مائتھالوجیکل اسٹوریز۔ ایک جہان حیرت۔ قسط نمبر 1


دوستو مائتھالوجی ایک جہان حیرت ہے۔ ایک ادھ بدھ دنیا ہے۔ دوسرا جہان ہے، ایک پیرالل ورلڈ ہے جسے سمجھنا بالکل بھی مشکل کام نہیں ہے۔ میں نے اس پر جتنی ریسرچ کی، جتنا بھی غور کیا انڈین مائتھالوجی کو سب سے الگ ہی پایا۔ آپ جب وقتاً فوقتاً میری یہ سیریز پڑھیں گے اور ہماری وڈیوز میں اس موضوع پر گفتگو سنیں گے تو آپ کو خاص طور پر سناتن دھرم کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہو جائے گا اور مجھے امید ہے جو لوگ دعوت و تبلیغ پر کام کرتے ہیں یہ سیریز ان کے لیے خصوصاً فائدہ مند ثابت ہوگی۔

ہندو مائتھالوجی پر بات کرتے ہوئے میں ان کہانیوں کا آغاز شری گنیش سے کروں گی۔ کیونکہ شری گنیش کو سیارہ مشتری کے ساتھ خصوصی نسبت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تمام مذہبی کتب یعنی وید پران اور مہا بھارت جس کتھا کو سب سے پہلے گنیش جی نے قلم بند کیا تھا۔ ہندوستان میں گنیش جی کو پرتھم پوجیہ کہہ کر ان کی پوجا کی جاتی ہے۔ ہم آپ کو یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ ہمارے ہندو دوست کہاں کہاں پر تھوڑا سا اپنے اصل راستے سے بھٹک گئے ہیں دوسری طرف آپ کو اس حیرت کدے میں بہت کچھ سیکھنے کے لیے بھی میسر ہو گا۔

شری گنیش کی جنم کتھا یوں بتائی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ جب شیو شنکر کیلاش پربت چھوڑ کر ہمالیہ کی کسی دور دراز چوٹی پر تپسیا (مراقبہ) کرنے گئے تو ماتا پاروتی بہت اکیلی پڑ گئیں۔ ایک دن یونہی بیٹھے بیٹھے انھیں خیال آیا تو وہ اشنان کرنے گئیں اور وہاں اپنے بدن کی میل اتار کر ایک پتلا بنا دیا اور پھر اپنی دیویہ شکتی سے اس کے اندر جان ڈال دی۔ وہ بچہ جس کا پتلا کوئی آٹھ نو برس کی عمر کے لڑکے کا تھا جب بولنے لگا تو اسے کہا گیا کہ تم یہاں باہر کیلاش پربت پر کھڑے ہو کر پہرہ دیتے رہو جب تک میرا اشنان (غسل) ختم نہ ہو جائے اندر کسی کو مت آنے دینا۔

یہ وہ دن تھے جب شیو شنکر دس برس کے بعد اپنی تپسیا ختم کر کے کیلاش پر واپس لوٹ رہے تھے۔ اب گنیش وہاں پہرہ دینے لگا اور جیسے ہی شنکر جی آئے تو اس نے انھیں نہیں پہچانا اور راستے میں کھڑا ہو گیا کہ آپ اندر نہیں جا سکتے۔ یوں وہاں بحث و تکرار ہوئی۔ گنیش نے تمام دیوتاؤں کو نہ صرف اپنی طاقت کے بل پر ہرا دیا بلکہ کسی کو بھی اندر نہیں جانے دیا۔ وہ کسی کی بات سننے تک کے لیے تیار نہ تھا۔ تبھی شنکر جی کو غصہ آیا اور انہوں نے اس بچے کا سر کاٹ دیا۔ اس کے بعد ماتا پاروتی کی دہائی اور ان کے غصے کی تاب نہ لاتے ہوئے انھیں اس بچے کا سر واپس لوٹانا پڑا لیکن انہوں نے اب اس بچے کو انسان کا نہیں ایک ہاتھی کا سر لگا دیا۔

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا کسی انسان یا دیوتا (بمعنی فرشتہ) کے بدن پر اتنی میل ہوتی ہے جس سے ایک لڑکے کا پتلا بن سکے؟ کیا ہمارے بدن سے کبھی اتنی میل اتری ہے؟ کبھی نہیں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

دوسری جانب آج اگر آپ میں سے کوئی دس منٹ کے لیے میڈیٹیشن کرتا ہے تو وہ اتنا پرسکون اور شانت ہوجاتا ہے کہ اگلے پچھلے دلھ بھول جاتا ہے اور کہاں شنکر جی، جو دس برس کے بعد تپسیا کر کے لوٹے اور اتنے مراقبہ کشی کے بعد بھی اتنا غصہ ان کے اندر باقی رہ گیا تھا کہ جس وجہ سے ایک چھوٹے سے بچے کا سر کاٹ دیا؟ یعنی اپنے دیوتا ہونے کا مان تک نہیں رکھا؟

دوستو یہ کتھائیں ظاہر ہے اوریجنل نہیں ہیں یہ صرف کانسیپچوئل ہیں۔ جیسے حکایات سعدی۔

یا جیسے اقوال زریں پر بنائی گئیں وہ کہانیاں جو ہم خود گھڑ لیتے ہیں تاکہ ان میں جو سبق چھپا ہے وہ اپنے مفہوم سمیت آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ محفوظ رہ جائے۔

اب ہم آپ کو آئندہ مضامین میں اس کا درست مفہوم بھی بتائیں گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ ہندوستان میں مظاہر پرستی کی اصل وجہ کیا تھی۔

دراصل اس کہانی کی پیدائش جس میں گنیش کا جنم ہوتا ہے اور پھر اس کا سر کاٹ کر ہاتھی کا سر لگایا جاتا ہے، رشیوں اور منیوں کے اعلی اور فطین اذہان کی بدولت ہوئی، ہندوستان کے رشی منی نہایت ہی زیرک اور دانا تھے وہ تمام علوم و فنون میں یکتا اور تصوف کے ماہرین تھے۔ اس کہانی میں جسم کا میل جس سے شری گنیش بنائے گئے دراصل انسان کے مادی وجود کا اہنکار کا غرور ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ انسان کے پاس وہ علوم بھی تھے جن سے فرشتے نابلد ہیں تو جب انسان کمال اوصاف اور علم کے اس نقطہ ء عروج پر پہنچ جاتا ہے تو دراصل وہ اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک دیوتا یا انسانی روپ میں دیوی کی شکل والی ماتا پاروتی کے بدن کے میل سے جس بچے نے جنم لیا وہ انتہائی مغرور، خود کو دانائے کل سمجھنے والا اور عاقبت نا اندیش تھا۔

اس کے پاس شکتی یعنی طاقت تو بے شمار تھی لیکن اس پر کنٹرول کرنے والا نفس اس کے قابو میں نہ تھا۔ وہ زیرک اور مدبر نہیں تھا۔ شیو جو کہ مائتھالوجی میں کال پرش بھی ہیں، جو خدا کی اس انرجی کی طرف اشارہ کرنے والا دیوتا ہے جو دراصل فنا کرنے والی طاقت ہے تو جب اس بچے نے اپنے ہی باپ کو نہیں پہچانا تو معرفت کہاں رہی؟ لہذا اگر ایسا ہو تو وجود کے اہنکار کا سر کاٹنا لازمی ہوجاتا ہے۔ اب کہانی میں یہ کہا گیا تھا کہ شیو جی نے گنیش کے سر کو کاٹا۔

ہتھیا یا قتل کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ کیونکہ ہتھیا کرنے اور کاٹنے میں بہت فرق ہوتا ہے، لہذا رشیوں نے یہ کہانی بنائی کہ خدا جب کسی کے وجود کے غرور کا سر کاٹتا ہے تو پھر اسے وہی سر دوبارہ نہیں دیتا یعنی جب کسی کو معرفت عطا کی جاتی ہے تو اس کی عقل، بدھی، علم، حلم، شکل و صورت تک بدل دی جاتی ہے۔ اب شیو جی نے ماتا پاروتی سے کہا کہ اسے اب اس جیو یعنی جاندار کا سر لگایا جائے گا جو اس لمحے دنیا سے جانے والا ہو گا یعنی اس کے بعد فوراً جس کی روح قبض کی جائے گی۔ اب یہ سر ہاتھی کا تھا۔

دوستو کیا آپ جانتے ہیں باقاعدہ سائنٹفکلی پروو ہے کہ ہاتھی نہایت بیدار مغز اور ذہین ترین جانوروں میں شمار ہوتا ہے لہذا آپ رشیوں کے علم کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ آج سے لاکھوں برس پہلے یہ بات جانتے تھے اسی لیے کہانی میں استعارے کے طور پر ہاتھی کا سر استعمال کیا۔ ہاتھی کا سر یعنی وشال بدھی۔ بہت زیادہ عقل۔ دانش بہت زیادہ قابلیت، مذہبی تنظیم و تعلیم یعنی مشتری۔

بڑے کان یعنی ہاتھی کے کان بڑے اس لیے ہیں کہ وہ دور سے بھی سن سکتا ہے اور قریب سے بھی یعنی دور و قریب کو یکساں سننے والا ہو۔ چھوٹی آنکھیں۔ جب کوئی انسان دور بین ہوتا ہے یا دور تک نظر رکھنے اور دیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو آنکھیں سکوڑ کر دیکھتا یعنی آنکھیں چھوٹی ہوجاتی ہیں یہ استعارہ ہے دور اندیشی کا۔ ایک دانت والا یعنی بغیر تفریق کیے تمام انسانوں کو ایک کنبے کا فرد ماننے والا۔ موٹا پیٹ۔ یعنی ہر ایک کے راز، راز رکھنے والا۔

پرماتما جب کسی کے اہنکار کا سر کاٹتا ہے تو اسے یہ تمام خوبیاں عطا کرتا ہے۔

اب ذرا مجھے بتائیے آج سے لاکھوں برس قبل جب لکھنے کا رواج نہیں تھا جب کاغذ قلم تک ایجاد نہیں ہوئے تھے تو اس سے زیادہ آسان طریقہ کون سا تھا جس سے انسان کو معرفت کی یہ باتیں ذہن نشین کرائی جاتیں۔

اپ ٹھیک سمجھے! قصہ گوئی /داستان گوئی اور نقاشی۔ پتھروں پر نقاشی۔

دوستو۔ گنیش کتھا ابھی جاری ہے۔ پاروتی کے بدن سے اتری مٹی دراصل باڈی consciousness ہے۔ پرماتما جب کسی اوتار کو دھرتی پر بھیجتے ہیں تو انسان اپنے تکبر و غرور کے باعث اسے پہچان نہیں سکتا۔ جیسے وہ بچہ جو ویسے تو اپنی ماں کے حکم کی تعمیل کر رہا تھا لیکن حقیقت میں اس نے باڈی کونشئیسنیس کے غرور میں آ کر اپنے باپ تک کو نہیں پہچانا۔ اور باپ بھی وہ جو اس وقت دھرتی پر اوتار ہے۔ دوسری جانب اگر ہم دیکھیں تو شیو جی نے اگر سر کاٹا ہی تھا تو دوسرے کسی جاندار کو مارنے کی کیا ضرورت تھی اپنی طاقت اور شکتی سے کوئی نیا سر پیدا کر لیتے لیکن جو وجوہات تھیں ان کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں۔ اس لیے پرماتما جب کسی کے اہنکار کے سر کو کاٹتے ہیں، باڈی کانشئیسنس کے سر کو کاٹے ہیں تو کج سے پھر soul consciousness دیتا ہے۔ وزڈم دیتا ہے۔ تو شنکر جی نے اس سر کو کاٹ کر بچے کو نام دیا گنیش۔

دوستو! اس بات کو یہیں روکتے ہیں۔ مجھے عرصہ دراز مائتھالوجی پر ریسرچ کرتے ہوا ہے۔ این ایل پی کو بھی سمجھا ہے۔ آیورویدک کو بہت گہرائی سے جانچا ہے۔ یوگ دھیان پر غور و فکر کیا ہے۔ میں نے بہت عرصے تک شری مدبھاگوت پر ریسرچ کی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر ملک میں ویدک تعلیمات پر ریسرچ انسٹیٹیوٹ موجود ہیں۔ یہ این ایل پی کیا ہے، یہ مائنڈفلنیس کیا ہے یہ آیورویدک لیونگ (ayurvedic living) ہے۔ رشیوں نے آج سے لاکھوں برس پہلے لمحہ موجود میں زندہ رہنے کا فن انسان کو سکھایا تھا۔ یوگ شکتی کا دار و مدار ہی لمحہ ء موجود کی طاقت پر ہے۔ ہم مسلمان صرف تعصب کی بدولت ادیان عالم پر ریسرچ سے محروم ہیں اور جنہوں نے سیکھنا تھا وہ سیکھ کر انسانیت کو لمحہ موجود کے وجود کی روشنی دکھا رہے ہیں۔

ہم نے دور اندیشی کی بات کی تھی کہ چھوٹی آنکھیں دور اندیشی کو ظاہر کرتی ہیں۔ گنیش کا منہ چھوٹا ہے۔ یعنی کم بولنا، کان بڑے ہیں زیادہ سننا اور وشال بدھی یعنی گہرائی سے غور و فکر کرنا۔ یہ کہانی ہمیں مائنڈفلنیس سکھانے کے لیے گھڑی گئی تھی۔ اہل ہند نے غور و فکر بند کر دیا اور اس کہانی کی پوجا شروع کر دی۔

دوستو ہاتھی کے کان صرف بڑے ہی نہیں ہوتے وہ چھاج جیسے بھی ہوتے ہیں۔ چھاج کیا کرتا ہے؟ چھانتا ہے۔ تو اس کے اندر یہ پیغام چھپا ہوا تھا کہ آپ نے ہر بات نہیں سننی ہے۔ صرف اچھی اور مفید کارآمد باتیں سننی ہیں۔ اور بری باتیں چھان کر پھینک دینی ہیں۔ ذرا غور کیجیے۔ یہ باتیں قریب تین برس سے سمجھا رہی تھی لیکن اس طریقے سے نہیں جیسے آج لکھ رہی ہوں تو کیا ہو رہا تھا لوگوں کو لگ رہا تھا کہ میں شاید ہندو دھرم پھیلا رہی ہوں۔ یہی غلط فہمیاں اور خود ساختہ سوچیں انسانیت کی موت ہیں۔

اچھا آپ آج سوشل میڈیا اور میڈیا سے کیا کچھ نہیں سنتے؟ پورا دن آپ میسجز کی بھرمار میں رہتے ہیں آج سوشل میڈیا کے ذریعے آپ کے لاکھوں فینز بن جاتے ہیں، ہزاروں لاکھوں فولورز ہوتے ہیں، آپ کوئی بھی کام کر رہے ہیں، کسی بھی فیلڈ سے منسلک ہیں۔ حتی کہ نہیں بھی ہیں صرف گھریلو خاتون ہیں تو ہر رشتے دار کے ساتھ بیٹھ کر غیبتیں، برائیاں، غیر ضروری پیغامات، باتیں، الفاظ کی بازگشت، کیا کیا نہیں سنتے ہیں؟ کیا یہ سب آپ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال۔ دیتے ہیں؟ نہیں نا

دوستو! اگر ہم کوشش بھی کریں تو ایک کان سے دوسرے کان کے درمیان جو فاصلہ ہے اس میں ہمارا تھرڈ آئی چکرا پڑا ہوا ہے۔ ایک چھوٹا سا گلینڈ جو DMT ریلیز کرتا ہے۔ جس کا کام انسانی دماغ کو سکون و راحت پہنچانا ہے۔ جب یہ لاکھوں کروڑوں الفاظ بے ہنگم شور کی مانند آپ کے تھرڈ آئی چکرا سے ٹکراتے ہیں تو وہیں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ باہر نہیں نکل پاتے۔ یہاں سے آپ کی روحانی و نفسیاتی بیماریوں کا آغاز ہوجاتا ہے۔

”ہر انسان کے لیے وہی ہے جس پر وہ غور و فکر کرتا ہے۔“
جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments