۔ ایک دن ایسے ہی فون آیا۔

”جی فرمائیے کیا لاؤں؟“ میں نے پوچھا۔
”آج کچھ نہیں منگوانا بس آپ ہی آ جائیے“ اس کی مترنم آواز سنائی دی۔
”کیا مطلب؟“

”بس آج آپ سے باتیں کرنے کو دل چاہ رہا ہے اور جو چیزیں منگاتی رہی ہوں اس کے پیسے بھی دینے ہیں، آپ جلدی آئیے گا۔ کھانا بھی ساتھ ہی کھائیں گے۔“

”پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں۔ البتہ کھانے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔“ میں نے کہا۔
”اچھا کتنے بجے آئیں گے۔“
”سات بجے تک“

میں جب اپنی گلی میں پہنچا تو حسب معمول گلی سنسان تھی۔ نومبر کا آغاز تھا۔ فضا میں ٹھنڈک تھی۔ میں نے پہلے گاڑی اپنے گھر کے گیراج میں پارک کی پھر کیک کا ڈبا اٹھایا جو میں اپنے ساتھ لایا تھا اور اس کے دروازے کی بیل بجائی۔ دروازہ کھلا۔ وہ میرے سامنے تھی۔ اس نے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ میں اس کے پیچھے چلتا ہوا ڈرائنگ روم کی طرف بڑھا۔

”کیا کھائیں گے؟“
”سچ تو یہ ہے کہ ابھی بھوک نہیں ہے۔“ میں نے کہا۔

”اچھا آئیں آج آپ کو اپنا گھر دکھاتی ہوں۔“ اس نے کہا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ آج کسی راز سے پردہ اٹھنے والا ہے۔ وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئی۔ یہ بیڈ روم تھا۔ کمرہ نفاست سے سجا ہوا تھا۔ کھڑکیوں پر براؤن کلر کے دبیز پردے تھے۔

”کھڑے کیوں ہیں، بیٹھ جائیں ناں“ اس نے کہا۔ میں ڈبل بیڈ کی سائیڈ پر موجود آرام دہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ بیڈ کے کنارے پر ٹک گئی۔

”تو آپ یہاں اکیلی ہی رہتی ہیں۔“
”بس ایسا ہی سمجھ لیں، آپ بتائیں کہ ابھی تک اکیلے کیوں ہیں؟“
”شاید مجھے وہ ملی ہی نہیں جس کی تلاش ہے۔“

”میں آپ کو کیسی لگتی ہوں؟“ اس نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ میرے لیے یہ سوال غیر متوقع تھا۔ میں فوری طور پر کچھ کہہ نہ سکا۔ میں نے غور سے اسے دیکھا۔ یقیناً وہ دلکش خد و خال کی مالک تھی۔ جواب دینے کے بجائے میں اٹھ کھڑا ہوا۔

”آپ نے مجھے گھر دکھانا تھا، چلیں باقی کمرے بھی دکھائیں۔“

وہ اٹھی اور میرے بالکل قریب آ گئی۔ اس قدر قریب کہ میں اس کی گرم گرم سانسوں اور بدن سے اٹھنے والی خوشبو کو محسوس کر سکتا تھا۔ اس نے یک دم میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔

”گھر بھی دکھا دوں گی اتنی جلدی کیا ہے؟“

میں نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ میں اس کے ہاتھوں کی نرمی کو محسوس کر رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں نے ململ کے تھان کو چھوا ہو۔ وہ دو تین قدم پیچھے ہٹی اور پھر بیڈ کے کنارے پر بیٹھ گئی، میں کسی معمول کی طرح اس کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔ میرا ہاتھ ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کسی ٹرانس میں ہوں۔ اس نے ذرا سا جھک کر اپنا سر میرے کندھے پر رکھ دیا۔

”میں بہت اداس ہوں، بہت اکیلی ہوں، گلہ کروں تو کس سے کروں، مجھے زندگی سے گلہ ہے۔“ اس کا لہجہ عجیب تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی آواز کسی اندھے کنویں سے آ رہی ہو۔ میں اسے خود سے الگ کرنا چاہتا تھا مگر ایسا کر نہ سکا۔

”تمہیں کیا دکھ ہے؟ مجھے بتاؤ شاید میں کچھ کر سکوں۔“

”بس ایسے ہی بیٹھے رہیں، کاش وقت تھم جائے، کاش۔“ وہ کہتے کہتے رک گئی۔ نہ جانے کتنے پل گزر گئے۔ پھر اچانک اس نے اپنا سر اٹھایا اور جھنجھلائے ہوئے لہجے میں بولی۔

”آپ کچھ کہتے کیوں نہیں، چپ چاپ کب تک بیٹھے رہیں گے۔“
”میں کیا کہوں؟ میں تمہیں سمجھ نہیں سکا۔“

”سمجھنا ضروری ہے کیا؟ میں آپ کی جگہ پر ہوتی تو کسی کو سمجھنے میں دیر نہ لگاتی۔ خیر چھوڑیں“ وہ اٹھی اور بے تکلفی سے مجھے کھینچتے ہوئے کہا۔

”آئیں آپ کو کچھ اور بھی دکھانا ہے۔“

بیڈ روم سے نکل کر وہ لاؤنج میں آئی اور پھر ایک کوری ڈور سے گزر کر ہم مکان کے پچھلے حصے میں آ گئے۔ وہاں ایک پنجرہ رکھا تھا۔ پنجرے کا دروازہ کھلا تھا اور اس میں ایک چڑیا موجود تھی۔ چڑیا کو دیکھ کر اس کے چہرے پر رونق آ گئی۔ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اس نے پانی کی بوتل پکڑی اور پنجرے میں موجود چھوٹی سے کٹوری میں پانی ڈالا۔

”تو تم نے یہ چڑیا پالی ہوئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ تم نے اس کے پنجرے کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے پھر بھی یہ اڑی نہیں پنجرے کے اندر ہی بیٹھی ہے۔“ میں نے کہا۔

”ہاں یہ کہیں نہیں جاتی۔ جا بھی نہیں سکتی، یہ میرے پاس ہی رہتی ہے۔ میرے ساتھ باتیں بھی کرتی ہے۔ اب میں اس کی زبان سمجھنے لگی ہوں۔“ وہ پر مسرت لہجے میں بولی۔ عین اسی وقت چڑیا نے چوں چوں کی۔

”دیکھا! آپ کے بارے میں پوچھ رہی ہے۔“
وہ چڑیا سے باتیں کرنے لگی۔ میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔
”شبانہ! یہ چڑیا اڑتی کیوں نہیں؟“

”میں نے بتایا تو ہے یہ اڑ نہیں سکتی۔ اس کا پر ٹوٹا ہوا ہے۔ ایک دن یہ روشن دان سے اندر آئی تو کمرے میں پنکھا چل رہا تھا اور یہ پنکھے سے ٹکرا کر بیڈ پر گری۔ میں تو سمجھی کہ مر جائے گی لیکن اس کی زندگی باقی تھی۔ البتہ اس کا ایک پر ٹوٹ گیا۔ اسی دن سے یہ میرے پاس ہے۔“ اس نے وضاحت کی۔

میں نے غور سے اسے دیکھا۔ سرسری طور پر کچھ اندازہ نہیں ہوتا تھا لیکن غور سے دیکھنے پر لگتا تھا کہ واقعی اس کا ایک پر کچھ ٹیڑھا ہے۔ شبانہ نے اس کا پنجرہ اٹھا لیا۔

”اب ٹھنڈک ہو گئی ہے، میں اسے اندر کوری ڈور میں رکھ دوں۔“ ہم اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئے۔
”اب اور کیا دکھانا ہے۔“ میں نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
اس نے پنجرہ ایک جگہ رکھا اور میرے قریب آتے ہوئے بولی۔

”بہت کچھ ہے دکھانے کو؟“ اس نے دوپٹا اتار کر ایک طرف رکھا پھر کھلے گریبان کو ایک سائیڈ پر کھینچا۔ اس کے شانے پر ایک نشان نظر آ رہا تھا۔ اس کے بعد اس نے آستین اوپر کی۔ بازو پر کہنی سے اوپر بھی ویسا ہی نشان تھا۔

”اس طرح کے نشان اور بھی ہیں، دیکھیں گے آپ؟“
”یہ چوٹیں کیسے لگیں؟ یہ نیل کیوں پڑے ہوئے ہیں؟“ میرا لہجہ الجھا ہوا تھا۔
”یہ چوٹیں اور نیل مجھے میرے مقدر سے ملے ہیں اور کیا کہوں؟“ وہ غمگین لہجے میں بولی۔
”شبانہ! پتا نہیں تمہاری کیا مجبوری ہے لیکن تم صاف صاف بتا نہیں رہی ہو۔“ وہ ہنس پڑی۔
”کیا آپ کو مجھ سے ہمدردی محسوس ہو رہی ہے۔ جانے دیجیے میں ایک معمولی سی لڑکی ہی تو ہوں۔“

”تم بہت عجیب لڑکی ہو۔ تم نے کہا تھا کہ اس گھر میں رہنے والے تین ہیں۔ ایک تم ہو گئیں اور ایک چڑیا، یہ بتاؤ کہ تیسرا آدمی کون ہے؟“ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔

”اس سے نہ ہی ملیں تو بہتر ہے؟“
”میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔“

”چھوڑیں ناں، آئیں کھانا کھاتے ہیں۔“ اس نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ عین اسی وقت ایک عجیب سی آواز آئی۔ جیسے کسی نے پکارا ہو۔ شبانہ کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھر آئے۔

” اوہو! اس کی آنکھ کیسے کھل گئی۔“ وہ ایک طرف بڑھتی چلی گئی۔

”آپ لاؤنج میں بیٹھیں، میں آتی ہوں۔“ اس نے جاتے جاتے کہا۔ وہ ایک کمرے کا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔ میں وہاں کیسے رک سکتا تھا۔ اس کمرے میں تیسرا فرد موجود تھا اور میں اسے دیکھنا چاہتا تھا۔ میں بھی اس کے پیچھے لپکا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ وہ بھی ایک بیڈ روم تھا۔ سامنے بیڈ پر ایک بوڑھا لیٹا ہوا تھا۔ اس کی عمر ستر برس سے کسی طور کم نہیں لگتی تھی اور اس کا جبڑا ٹیڑھا تھا اور بازو کی حالت دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ فالج کا شکار ہے۔ شاید وہ شبانہ کا باپ تھا۔ شبانہ سائیڈ ٹیبل پر رکھے جگ سے گلاس میں پانی ڈال رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر بوڑھے کے چہرے پر شدید ناگواری کے تاثرات ابھر آئے تھے۔

”ککون ہے یہ۔“ اس نے گرج کر کہا۔ فالج کی وجہ سے لفظ صاف نہیں تھے مگر سمجھ میں آتے تھے۔
”یہ ہمارے پڑوسی ہیں، بہت اچھے آدمی ہیں۔“ شبانہ نے وضاحت کی۔
”صاف صاف کیوں نہیں کہتیں کہ تمہارا یار ہے۔“ بوڑھا چیخا پھر اس کے منہ سے گالیوں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔
”آئیں باہر چلیں۔“ شبانہ نے مجھ سے کہا۔
”ان کا تعارف تو کرا دو، کیا یہ تمہارے ابا جان ہیں؟“ میں نے بڈھے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

”یہ میرا خاوند ہے۔ میرے ماں باپ نے اپنی غربت اور پانچ بہنوں کا واسطہ دے کر مجھے اس سے شادی پر مجبور کیا تھا۔ فالج کی وجہ سے ایک بازو اور ایک ٹانگ بالکل حرکت نہیں کرتی لیکن آپ دیکھ ہی چکے ہیں زبان خوب چلتی ہے اور ایک بازو بھی خوب چلتا ہے۔ غصے میں جو چیز اس کے ہاتھ میں آئے مجھ پر کھینچ مارتا ہے۔ قریب بلاتا ہے اور جسم پر نیل ڈال دیتا ہے۔“ شبانہ پھٹ پڑی۔

بڈھا ابھی تک مغلظات بک رہا تھا۔ ”تم اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتیں؟“
شبانہ آنسوؤں بھری آنکھوں سے ہنس پڑی۔ ”نہیں چھوڑ سکتی۔ میرے پر ٹوٹے ہوئے ہیں۔“

اس کا جملہ سن کر مجھے یوں لگا جیسے چاروں طرف اندھیرا چھا گیا ہو۔ میں ایک جھٹکے سے مڑا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments