بعد از سیلاب نقصانات: تیار رہیں


سب مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جب اس کے ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے، تو پورے جسم میں درد محسوس ہوتا ہے۔

دنیا ایک گلوبل ویلیج ہے۔ جس میں کوئی بھی کسی سے ورچوئلی دور نہیں۔

پاکستان دنیا کی کاربن ایمیشنز میں صرف ایک فیصد حصہ دار ہے۔ لیکن ان سے ہونے والے اثرات کا سامنا کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔

آج کیا پکا رہی ہیں؟ چکن کڑاہی۔ میرے شوہر اب تو ہر روز یہی کہتے ہیں کہ سبزیاں بڑی مہنگی ہو گئی ہیں۔ ہاتھ نہیں لگایا جاتا۔ پیاز ہی دو سو روپے کلو ہے۔ بہتر ہے روز مرغی کا ہی کچھ بناؤ۔ جیب بھی خوش اور کھانے والے بھی۔ سیلاب کے بعد ہونے والی ایک واٹس ایپ گروپ کال کا حال۔

صاحب آج دکان بند ہے۔ استفسار پر پتہ چلا کہ گھریلو گیس کی قیمت فی کلو چار سو روپے ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ مارکیٹ میں شارٹیج بھی ہے۔ سیلاب کی وجہ سے راستے بند ہیں۔ سپلائی بہت کم اور مشکل سے ہو رہی ہے۔

جنوب سے شمال تک پورا پاکستان پانی میں ڈوب کر بہہ گیا۔ بلوچستان سے کے۔ پی۔ کے تک تیار باغ اور کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ لائیو اسٹاک کا بھاری نقصان اس سے سوا ہے۔ اور انسانوں کا تو نہ ہی پوچھیں کہ ان پر کیا بیت گئی۔ لیکن آج ہم سیلاب زدہ علاقوں کی نہیں بلکہ سیلاب سے محفوظ لوگوں کی بات کرتے ہیں ( جو کہ ایک خام خیالی ہے ) ۔

زرعی ملک جس کی معیشت کا بائیس فیصد فصلوں پر ہے۔ اس سال کیا حصہ ڈلے گا؟ شاید اونٹ کے منہ زیرہ۔ بلوچستان میں کالے سیب کے کھڑے نخلستان اجڑ گئے۔ جو درختوں پر لگے تھے وہ پانی کا ریلا لے گیا۔ جو پیک تھے وہ منڈیوں تک ہی نہ پہنچ سکے۔ سندھ میں تو کھجور لٹکی لٹکی گل گئی۔ پانی کے قطرے اس کے لیے زہر ہوتے ہیں۔ مسلسل اور وقت سے پہلے ہونے والی بارشوں نے انھیں تیار ہونے ہی نہیں دیا۔ ہری کھجوریں پھپھوندی اور کیڑوں سے کالی ہو گئیں۔

کپاس کی کیش فصل ڈوب گئی۔ جس نے ہم سب کے لیے کپڑے، اور بستر بنانے کے لئے استعمال ہونا تھا۔ دنیا کے بڑے بڑے برانڈز کو سپلائی ہونا تھا جو خالص کپاس کی چیزیں بناتے ہیں۔ ایڈیڈاس، گیپ، مارک اینڈ سپینسر، آئیکیا جیسے نامی گرامی بزنس آئیکون اپنی کاٹن کی پراڈکٹس کے لئے آپ پر بھی انحصار کرتے ہیں۔ تو اس دفعہ آپ ان سے کیا کمائیں گے؟ ملکی سطح پر ہر نام جیسا کہ کھاڈی، باریزے، کیسریا، الکرم، گل احمد وغیرہ وغیرہ جو پہلے ہی ایک ایک لان کا فارمل جوڑا آٹھ سے بیس ہزار تک بیچتے ہیں۔ اس دفعہ تو نہیں معلوم بات کہاں پر جا کر رکے؟

اور عام شہری جو سوٹ پندرہ سو سے دو ہزار میں خریدتا تھا، اس دفعہ وہ بھی بھول جائیں۔ چلیں یہ بھی چھوڑیں جہاں موسم کے پانچ کپڑوں کے جوڑے بنتے تھے، اس دفعہ تین بنا لیں گے۔ کوئی فکر کی بات نہیں۔ بستر، تکیے، کشنز وغیرہ سال میں دو کی بجائے ایک بار بدل لیں گے۔

چاول جو ابھی ایک مہینے پہلے تک کمر جھکا جھکا کر، کھڑے پانی کی حدت برداشت کر کے، پیروں اور ہاتھوں کو گلا کر، مئی، جون کی گرمیوں میں بویا گیا تھا۔ اس کو پانی نے ہی ڈبو دیا۔ پچھلے دو سال سے ایک کلو اچھا باسمتی تین سو روپے سے اوپر تھا۔ اس دفعہ کا اندازہ آپ خود کر لیں۔

گرمیوں کی سبزیاں زیر آب آ کر ختم ہو گئی ہیں۔ اور اگست سے اکتوبر اگلے موسم یعنی سردیوں کی سبزی بیچنے کا وقت ہے۔ آپ کا کسان اور زمیندار تو ابھی تک ریلیف کا منتظر ہے۔ اور کاشت کے رقبے خشک ہونے کے منتظر۔ تو اس کا یہی مطلب ہوا ناں کہ سردیوں کی ترکاری بھی اس دفعہ آسمان سے باتیں کرے گی۔ سرسوں، قلفے، گوبھی سرسوں کا ساگ، سبز لہسن، پیاز، میتھی، پالک، گوبھی، سبز لوبیا، دھنیا، پودینہ اور کئی دوسری سبزیاں جو مفت میں، سوغات کی صورت آپ کے دیہاتی رشتے دار، آپ کو بھیجتے تھے، اس سرما، اس کی امید نہ رکھیں۔ بلکہ اگر مہنگے داموں شہر کے بازار میں مل جائیں، تو شکر ادا کیجیے گا۔

تو وہ باتیں جو سب سے اوپر لکھی گئی ہیں۔ وہ شاید اب آپ کو متعلقہ لگیں۔ کہ سیلاب تو کسی اور حصے میں آیا ہے اور لیکن بھگتنا ہم سب کو پڑے گا۔ مجموعی نقصان کی تکلیف کے دور رس اثرات میں سب پسیں گے۔ روز کی روٹی سالن اب مزید مہنگی ہو گی۔ مہمانداری جو پہلے ہی بہت سی جیبوں پر بھاری پڑ گئی ہے۔ اب خرچے کے لحاظ سے مزید مشکل ہو گی۔

اور اگر آپ واقعی ان دیہاتوں، دور دراز بستیوں، وہاں کے لوگوں، کسانوں اور زمینداروں کو اپنے جسم کا دوسرا حصہ سمجھتے ہیں تو:

آپ امن کے دنوں میں ان کے حق کے لئے عوامی، حکومتی، ملکی سطح پر بولیں۔
ایسے علاقوں میں ریلیف سے زیادہ وقت سے پہلے تیاری پر کام کریں۔
آپ میں سے ہر کوئی جس حد تک ہو سکتا ہے، روز مرہ استعمال کی سبزی اپنے گھر پر لگائیں۔
پھل دار درختوں لگانے کو فروغ دیں۔

غیر ضروری چیزوں پر اپنا وقت، پیسہ، اور توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے چھوٹے کسانوں کی مدد اور غریبوں کی بحالی پر خرچ کریں۔

کیونکہ تنہا صرف انسان یا دنیا میں آتا ہے یا موت کو گلے لگاتا ہے۔ ورنہ جینے کے لئے، زندگی میں پر امن رہنے کو ہمارے اردگرد سبھی موجود اپنی اہمیت رکھتے ہیں۔ جس کو ہم جتنا جلد جان اور مان لیں گے، اتنا سب کے لیے اچھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments