بہادر خاتون بیگم کلثوم نواز کی کچھ ”یادیں کچھ باتیں“


” پرویزی مارشل لا ء“ کا دور تھا میاں نواز شریف حمزہ شہباز کے سوا اپنے خاندان کے تمام افراد کے ساتھ سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے رمضان المبارک کا آخری عشرہ مدینہ منورہ میں گزرتا تھا غالباً ابرائے ہوٹل کی چھٹی منزل تھی پاکستان سے متعدد مہمان بھی عشائیہ پر مدعو تھے جن میں چوہدری نثار علی خان قابل ذکر ہیں میاں نواز شریف نے بیگم کلثوم نواز سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ’کلثوم! کیا آپ انہیں جانتی ہیں ”تو بیگم کلثوم نواز نے یہ کہہ کر کہ“ میں نواز رضا کو اس وقت سے جانتی ہوں جب وہ پرویز مشرف حکومت کے خلاف تحریک میں ہمارے ساتھ قدم ملا کر چلتے رہے”، نواز شریف کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ“پھر میرے تعارف کرانے کا تو کوئی فائدہ نہیں ہوا ”۔

بیگم کلثوم نواز سے ملاقاتیں کم ہوئی ہیں لیکن ان تک کالموں اور تحریروں کے ذریعے رسائی تھی۔ جب سعودی عرب میں جلاوطنی کے دوران سرور پیلس میں پاکستان سے حج کے لئے آئے ہوئے صحافیوں اور ان کی بیگمات کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا گیا تو مریم نواز کا پہلا سوال یہ تھا ان میں بیگم کلثوم نواز کون ہیں؟ تو انہوں میری اہلیہ کا جس پرتپاک انداز میں استقبال کیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا ماں بیٹی کے دل میں ہماری کس قدر عزت و تو قیر تھی جو اب تک قائم ہے

چار سال قبل کی بات ہے بیگم کلثوم نواز 11 ستمبر 2018 ء کو لندن کے ایک ہسپتال میں وفات پا گئیں وہ پچھلے کئی ماہ سے کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف جنگ لڑ رہی تھیں لیکن نواز شریف کا مقابلہ ایسے کم ظرف سیاسی مخالفین سے ہے جو بیگم کلثوم نواز کی علالت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے پھر اس عظیم عورت نے مر کر ہی یقین دلایا کہ وہ واقعی بیمار ہے ان سے یہ تاریخی جملہ منسوب ہے ”میں ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتی تھی جہاں اپنی بیماری کا یقین دلانے کے لئے مرنا پڑتا ہے“

سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے احتساب عدالت میں پیشی کے بعد اڈیالہ جیل میں قدم ہی رکھا تھا تو ان کی رفیقہ حیات کی دائمی جدائی کی روح فرسا خبر ان کا تعاقب کر رہی تھی، میاں نواز شریف کو احتساب عدالت میں پیشی کے وقت ہی بیگم کلثوم نواز کی تشویشناک حالت کے بارے میں اطلاع تو موصول ہو گئی تھی لیکن جب وہ اڈیالہ جیل پہنچے تو انھیں بتایا گیا کہ ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز اب اس دنیا میں نہیں رہیں، میاں نواز شریف جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے اس صدمے کے لئے خود کو بہت دنوں سے ذہنی طور پر تیار کر رہے تھے۔ اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کو قیدی نمبر 3421 اور مریم نواز کو قیدی نمبر 3422 الاٹ کیا گیا تھا

نواز شریف اور مریم نواز جس حالت میں بیگم کلثوم نواز کو چھوڑ کر پابند سلاسل ہونے کے لئے پاکستان واپس آئے، اس کی حقیقت کا اندازہ ان کے ان آخری جملوں سے لگایا جا سکتا ہے جب وہ بیگم کلثوم نواز کو الوداع کہہ کر پاکستان جانے کے لئے روانہ ہو گئے۔ میاں نواز شریف نے بیگم کلثوم سے کہا کہ ”ذرا آنکھیں کھولو، کلثوم! باؤ جی۔ کلثوم! باؤ جی۔“ لیکن کوئی جواب نہ پا کر وہ انھیں یہ کہہ کر ” اللہ آپ کو صحت دے، اللہ تعالیٰ آپ کو تندرستی دے“ پاکستان روانہ ہو گئے۔

مریم نواز کے دل خراش الفاظ بھی ہر درد دل رکھنے والے شخص کو رلا دینے کے لئے کافی ہیں۔ ”امی ابو آئے ہیں، آنکھیں کھولیں، دیکھیں ابو جان آئے ہیں، وہ آپ کے پاس کھڑے ہیں، امی آپ کو آواز آ رہی ہے نا؟“ آئے روز لوگ دنیا میں اس نوعیت کے صدمات برداشت کرتے رہتے ہیں لیکن یہ اپنی نوعیت کا منفرد صدمہ ہے۔ جب بیگم کلثوم نواز اپنی زندگی کی آخری لڑائی لڑ رہی تھیں۔ اس وقت میاں نواز شریف اور مریم نواز کو ان کے پاس ہونا چاہیے تھا لیکن ان دونوں کو اپیل کے حق سے محروم ہو جانے کے خدشے کے پیش نظر بیگم کلثوم نواز کو تشویش ناک حالت میں چھوڑ کر پاکستان واپس آنا پڑا۔

بیگم کلثوم نواز سیاسی سوجھ بوجھ اور فہم و فراست رکھنے والی خاتون تھیں، ان کی شخصیت کا وزیراعظم نواز شریف پر بڑا گہرا اثر تھا۔ میاں نواز شریف کی حکومت کے آخری دنوں میں تو وہ بیگم کلثوم نواز سے ہر سیاسی ایشو پر مشاورت کرتے تھے بیگم کلثوم نواز ایک گھریلو خاتون تھیں، میاں نواز شریف سے 47، 48 سالہ رفاقت کے دوران وہ بہت کم سیاسی منظر پر نظر آئیں لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ادبی ذوق رکھنے والی خاتون ہونے کے ناتے وہ اپنے ”باؤ جی“ کے لئے اہم سیاسی امور میں مشیر کا کردار ادا کرتی رہیں۔

میاں نواز شریف ملتان سکھر موٹر وے کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے سکھر گئے تو ایک گھنٹے کے ہوائی سفر میں انہوں نے جہاں دیگر باتیں کیں وہاں بتایا کہ بیگم کلثوم نواز اکثر آپ کے کالم پڑھ کر مجھے سناتی ہیں جن میں ان کو مریم نواز کو ان کا سیاسی جانشین بنانے کا مشورہ دیتا تھا وہ پہلی بار 12 اکتوبر 1999 کے بعد اس وقت منظر عام پر آئیں جب جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا دور میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی، شریف خاندان کے کم و بیش تمام مردوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تو بیگم کلثوم نواز نے مارشل لاء کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور لاہور سے بحالی جمہوریت کا قافلہ لے کر نکلیں تو اس وقت کی غاصب حکومت نے ان کا راستہ روک لیا اور وہ جس گاڑی میں سوار تھیں، اسے کرین کے ذریعے فضا میں 12 گھنٹے تک ان کی گاڑی کو معلق رکھا گیا لیکن بیگم کلثوم نواز نے جمہوریت کی جدوجہد کو نہیں چھوڑا۔

بیگم کلثوم نواز جمہوریت کا قافلہ لے کر راولپنڈی پہنچیں تو ان کا استقبال سینیٹر چوہدری تنویر خان، سردار نسیم خان، وحید محفوظ، ملک شکیل اعوان اور دیگر رہنماؤں نے کیا۔ بیگم کلثوم نواز نے گوجر خان میں چوہدری محمد ریاض کی رہائش گاہ پر جلسے سے خطاب کیا، راولپنڈی میں سینیٹر چوہدری تنویر خان اور وحید محفوظ نے اپنے دروازے ان کے لئے کھول دیے۔ چودھری تنویر کو بیگم کلثوم نواز کو اپنی رہائش گاہ پر بلانے کے جرم میں جیل میں ڈال دیا گیا اور پھر وہ کم و بیش دو سال تک اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتے رہے۔

سردار نسیم  نے اقبال روڈ پر مسلم لیگ ہاؤس میں کلثوم نواز کا استقبال کیا اس سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ایک حویلی کے مکین نے بیگم کلثوم نواز کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ راولپنڈی میں بیگم نجمہ حمید گل اور اسلام آباد میں چودھری جعفر اقبال کی رہائش گاہ ان کی قیام گاہیں بن گئیں تاہم ابتدائی ایام میں وہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے ہاں بھی مقیم رہیں۔ جب بیگم کلثوم نواز چوہدری برادران کی رہائش گاہ پر قدم رکھتیں تو چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہیٰ اس رہائش گاہ میں قدم نہیں رکھتے تھے لیکن اس وقت کی جبر کی حکومت نے شریف خاندان اور چوہدری برادران کے سیاسی راستے جدا کر دیے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ بیگم کلثوم نواز کے پاس مسلم لیگ نون کا کوئی عہدہ نہیں تھا لیکن وہ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی اہلیہ ہونے کے ناتے مسلم لیگ نون میں عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ جب تک میاں نواز شریف کے خلاف اٹک قلعہ کیس کی سماعت جاری رہی، وہ باقاعدگی سے اسلام آباد سے اٹک قلعہ جاتیں اور مقدمہ کے دوران نواز شریف کے لئے قوت کا باعث بنتیں۔ اس دوران ان سے بارہا ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ نواز شریف کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران میں اور سید عترت جعفری (جو ان دنوں اٹک قلعہ میں نواز شریف کے خلاف کیس کی کوریج کر رہے تھے) اٹک قلعہ گئے تو ہماری بیگم کلثوم نواز سے اس وقت بھی ملاقات ہوئی جب وہ اٹک قلعہ سے باہر انتظامیہ سے اندر جانے کی منتظر تھیں۔

میں نے ان سے اس موقع پر ان سے کہا کہ ”آپ میاں نواز شریف کے لئے جس بیکری کا سامان لے کر جاتی ہیں، مجھے بھی اس بات کا موقع دیں کہ میں ان کے لئے کچھ چیزیں بھجواؤں گا۔ تو انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ“ میں جو کچھ لے کر جاتی ہوں یہ بھی آپ کی طرف سے ہے”۔ 10 دسمبر 2000 کی وہ رات بھی مجھے یاد ہے جب بیگم کلثوم نواز ایف 10 میں واقع رہائش گاہ کی سیڑھیاں اتر رہی تھیں اور انھوں نے اس موقع پر استفسار پر کہا کہ“ ہم اپنی خوشی سے یہ ملک نہیں چھوڑ رہے۔ ہمیں نکالا جا رہا ہے، لیکن ہم اس بات پر خوش ہیں کہ ہم جہاں جا رہے وہاں ہمیں اللہ تعالیٰ نے بلایا ہے”۔ بیگم کلثوم نواز نے میاں نواز شریف کے ہمراہ سعودی عرب جلاوطن ہونے سے قبل پارٹی کی قائم مقام قیادت کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے بزرگ سیاست دان راجہ محمد ظفر الحق کو پارٹی کا چیئرمین اور مخدوم جاوید ہاشمی کو قائم مقام صدر بنا دیا۔

بیگم کلثوم نواز کے ساتھ ہر سیاسی معاملے پر مشاورت کیا کرتے تھے۔ یہ بیگم کلثوم نواز ہی ہیں جنھوں نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ زندگی میں ہی اپنی ہونہار صاحبزادی مریم نواز کو اپنا سیاسی جانشین بنا دیں۔ میاں نواز شریف نے جو کہ مریم نواز کو سیاست میں آنے سے روکتے تھے، اپنی بیگم کے مشورے کو قبول کر لیا۔ ان کے دیے ہوئے مشورے سے ثابت ہو گیا کہ انھوں نے درست فیصلہ کیا۔ آج میاں نواز شریف نے وقت کے حکمرانوں سے شکست تو قبول نہیں کی لیکن 47، 48 سالہ رفاقت کے خاتمے نے کوہ ہمالیہ جیسے مضبوط عزم رکھنے والے شخص کو اندر سے توڑ پھوڑ دیا ہے۔

مریم نواز ان کے لئے پہلے بھی قوت کا باعث تھیں اور انھوں نے کبھی اپنی قید کو میاں نواز شریف کی کمزوری نہیں بننے دیا۔ اب ان کے لئے قوت و استقامت کا باعث بنی رہیں۔ میاں نواز شریف کی جلاوطنی کے زمانے میں مجھے کم و بیش ہر سال سعودی عرب جانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، میں ان دنوں میں میاں نواز شریف سے ملاقات کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا۔ مجھے مدینہ منورہ میں قیام کے دوران میاں نواز شریف کے ساتھ مسجد نبوی میں روزہ افطار کرنے کا موقع ملتا رہا ہے جبکہ میاں نواز شریف کے ساتھ آبرائے ہوٹل، جو میاں نواز شریف کی قیام گاہ ہوا کرتی ہے، میں پرتکلف طعام ہمارا منتظر ہوتا تھا۔

بیگم کلثوم نواز کینسر کے عارضہ میں مبتلا تھیں۔ ان کو اگست 2017 میں لندن کے ہارلے سٹریٹ کلینک لے جایا گیا جہاں انہیں کینسر تشخیص کیا گیا۔ جون 2018 میں دل کا دورہ پڑنے پر انہیں اسی طبی مرکز میں دوبارہ داخل کرایا گیا، جہاں وہ وفات تک زیر علاج رہیں بیگم کلثوم نواز کی طبیعت بگڑی وہ تقریباً ایک سال 25 دن تک لندن میں زیر علاج رہیں۔ پاکستان کی سیاست کا یہ المیہ ہے کہ سیاسی مخالف نواز شریف کی علالت کو ”ڈرامہ“ قرار دیا جاتا ہے۔

اس طرح کا ظلم بیگم کلثوم نواز کے ساتھ بھی ہوا ہے ان کی علالت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا لیکن جب یہ بہادر خاتون کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف لڑتے لڑتے اس دار فانی سے کوچ کر گئیں تو اس وقت سیاسی مخالفین کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ گو بیگم کلثوم نواز زیادہ دیر تک سیاسی منظر پر نہیں رہیں لیکن مختصر مدت کے دوران انہوں نے ملکی سیاست پر جو نقوش چھوڑے ہیں’ تادیر تک انہیں یاد رکھا جائے گا۔

احتساب عدالت میں میاں نواز شریف کو سزا سنائی جانی تھی لہذا عدالت کے فیصلے سے ایک ہفتہ قبل میں خود احتساب کورٹ چلا آیا میری احتساب عدالت میں آمد کا مقصد میاں نواز شریف کو بیگم کلثوم نواز کی دو تصاویر ان کو پیش کرنا تھا جن میں ممتاز ماہر تعلیم و شاعرہ ڈاکٹر فہمیدہ تبسم نے بیگم کلثوم نواز کو ان کی وفات پر منظوم خراج عقیدت پیش کیا تھا میں نے یہ تصاویر میاں نواز شریف کے سیکیورٹی افسر عبدالشکور کے سپر کر دی تھے جو میاں صاحب نے مری میں اپنی رہائش گاہ پر پہنچتے ہی دیکھیں تو خاصی دیر اس تصویر میں کھوئے رہے یہ منظر کیمرہ کی آنکھ نے محفوظ تو کر لیا لیکن نواز شریف کے جذبات کو قلمبند نہیں کیا جا سکتا تھا بعد ازاں جب میاں صاحب کو سزا ہو گئی تو انہوں نے وہی نظم والی تصویر منگوا لی اور پھر تنہائی میں اس تصویر سے ہی باتیں کرتے رہتے ڈاکٹر فہمیدہ تبسم کی ایک نظم کا عنوان ہے

۔ ”بیگم کلثوم نواز کے نام“
پردیس سے نکلیں ہوئیں جنت کو روانہ

ہائے وہ غم ہجر وہ ہجرت کا زمانہ
آندھی تھی اڑائے لے گئی ہستی کی طنابیں

کم ظرف عدو جس کو سمجھتا تھا بہانہ
پابند قفس لوگ رہے آنکھ سے اوجھل

لے دید کی حسرت ہوئیں دنیا سے بیگانہ
معصوم سی صورت پہ تھا مسکان کا غازہ

تہذیب میں اخلاق میں تو سب میں یگانہ
خائف تھا تیری جرات کردار سے آمر

ہے یاد ہمیں تیری قیادت کا زمانہ
بے جرم و خطا قید کی روداد سنانا

اللہ کے دربار میں کلثوم ریحانہ

جن دنوں جیل میں میاں نواز شریف سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ”جیل میں رولز کے مطابق جو سہولتیں ملنی چاہیے تھیں وہ مجھے نہیں مل رہیں ’ٹی وی بھی نہیں ملا اور اخبار بھی ایک ہی آتا ہے جو میں سارا دن پڑھتا رہتا ہوں اور یہ اخبار پڑھ پڑھ کر مجھے زبانی یاد ہو جاتا ہے۔ میاں نواز شریف بیگم کلثوم نواز کی یادوں کے سہارے اپنی جیل کاٹ رہے تھے، ان کی تنہائی میں ان کی ساتھی بیگم کلثوم نواز کی تصویر ہوتی تھی۔ انھوں نے کہا کہ“ مجھے جیل میں سب سے زیادہ یاد کلثوم نواز کی آتی ہے آج بھی افسوس ہے کہ جیل حکام نے کلثوم نواز کی زندگی کے آخری دن میری ان سے بات نہیں کروائی۔

نواز شریف نے بتایا کہ انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس میں ان پر اٹھنے والے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے ہیں۔ نواز شریف کو این اے 63 سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار ممتاز نے اپنی شکست کے عوامل سے آگاہ کیا اور کہا کہ میرے حلقے کے بلدیاتی اداروں کے سربراہوں نے ”جیپ“ کا ساتھ دیا۔ ہم انتخاب تو نہ جیت سکے لیکن ”جیپ ’کی شکست کا باعث بن گئے جس پر میاں نواز شریف نے پوچھا کہ آیا یہی حلقہ پی ٹی آئی کے امیدوار نے خالی کیا ہے۔ میں نے رازداری سے میاں نواز شریف سے چوہدری نثار علی خان سے قطع تعلق کرنے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ“ یہ وقت مناسب نہیں پھر کبھی بات کروں گا ”۔

بہرحال انہوں نے چوہدری نثار علی خان کے بارے میں کوئی بات کرنے سے گریز کیا۔ نواز شریف کو عام قیدیوں کے ساتھ نماز جمعہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ انہوں نے جیل میں ملاقات کرنے والے کمرے میں ہی نماز ظہر ادا کی۔ مریم نواز کو اپنے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی اینجیو پلاسٹی کا علم ملاقاتیوں کے ذریعے ہوا ایک تو لمحہ کے لئے اپنے شوہر کی علالت کا سن کر قدرے پریشان ہوئیں لیکن اس بہادر خاتون نے اپنے اوپر پریشانی حاوی نہیں ہونے دی اور کہا کہ ”االلہ تعالی کے فضل و کرم سے ہمیں اتنا حوصلہ ملا ہے۔ یہ دن بھی گزر جائیں گے“ ۔ بیگم کلثوم نواز کی صحت سے متعلق استفسار پر مریم نواز نے بتایا کہ انہوں نے آنکھیں کھول دی ہیں۔ ہوش میں آنے کے بعد وہ میرے اور ابو کے بارے میں پوچھتی رہتی ہیں لیکن ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ہم مقدمات میں مصروف ہیں ان کو جیل بھجوائے جانے کے بارے میں نہیں بتایا۔ انہوں نے کہا ہم جلد جھوٹے مقدمات میں بری ہوں گے اور جلد بیگم کلثوم نواز سے ملاقات کریں گے۔ نواز شریف سے ملاقات کے دوران جیل سے باہر مسلم لیگی کارکن ”نواز شریف کو رہا کرو“ ”گو عمران گو“ کے نعرے لگاتے رہے۔

مسلم لیگی کارکن سید شبیر حسین شاہ بیشتر وقت نعرے بازی میں مصروف رہتا ہے۔ نواز شریف سے ملاقات کے روز مسلم لیگی کارکنوں کا مجمع لگ جاتا ہے۔ مسلم لیگی کارکنوں کے نعروں کی آواز نواز شریف اور مریم نواز کو بھی سنائی دیتی اور ان کے حوصلے بڑھانے کا باعث بنتی ہے مریم نواز نے بتایا کہ ان کا بیشتر وقت مطالعہ اور عبادت میں گزرتا ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے بھی پاکستان کے بارے میں کچھ پتہ لگتا ہے۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ سرکاری ٹی وی دیکھنے سے نہ دیکھنا بہتر ہے۔ مسلم لیگ (ن) برطانیہ کے سینئر نائب صدر ناصر محمود بٹ کو اڈیالہ جیل میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز سے ملاقات کی اجازت نہیں مل رہی۔ وہ ہر ملاقات کے روز مایوس واپس لوٹ جا تا تھا۔

نواز شریف، مریم نواز کی بیرکوں کی جانب پولیس اہلکاروں کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔ سابق وزیراعظم کو 2 جبکہ مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک ایک مشقتی دیا گیا تھا، جو جیل کے اندر ان کو ضرورت کی اشیا فراہم کرتے تھے۔ مریم نواز دوران قید جیل میں پہلے سے قائم شعبہ درس و تدریس سے منسلک ہونا چاہتی ہیں لیکن انہیں عام خواتین قیدیوں سے بھی دور رکھا گیا، اس دوران وہ عمومی فروغ تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاسیات پر بھی بطور ٹیچر فرائض انجام کی خواہش رکھتی تھیں۔

جبکہ دوسری جانب قید و بند کی سخت ترین زندگی کو آسان اور معمول کے مطابق گزارنے کے لیے انھوں نے ملکی و غیر ملکی سیاسی شخصیات کی کتب بھی طلب کیں جن میں نیلسن مینڈیلا، بے نظیر بھٹو پر کتب قابل ذکر ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے کتب کی ایک فہرست بھی دی ہے جن کو وہ زیر مطالعہ لانا چاہتی تھیں۔ جیل میں انہوں کتب سے دوستی کر لی تھی۔ ان کے حوصلے بلند تھے اور وہ پابند سلاسل رہ کر ایک نئی تاریخ رقم کر رہی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments