ماحولیاتی تبدیلیاں اور ساون کا بدلتا تصور


آج سے کچھ برس قبل آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں رہائش کے شروعاتی دنوں میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ہلکی پھلکی بارش میں اکثر میں اپنے مقامی کلاس فیلوز سے جب یہ کہتا تھا کہ آج موسم بہت اچھا ہے تو وہ حیرت کا اظہار کرتے کہ آج تو موسم خاصا خراب ہے میرے مقامی اور یورپین کلاس فیلوز کے پاس اچھے موسم کا تصور چمکتے سورج اور نکھری نکھری دھوپ سے تھا لیکن چونکہ میرا بچپن سندھ کے ایک سیمی ایرڈ زون کے گاؤں میں گزرا تھا جو کہ اچھڑو تھر ریگستان کے پہلو میں واقع ہے جہاں بارشیں بہت کم ہوتی تھیں اور بچوں کو کاغذ کی کشتیاں بنانے کے لیے ساون کا طویل انتظار کرنا پڑتا تھا جو کہ کسی سال تو بغیر برسے ہی گزر جاتا تھا۔

تاریخی طور پر بھی ہمارے ہاں بارشوں کا ذکر ہمیشہ محبت سے کیا جاتا رہا ہے خاص طور پر ایسے خطے جو اکثر خشک سالی کا شکار رہتے ہیں ان کے لیے مون سون کی بارشیں خوشیوں کی نوید لاتی ہیں۔ ایسے علاقوں کے کسانوں اور چرواہوں کے خواب ان بارشوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پانی کی کمی کے سالوں میں ساون کی گھٹائیں وہاں کے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتی تھیں۔ بر صغیر کی کئی دیگر زبانوں کی طرح سندھی زبان کی کلاسیکل سے لے کر جدید شاعری میں بھی ساون کی برساتوں کی بھرپور تعریف کی گئی ہے۔ خاص طور پر حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے سر سارنگ میں ساون کی برساتوں کی منظر نگاری حسین ترین انداز میں کی گئی ہے

پھر اتر کی اور سکھی ری، بادل برج بنائے
ساون رت میں لوٹ کے آیا، بادل مینہ برسائے
دکھیاری ہے دیس کی دھرتی، دکھ سب کا مٹ جائے
ایسا جل برسائے، کہ پیاس بجھے پیاسوں کی
ترجمہ: آغا سلیم

مطلب یہ کہ جل تھل برستے ساون کو جنوب ایشیائی ادب میں محبتوں اور مسرتوں کا موسم سمجھا جاتا ہے اور کون ہے جس نے اس خطے میں یہ گیت نہ سنا ہو:

تیری دو ٹکیاں دی نوکری میں میرا لاکھوں کا ساون جائے

لیکن اس سال یہ ساون یا مون سون کی بارشیں ہمارے لیے ایک قدرتی آفت بن گئیں ہیں۔ ملک کے کئی علاقے اس وقت بھی زیر آب ہیں اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ تین کروڑ سے زیادہ لوگ ایک ہی وقت میں کسی قدرتی آفت سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان بارشوں کے نقصانات کو کس طرح بیان کیا جائے ہر طرف دل دہلا دینے والے مناظر ہیں۔ کچے گھروں، پکی فصلوں، سندھ کی کنڈھی بھینسوں سے لے کر موھن جو دڑو کے آثار قدیمہ۔ مطلب ہماری معیشت اور بنیادی ڈھانچے سے لے کر تاریخ و تہذیب تک ایسا کیا ہے جو ان بارشوں سے متاثر نہیں ہوا۔ ابھی تک نقصانات کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ دریائے سندھ کے دونوں جانب سیلابی ریلے راستہ مانگ رہے ہیں اور پانی کی تاریخی گزرگاہوں پر رکاوٹوں کی وجہ سے شہر اور دیہات خطرات کی زد میں ہیں۔

ایسی صورتحال میں جب ستمبر کے وسط میں دوبارہ جنوبی سندھ میں بارشوں کے امکانات کا اعلان ہوا تو لوگ سہم سے گئے۔ سندھ میں یہ بڈو کا موسم کہلاتا ہے، جس کی ہلکی پھلکی بارشوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ساون میں اگنے والے سبزے کا سہارا بنتی ہیں لیکن کل جب صحرائے تھر کے معروف شاعر امر ساھڑ نے تھر میں اپنے گاؤں سے بارش کی وڈیو واٹس ایپ کی تو میرا فوری جواب تھا کہ یار اس سال تو بارشوں اور ساون کی جل تھل سے خوف آنے لگا ہے۔

ویسے بھی ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرم ہوتی دنیا میں مون سون کا نظام بے ترتیب ہو جائے گا۔ اور اس کی بے ترتیبی سے اس طرح کی آفات کے امکانات بڑھتے چلے جائیں گے۔ دوسری جانب ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم سرما کا دورانیہ کم ہو رہا ہے اور دنیا کے کئی حصوں میں بہار تو جیسے ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورتحال میں میرے ذہن میں یہ سوال ابھرنے لگا ہے کہ کیا ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مختلف موسموں سے جڑے رومانوی تصورات بھی بدل جائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments